ایک بھاشا:دو لکھاوٹ، دو ادب
ہمارے نامور دوست ، بزرگ محقق، مورخ ادب، شاعر اور بزعم خود ماہر لسانیات پروفیسر گیان چند جین نے تاحیات اردو زبان و ادب کی تدریس اور خدمت کی ہے۔ ان کی کئی کتابوں کے بارے میں بے خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں ان کی جگہ مدت مدید تک قائم رہے گی۔ تصنیف و تعلیم کے اس محترم اشرافی پیشے سے انہوں نے نام اور عزت بھی خوب کمائی ہے۔ اب وہ عمر کی آخری منزلیں طے کر رہے ہیں اور انہیں شاید یہ خیال آرہا ہے کہ ساری عمر اردو پڑھ پڑھا کر انہوں نے کوئی گناہ کیا ہے اور اب اس کا پرائشچت یوں کیا جانا چاہئے کہ اردو کو، اور اس کے بولنے والوں کو، لسانی تنگ نظری، سماجی استحصال، سیاسی علیحدگی پسند گی اور بالآخر پاکستان نوازی کے جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔
کتاب کے عنوان سے کسی ہندی کتاب، یاکرسٹو فرکنگ کی کتاب One Language, Two Scripts کے ترجمے کا گمان گزرتا ہے۔ لیکن یہ کتاب نہ تو کرسٹو فرکنگ کی کتاب کا ترجمہ ہے اور نہ ہی یہ کتاب ہندی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اردو کتاب کا نام ہندی میں رکھ کر مصنف علام نے ہندی کو اردو پر فوقیت دینے کی کوشش کی ہے، ورنہ اردو زبان اور اردو رسم الخط میں لکھی گئی اس کتاب کا نام ’’ایک زبان، دو رسم الخط، دو ادب‘‘ بھی رکھ سکتے تھے۔ سچ پوچھئے تو اس کتاب کے لئے یہ عنوان بھی غلط ہے۔ یہ کتاب اردو ہندی تنازع پر نہیں، بلکہ ہندو مسلم افتراق کو ہوا دینے اور ابنائے وطن کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے کے لئے لکھی گئی ہے۔
پروفیسر گیان چند جین نے اس کتاب کا انتساب امرت رائے اور گوپی چند نارنگ کے نام کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی ادب دوست شخص کے لئے یہ دونوں نام نہایت محترم ہیں او ران کے نام کسی کتاب کا انتساب موجب مسرت ہونا چاہئے۔ لیکن ذرا انتساب کی عبارت ملاحظہ ہو:
انتساب بہ ،دشمنان ہندی کے معتوب اول، امرت رائے۔
کاش کوئی اردو والا تاریخی لسانیات میں ان کی انگریزی کتاب، A House Divided کے برابر یا نصف یا کم از کم، ایک چوتھائی علمیت کی کتاب تصنیف کرسکتا۔ اور پدم بھوشن ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صدر، ساہتیہ اکیڈمی، جن کی کتابوں ’امیر خسرو کا ہندوی کلام‘ (طبع دوم) اور ’ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ (طبع دوم) نے بڑے بڑے محققوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں اور وہ انہیں اپنا ہمسر ماننے پر مجبور ہیں۔
انتساب کی بچکانہ اور اسکولی لڑکیوں کی cheer leader جیسی زبان سے قطع نظر کر بھی لیا جائے تو اس کی عبارت سے نکلنے والے حسب ذیل نتائج سے قطع نظر کرنا غیر ممکن ہے۔
(۱) امرت رائے کی کتاب بنیادی طور پر اردو کے خلاف ہے، اور اردو کو تقسیم ہند کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ گیان چند جین ہی نکال سکتے ہیں کہ جو شخص اس کتاب سے اختلاف رکھے وہ ’’دشمنان ہندی‘‘ میں سے ہے اور امرت رائے ان ’’دشمنان ہندی‘‘ کے ’’معتوب اول‘‘ ہیں یعنی کسی اردو مخالف کتاب سے علمی اختلاف کرنے کے معنی ہیں ’’دشمنان ہندی‘‘ میں شمار کئے جانے کا مستوجب ٹھہرنا، اور اس کے مصنف کو اپنا ’’معتوب اول‘‘ قرار دینا۔
(۲) پروفیسر موصوف شاید نہیں جانتے کہ امرت رائے کی کتاب کے خلاف بہت ہی کم اردو والوں نے احتجاج کیا اور جو کیا وہ بھی غیر موثر۔ اس کتاب کے سب سے بڑے مخالف خود امرت رائے کے صاحبزادے اور مشہور ہندی وانگریزی ادیب آلوک رائے ہیں۔ لہٰذا گیان چند جین در اصل یہ کہہ رہے ہیں کہ آلوک رائے ابن امرت رائے ابن پریم چند ’’دشمنان ہندی‘‘ میں ہیں اور خود آلوک رائے کے باپ ان کے ’’معتوب اول‘‘ ہیں۔
(۳) پروفیسر گیان چند کے پاس کیا کوئی پیمانہ ہے جس کے ذریعہ وہ ناپ سکتے ہیں کہ کس کے پاس کتنا علم ہے، اور ان کا دعویٰ ہے کہ کسی اردو والے کے پاس امرت رائے کا نصف یا چوتھائی علم بھی نہیں۔ جین صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے علم کو بھی من، سیر، چھٹا نک یا روپیہ آنہ پائی کی مقدار میں ناپنے کا پیمانہ ایجاد کرلیا ہے۔ ہم اردو والوں کے علم کی مقدار متعین کرنے سے پہلے وہ ’’دشمنان ہندی‘‘ کے سر فہرست آلوک رائے کے علم کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔ آلوک رائے آکسفورڈ یونیورسٹی میں روڈز اسکالر (Rhodes Scholar) رہے ہیں۔ یہ اعزاز دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ کیمبرج کے پی ایچ۔ ڈی۔ ہیں اور ان کی کتابیں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے مطبعوں سے چھپتی ہیں۔ وہ آئی۔ آئی ۔ ٹی دلی میں انگریزی کے پروفیسر رہے ہیں۔ اس وقت وہ دہلی یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر ہیں اور دنیا کی مختلف بڑی یونیورسٹیوں میں لکچر یا تعلیم دے چکے ہیں۔ پروفیسر گیان چند اپنے پیمانے میں ناپ لیں کہ آلوک رائے کا علم اپنے باپ کے علم کا چوتھائی ہے یا نصف، یا اس سے کچھ کم۔ اب رہے بیچارے اردو والے تو ان میں کوئی روڈز اسکالر یا کیمبرج کا پی ایچ۔ ڈی۔ نہیں ہے، لیکن اگر گیان چند جین صاحب اردو کے ایک دو علما، مثلاً بزرگوں میں گوپی چند نارنگ ، مختارالدین احمد، رشید حسن خاں، انصار اللہ نظر اور نوجوانوں میں سراج منیر مرحوم، تحسین فراقی اور سہیل احمد ہی کی تحریریں پڑھ لیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ صاحب علم کسے کہتے ہیں۔ جہاں تک سوال ’’تاریخی لسانیات‘‘ کا ہے تو اس فن میں گیان چند جین کا مبلغ علم اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ ماکس میولر اور شوکت سبزواری کو تاریخی لسانیات میں مستند سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ کسی اور کے علم کا کیا محاکمہ کرسکیں گے۔
(۴) دنیا جانتی ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کو اردو کی ساری دنیا سے جتنے اعزاز، اکرام، ایوارڈ، او رانعام ملے ہیں، اتنے اردو کے کسی ادیب کو نہیںملے، اور نہ شاید آئندہ مل سکیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے ممدوح گوپی چند نارنگ کو اردو کی دنیا میں اپنے بزرگوں اور معاصروں کے ساتھ کسی گھوڑ دوڑ میں مبتلا بیان کرنا پسند کرتے ہیں کہ ان کی تیز رفتاری نے اردو کے ’’بڑے بڑے محققوں‘‘ کے ’’ہوش اڑا دیئے ہیں‘‘ اور ’’وہ انہیں اپنا ہمسر ماننے پر مجبور ہیں۔‘‘ اصل صورت حال تو یہ ہے کہ اردو والے گوپی چند نارنگ کو اپنا ہمسر تو کیا، اپنے سے بر تر مانتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس کی وجہ ’’امیر خسرو کا ہندوی کلام‘‘ نہیں، جو گوپی چند نارنگ کی کمزور کتابوں میں سے ہے۔ ’’دیباچۂ غرۃ الکمال‘‘ میں خود خسرو نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے ہندی کلام کو کبھی جمع نہیںکیا بلکہ دوستوں کے تفنن کی خاطر کبھی کبھی ہندوی میں بھی طبع آزمائی کی۔ امیر خسرو کے معتبر ترین محقق وحید مرزا نے اپنی کتاب ’’امیر خسرو‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ بد قسمتی سے خسرو کا زیادہ تر ہندی کلام دستبرد زمانہ سے غارت ہوگیا، اس لئے کہ خود انہوں نے یاان کے ہم عصر نے اسے محفوظ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور خود گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب میں شامل پہیلیوں کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ اس کتاب میں شامل زیادہ سے زیادہ دس پہیلیاں ایسی ہیں جن کا ’’مستند ہونا زیادہ قرین صحت ہے‘‘ (امیر خسرو کا ہندوی کلام، ص: ۲۵) یعنی یہ دس بھی بے شک و ریب خسرو کی تصنیف نہیں ہیں۔ خود مصنف/ محقق کے اس اعلان کے بعد اس غیر معتبر کلام کو جرمنی کی کسی لائبریری سے نکال کر شائع کرنے سے کس محقق کے ہوش اڑ گئے؟
دوسرا افسوس ہمیں یہ ہے کہ جین صاحب نے بے وجہ اور بے دلیل یہ دعویٰ کردیا ہے کہ اردو کے محققوں اور گوپی چند نارنگ کے درمیان کوئی معانداتی رشتہ اور مقابلہ تھا اور گوپی چند نارنگ نے ان ’’محققوں‘‘ کو ’’مجبور‘‘ کرکے اپنی وقعت ان سے منوالی۔ گویا ادب کا میدان نہ ہوا داستان امیر حمزہ کا اکھاڑا ہوا جہاں دوسرداروں میں تین تین، بلکہ کبھی کبھی تو سات سات شبانہ روز کشتی ہوتی ہے، پھر کوئی فاتح اور کوئی مفتوح قرار پاتا ہے۔ تیسرا افسوس یہ ہے کہ ایک مدت ٹھوس علمی کاموں میں مشغول رہنے کے باوجود جین صاحب کا دماغ علمی معاملات میں بھی طالب علمانہ مقابلوں، امتحان میں اول آنے، اور ’’حریفوں‘‘ کو زک دینے کے بچکانہ خیالات سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
انتساب کی اس بد مذاقی اور غیر علمی انداز کو دیکھنے کے بعد کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی، کہ یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ اس کتاب سے علم تو کیا، معلومات بھی نہ حاصل ہوسکے گی۔ لیکن تبصرے کا حق ادا کرنے کی خاطر مجھے یہ کتاب پوری پڑھنی پڑی۔
سترہ ابواب پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب کا باب اول ’’تمہید‘‘ پوری کتاب کا خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔یہ ۲۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں نہ تو زبان کے بارے میں کوئی علمی یا تحقیقی بحث ہے، نہ رسم الخط پر اور نہ ہی ادب پر۔ پورے باب میں غیر ضروری باتیں اردو زبان، اردو کے مصنفین اور بالخصوص اردو کے مسلمان مصنفین اور مسلمانوں کے خلاف بغیر کسی حوالے یا ٹھوس ثبوت کے یکجا کی گئی ہیں۔ پروفیسر جین ’’تحقیق کا فن‘‘ نامی ایک لمبی چوڑی کتاب کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ محقق کو غیر جانب دار، سچائی کا جویا، حق پرست اور غیر متعصب ہونا چاہئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے کوئی بات پوری چھان بین اور اصل ماخذ کا حوالہ دیئے بغیر نہ لکھنی چاہئے۔ اس کتاب میں بھی وہ فرماتے ہیں (ص: ۳۱) کہ ’’اہل علم کی وفاداری صرف سچ سے ہوتی ہے‘‘ اور (ص: ۵۱) ’’اہل قلم کی وفاداری کسی علاقے، مذہب، زبان یا رسم الخط سے نہ ہوکر صرف سچ سے ہونی چاہئے۔‘‘ اور خود ان کا عالم یہ ہے کہ یہ پورا باب بے حوالہ ،بے دلیل اور متعصبانہ بیانات سے بھرا پڑا ہے۔
’’حرف اول‘‘ میں پروفیسر جین صاحب خود تحریر کرتے ہیں: ’’میرے اردو شاگردوں اور دوستوں کو شاید اس بات کا قلق ہو کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ایسے ہے جیسے میں کوئی اردو دشمن یا مسلمان دشمن ہوں۔‘‘ یعنی انہوں نے یہ کتاب خوب جان کر لکھی ہے کہ اس کے بعد انہیں اردو دشمن اور مسلمان دشمن سمجھا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہ صرف ہندوئوں اور مسلمانوں کو، بلکہ اردو کے ہندو اور مسلم مصنفین کو بھی ایک دوسرے سے متنفر کرنے کے لئے لکھی گئی ہے۔ مسلمانوں اور اردو کے خلاف جتنا بھی مواد مل سکا، انگریزی، ہندی اور اردو کے مصنفین کے اقتباسات، خواہ وہ کسی کتاب کے ہوں یا تقریر کے، یا خطوط کے، وہ کتاب کے موضوع سے متعلق ہوں یا نہ ہوں، شامل کئے گئے ہیں۔ اور ہوشیاری یہ کہ ان باتوں کے معتبر یا غیر معتبر ہونے، درست یا نادرست ہونے پر کوئی بحث نہیں ہے۔ دیگر یہ کہ یہ باتیں کن سیاق و سباق میں کہی گئی ہیں، اس کا بھی پتہ نہیں۔ اس کے علاوہ، اکثر معاملات میں راوی یا تو خود جین صاحب ہیں یا ان کا کوئی شاگرد یا دوست، یا ان کا کوئی قریبی رشتہ دار۔
اب کتاب کے باب اول ’’تمہید‘‘ (ص: ۳۱ تا ص: ۳۴)، سے کچھ جواہر ریزے ملاحظہ ہوں:
(۱) میری ایک نہایت قریبی رشتہ دار سکھ خاتون نے دہلی اور یوپی میں رہنے والے مسلمانوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو ملک کی تقسیم چاہتے تھے، پھر یہ یہاں کیوں ہیں؟ (ص: ۵۲)
(۲) میری نگرانی میں پی ایچ۔ ڈی۔ کے لئے ریسرچ کرنے والے ایک ریسرچ اسکالر نے مجھے بتایا کہ اس نے اتحاد المسلمین کے امیدوار کے حق میں چار بار ووٹ دیا۔ (ص: ۵۲)
(۳) دو تین سال پہلے ستیہ پال آنند پاکستان گھوم کر آئے۔ وہاں انہوں نے اسکولی نصاب کی کتابیں دیکھیں۔ تاریخ کی کتابوں میں عام طور پر لکھا ہے کہ ہندوستان میں اسلام کے آنے سے پیشتر یہاں کے باشندے جاہل اور غیر مہذب تھے۔۔۔ محبوب صدر نے پاکستان کے اسکولی نصاب کی تفصیل دی ہے۔ اس میں اسلام کی ستائش اور غیر مسلموں کی جھوٹی ہجو کے سوا کچھ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے جیسے یہ نصاب افغانستان کے طالبان نے تیار کیا ہے۔ (ص: ۴۲)
(۴) کالی داس (گپتا رضا) نے (میرے نام) ۵ جنوری ۰۰۰۲ کو خط لکھا، ۔۔۔ ’میں نے دیکھا ہے کہ کسی ہندو مشہور شاعر یا ادیب کو بخشا نہیں گیا۔ دیا شنکر نسیم، چکبست، فراق، مالک رام، گیان چند، گوپی چند نارنگ اور اب میں، سبھی پر کیچڑ اچھالی گئی ہے۔ صرف جگن ناتھ آزاد بچے ہیں کیونکہ انہوں نے اقبال کی پرستاری میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے‘۔ (ص: ۱۲تا ۲۲)
(۵) (اردو کی) چھوٹی آسامیوں کے لئے ہندوئوں کی بہت تعریف اور آئو بھگت کی جاتی ہے لیکن بڑے مقامات کے لئے امیدوار کا مذہب بھی دیکھا جاتا ہے۔ (ص: ۳۲)
(۶) مسلم بڑے ادیب پر کوئی چھوٹا ادیب درشتی کا لہجہ اختیار کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، لیکن ایک بڑے ہندو ادیب کے خلاف چھوٹا ادیب بھی اپنے قلم کو بے لگام چھوڑنے کے لئے آزاد ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ رسالے کے قارئین اور ادارتی عملے کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہیں۔ (ص: ۳۲)
(۷) بڑے سے بڑے ہندو ادیب کو خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اردو دنیا میں جینا ہے تو مسلمانوں کی خوشنودی پر نظر رکھے۔
(ص: ۶۲)
(۶) اردو میں زبان کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں۔ (ص: ۴۱)
(۷) تاریخ میں مسلمانوں کی یہ پالیسی رہی ہے کہ جن علاقوں کو فتح کیا جائے وہاں کی زبان، بالخصوص رسم الخط کو ختم کرکے اپنی زبان اور لپی (رسم الخط) کو ان پر مسلط کیا جائے۔۔۔ ہندوستان میں بھی ایسی پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔۔۔ سندھی، پنجابی، کشمیری وغیرہ کی لکھاوٹ پوری طرح بدل دی گئی۔ (ص: ۶۱)
(۸) اردو کو ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ کہا گیا لیکن قیام پاکستان کے بعد اس کا بھانڈا پھوڑ دیا گیا۔۔۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی ضخیم تصنیف ’ہندی اردو تنازع‘ میں انکشاف کیا کہ ابتدا ہی سے انجمن ترقی اردو اور مسلم لیگ سے گہرا ربط تھا۔۔۔ تقسیم ملک سے پہلے ایسے فرقہ وارانہ خیالات کو اردو والوں کا ہندوئوں سے پوشیدہ رکھنا کہ اردو تحریک کا بنیادی مقصد پاکستان بنوانا ہے، ایسی غداری ہے جس پر میں افسوس کرتا ہوں۔ (ص: ۸۱ تا ۹۱)
(۹) امریکہ اور کینیڈا میں پاکستانی انگریزی ہفتے وار ہیں۔ ان سب کی وفاداری پاکستان سے ہے۔ ان میں کھل کر ہندوستان اور ہندوئوں کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔۔۔ جب ہر ملک کے اہل اردو اتنی شدت سے پاکستان نواز ہیں تو ممکن ہے ہندوستان کے مسلمان بھی ان کے ہم نوا ہوں لیکن ہندوستان میں ہندو اکثریت کے خوف سے شاید مصلحت سے کام لیتے ہوں۔
(ص: ۳۲ تا ۴۲)
(۰۱) میں اپنے اردو والے مسلمان دوستوں کی تحریریں دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ ان میں اب بھی وہی علیحدگی پسندی دکھائی دیتی ہے جو پہلے تھی۔ ابنائے وطن کے بارے میں ان کے جذبات وہی ہیں جو ہندوستان کے باہر کے اردو والوں کے ہیں۔ (ص: ۳۳)
(۱۱) اردو کے متعدد بڑے شعرا مثلاً مومن، داغ، جگر اور اصغر وغیرہ کی زندگیوں کے ساتھ طوائفوں کے معاملات لپٹے ہوئے ہیں۔ (ص: ۸۳)
(۲۱) گوپال کرشن مانک ٹالا نے (مجھے) اپنی ۸۲ نومبر ۱۰۰۲ کی چٹھی میں لکھا، ’آپ نے اردو کے مسلم ادیبوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل سچ ہے لیکن۔۔۔ آپ کچھ بھی کرلیجئے یہ لوگ سدھرنے والے نہیں بلکہ وہ آپ کو Ignore کرنا شروع کردیں گے۔‘ (ص: ۹۳ تا ۰۴)
(۳۱) ہندوستان میں مسلمان اردو والے اپنی کمر پر دو قومی نظریے کا بھاری گٹھر اٹھائے پھرتے ہیں۔۔۔ ایک عام ہندو کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک میں مسلمانوں کو ہندوئوں کے برابر کیوں رکھا جائے۔ (ص: ۳۳)
(۴۱)اردو ادب۔۔۔ میں غیر مسلموں بالخصوص ہندوئوں کے دینی عقائد، معاشرے اور معاصر شخصیتوں پر اتنی سیاہی پوت دی گئی ہے کہ کوئی ہندی معاصر اسے قبول نہیں کرسکتا۔ وہ یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ یہ میرا ادب نہیں، کسی دوسری ملت کی چیز ہے۔ (ص: ۰۲)
(۵۱) ہندوستان میں اردو کے ہندو مصنف اتنے گھبرائے ہوئے ہیں کہ وہ مسلمان اردو ادیبوں کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔ (ص: ۹۳)
یہ تحقیقی جواہر پارے اور ’’حق پرستانہ‘‘ شہپارے کسی علمی ادبی کتاب کے بجائے وشو ہندو پریشد یا شیو سینا کے انتخابی منشور یا نریندر مودی کی تقریر کا اقتباس معلوم ہوتے ہیں۔
یہ کتاب علم سے کتنی دور ہے، اس کی ایک مثال مصنف علام کا یہ بیان ہے کہ مسلمان جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کی زبان، بالخصوص رسم الخط کو ختم کردیتے ہیں۔ گیان چند جین نے راجا رام موہن رائے کی ایک مبینہ تحریر فرمان فتح پوری کے حوالے سے نقل کی ہے کہ ’’ہندوستان کا بڑا حصہ کئی صدیوں سے مسلمان حکمرانوں کے زیر نگیں چلا آرہا ہے۔۔۔ بنگالی چونکہ جسمانی طور پر کمزور تھے وہ اسلحہ اٹھانے سے گریز کرتے تھے۔۔۔ ان کی جائیدادیں تباہ کی جاتی رہیں۔ ان کے مذہب کی توہین ہوتی رہی۔۔۔‘‘ اگر یہ صحیح ہے کہ سب سے زیادہ غلامی بنگال میں رہی تو سات سو سال کی مسلمانوں کی حکمرانی کے باوجود بنگال کی زبان اور اس کا رسم الخط مسلمانوں نے ختم کیوں نہیں کردیا؟ زبان نہیں تو رسم الخط تو ضرور ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ پھر ایسا کیوں نہیں ہوا؟
جین صاحب کے عقیدے کے مطابق سندھی، پنجابی، اور کشمیری کے رسم الحظ مسلمانوں نے تبدیل کردیئے۔ لیکن جین صاحب یہ نہیں بتاتے کہ مسلمانوں کے آنے سے قبل ان زبانوں کا رسم الخط کیا تھا اور اس کی تبدیلی کس زمانے میں ہوئی، اور کشمیریوں، پنجابیوں اور سندھیوں نے کن حالات میں اسے قبول کیا، اور یہ رسم الخط کتنے عرصے میں پوری طرح تبدیل ہوسکا۔
پروفیسر جین کو ان سوالوں سے غرض نہیں، انہیں تو اردو کی مخالفت کے بہانے مسلمانوں کی ہجو لکھنی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
بیرونی حملہ آوروں نے اپنے اقتدار اور احساس برتری کے نشے میں ہندوستانی زبان اور لپی کو قبول نہ کرکے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنائی۔۔۔ قرون وسطیٰ میں مسلمانوں نے جب دوسرے ممالک کو فتح کیا، سب سے پہلے وہاں کی زبان اور رسم الخط پر ضرب کاری لگائی۔۔۔ اس کی بہترین یا بدترین مثال فتح ایران ہے۔ (ص: ۳۵۱)
سوال از آسماں جو اب از ریسماں شاید اسی کو کہتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے، دعویٰ تھا ہندوستان کے بارے میں، اور دلیل لائے ایران کے بارے میں۔ وجہ ظاہر ہے، مصنف علام کو معلوم ہے کہ ہندوستان کے بارے میں ان کا دعویٰ سراسر پادر ہوا ہے، لہٰذا وہ بھاگ کر ایران میں پناہ لیتے ہیں۔ یہاں بھی وہ ایران کی حقیقت نہیں بیان کرتے کہ مسلمانوں کے حملے کے وقت ایران میں تحریری زبان، یعنی پہلوی، بیشتر کاہنوں اور مذہبی رہنمائوں کے ہاتھ میں تھی۔ ہزوارش کی بے تحاشا آمیزش کے سبب تقریری زبان سے اس کا رشتہ اس قدر ٹوٹ چکا تھا کہ خود مذہبی رہنما صاحبان لکھتے کچھ تھے اور پڑھتے کچھ تھے۔ عربوں کے یہاں زبان اور رسم الخط پر کوئی پابندی نہ تھی، تحریر سب کی میراث تھی۔ اب جن لوگوں کو علم کا شوق تھا انہوں نے لامحالہ عربی رسم الخط اختیار کیا۔ اس کے باوجود، خود انگریزوں کے بیان کے مطابق ایران کو مکمل طور پر عربی رسم الخط اختیار کرنے میں کوئی تین سو برس لگ گئے۔ فارسی زبان باقی رہی، صرف رسم الخط بدل گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ جس فارسی زبان سے ہم واقف ہیں، اس زبان میں ادب کی متفرق پیداوار آٹھویں صدی سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ یہ کیونکر ممکن ہوتا اگر زبان ختم کرنے کا کوئی منصوبہ عربوں کے پاس تھا اور اس پر وہ عمل در آمد کر رہے تھے؟
مصر کا حال سب پر عیاں ہے۔ مسلمانوں کے آنے کے بہت پہلے وہاں کی زبان مصری تھی (جسے Demotic بھی کہتے ہیں)، قبطی اس کا رسم الخط تھا، اور رسم الخط بیش از بیش تر کاہنوں اور مذہبی رہنمائوں کے پاس تھا۔ عیسائی مبلغوں نے اپنی آسانی کی خاطر قبطی کو ترک کرکے یونانی کو رائج کیا۔ زبان وہی مصری رہی۔ ساتویں صدی کے وسط میں جب عرب وہاں پہنچے تو انہوں نے عربی کو سرکاری زبان قرار دیا اور سرکاری نوکریوں کے حصول کے لئے قبطی عیسائیوں نے عربی پڑھنی شروع کی۔ لیکن ان کی اپنی زبان وہی یونانی رسم الخط میں قبطی (یا درست تر کہیں تو مصری) رہی۔ یہ سلسلہ کوئی پانچ سو برس چلا۔ اس دوران قبطی عیسائیوں پر فلسطینی اور شامی عیسائیوں کے مظالم اس قدر بڑھ گئے تھے کہ قبطیان عیسائی نے صلیبی جنگوں کے زمانے میں عربی زبان قبول کرلی، صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ہم ان صلیبی جنگوں والے عیسائیوں سے اظہار برأت کرتے ہیں۔ لہٰذا عربی کو مصر میں پھلتے پھولتے اور عمومی طور پر قائم ہوتے کوئی سات سو برس لگ گئے اور یہ تلوار کی نوک پر نہیں ہوا۔ بعد میں قبطی عیسائیوں نے بے تکلف اسلام بھی قبول کیا لیکن وہ الگ مبحث ہے۔
مصر کے چند ہی سال بعد اسپین پر مسلمان قابض ہوئے اور وہاں کم و بیش آٹھ سو برس رہے، لیکن وہاں کے لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ وہاں کی زبان وہی رہی جو پہلے تھی۔ عربی علمی زبان البتہ ہوگئی، لیکن اس میں حیرت کی کیا بات ہے جب اس وقت آدھی دنیا کی علمی زبان عربی ہوچکی تھی یا ہو رہی تھی۔
شمالی اور مشرقی افریقہ میں عربوں کی آمد کے وقت قبائلی زبانیں رائج تھیں جن کا کوئی رسم الخط نہ تھا۔ جب عربوں کی ہمت افزائی کے باعث وہاں علم کا چرچا ہوا تو لا محالہ عربی کا چلن بڑھا۔ کچھ علاقوں نے عربی زبان بھی اختیار کرلی۔ لیکن نائیجیریا، سینیغال وغیرہ خطّوں میں پرانی ہی زبانیں رائج رہیں اور اب بھی رائج ہیں۔ نائیجیریا میں دو اہم قبائلی زبانیں اب بھی رائج ہیں، لیکن وہاں کی سرکاری زبان انگریزی ہے، عربی نہیں۔ سینیغال میں بھی قبائلی زبانیں موجود ہیں، لیکن وہاں کی سرکاری زبان عربی نہیں، فرانسیسی ہے۔
سوڈان کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں قبائلی زبانوں اور عربی کے میل ملاپ سے کئی زبانیں پیدا ہوئیں جو عربی النسل ہیں لیکن اکثر ایسی ہیں کہ جن میں آپسی مفہومیت (Comprehensibility) نہیں ہے، لہٰذا انہیں الگ زبانیں سمجھنا چاہئے۔ گیان چند جین صاحب ماکس میولر اور شوکت سبزواری جیسے غیر سائنسی ’’ماہرین‘‘ کے حوالے سے بار بار کہتے ہیں کہ دو زبانوں کے اختلاط سے نئی زبان نہیں پیدا ہوتی۔ وہ اور کچھ نہیں تو یہودیوں کی زبان ییدی (Yiddish) کو دیکھ لیتے جو عبرانی حرفوں میں لکھی جاتی ہے لیکن جس میں مصوتوں کو ظاہر کرنے والے حرف بھی ہیں اور جس کی بنیادی لفظیات اور صرف و نحو نویں صدی کی جرمن کی ہیں۔ گیان چند جین صاحب لسانیات میں اپنی تربیت کا بار بار حوالہ دیتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ ایک زبان پنسلوانیا ڈچ (Pennsylvania Dutch) یا پنسلوانیا جرمن (Pennsylvania German) بھی ہے جو امریکہ کی ریاست پنسلوانیا میں بسنے والے جرمن اور سوئس آج بھی بولتے ہیں۔ یہ زبان جرمن اور انگریزی کے امتزاج کا براہ راست نتیجہ ہے۔ جین صاحب گھر کے قریب آئیں تو ماپلا عورتوں کی ملیالم ملاحظہ کریں جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور معیاری ملیالم سے بہت مختلف ہے۔ تامل ناڈو میں ایک زبان ’’اروی‘‘ نامی ہے جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور جس میں تامل اور عربی لفظیات کو بخوبی برتتے ہیں۔
زبانوں کے اختلاط سے نئی زبان نہیں بنتی، یہ دعویٰ گیان چند جین اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں بعض ’’اردو والے مسلمان‘‘ کہتے ہیں کہ مسلمانی زبانوں اور ہندوستان کی مقامی زبانوں کے اختلاط سے اردو پیدا ہوئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس ذمہ دار ماہر لسانیات یا ماہر تاریخ نے یہ بات کہی ہے۔ جین صاحب کی عادت یہ ہے کہ سیاسی پلیٹ فارم سے دیئے گئے بیانات اور غیر علمی لوگوں کے غیر ذمہ دارنہ اقوال کو ’’مسلمان اردو والوں‘‘ کے ’’علمی نظریات‘‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ ایک دنیا جانتی ہے اور اس بات پر فخر کرتی ہے کہ اردو ہندوستانی زبان ہے اور ’’فوجی لشکروں‘‘ وغیرہ سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جین صاحب رائی کا پہاڑ بناتے ہیں پھر لات مار کر اسے گرا دیتے ہیں اور پھر بغلیں بجاتے ہیں کہ وہ مارا، دیکھو میں ’’ہندو‘‘ ہوں اور کتنا عقل مند اور انصاف پسند ہوں اور ’’مسلمان‘‘ کتنے احمق اور بے ایمان ہیں۔
دنیا میں مسلمانوں کی حکومت مغرب و مشرق کے اور بھی کئی ممالک میں رہی اور آج بھی ہے۔ کتنے ممالک ایسے ہیں جہاں کی زبان اور رسم الخط کو مسلمانوں نے ختم کیا؟ وسطی اور مشرقی یوروپ میں یونان و بلقان تک کے وسیع علاقے پر مسلمان صدیوں قابض رہے لیکن وہاں کی سب زبانیں اور سب رسم الخط موجود ہیں، عربی ترکی کہیں بھی نہیں۔ یوگو سلاویہ کے خطّوں بوسنیا، کو سوو کو دیکھئے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن ان کی زبان اور رسم الخط اب بھی وہی ہیں جو مسلمانوں کے پہلے تھے۔ البانیہ میں مسلمان نوے فی صدی سے بھی زیادہ ہیں، لیکن وہاں بھی زبان اور رسم الخط مقامی ہیں، عربی یا ترکی نہیں۔ انڈونیشیا اور ملیشیا کو دیکھئے جہاں کی زبانیں قبل اسلامی ہی ہیں، حالانکہ مسلمان وہاں بھاری اکثریت میں ہیں۔ رسم الخط البتہ دونوں زبانوں کا رومن ہے، او ریہ کرم فرمائی بیچارے مسلمانوں کی نہیں، ڈچ حاکموں کی ہے۔ چین کے مشرقی علاقے میں مسلمان حضرت عثمانؓ کے وقت سے ہیں اور اکثریت میں ہیں۔ انہوں نے مقامی چینی زبان اور رسم الخط کو حسب سابق قائم رکھا ہے۔
کالی داس گپتا یا جین صاحب کا عقیدہ ہے کہ اردو کے مسلمان ادیبوں کے ہاتھوں اردو کے ہندو شاعروں اور ادیبوں کی تذلیل کی گئی اور ان پر کیچڑ اچھالی گئی۔ لیکن کالی داس گپتا رضا صاحب نے جن لوگوں کے نام لئے ہیں وہ سب ہندو ادیب اور شاعر اردو کے ابتدائی درجے سے لے کر ایم۔ اے۔ تک کے نصاب میں شامل رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ ان پر ریسرچ کل بھی ہو رہی تھی اور آج بھی ہورہی ہے۔ اگر ان کا یہ عقیدہ درست ہے کہ اردو زبان صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے تو اس کے ذمہ دار ہندو حضرات ہیں جنہوں نے اردو کو ترک کردیا ورنہ ہندو ادیبوں کی قدر اردو ادب اور اردو کے ادبی معاشرے میں اب تو پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ فراق کو میر سے بھی برتر سمجھنے والا کوئی ہندو نقاد نہیں، اسلام پسند اور مولانا تھانوی کے عقیدت مند محمد حسن عسکری تھے۔ پریم چند کے بارے میں یہ کہنے والے کہ وہ بڑے بڑے لکھنوی اور دہلوی علما سے بہتر اردو لکھتے ہیں، کوئی جٹا دھاری پنڈت نہیں بلکہ علامہ شبلی تھے۔ بیدی کی اہمیت منوانے والے ماسٹر تارا سنگھ نہیں، آل احمد سرور تھے۔ گوپی چند نارنگ کو امریکہ میں مقیم علی گڑھ کے سابق طالب علموں نے ’’محسن اردو‘‘ کا خطاب اور ایوارڈ دیا۔ یہ وہی علی گڑھ ہے جہاں جین صاحب کے بقول ہندو دشمنی کے ’’خلیفہ‘‘ سر سید احمد خاں نے اپنی ’’ہندو دشمنی‘‘ کی روایت قائم کی تھی۔ مثالیں بے شمار ہیں۔ یہ صرف چند نمونے ہیں۔ جین صاحب عالم فاضل اور ادب کے مورخ ہیں، مجھ سے زیادہ جانتے ہوں گے۔
فاضل مصنف نے ہندوئوں کی تذلیل کرنے والوں میں سرسید احمد خاں کا نام اس لئے بھی رکھا ہے کہ ان کے کالج میں ہندو طلبا کو سرخ ٹوپی پہننی پڑتی تھی۔ کیا سرخ ٹوپی پہننے سے غیر مسلموں کے مذہب پر کوئی ضرب پڑتی ہے؟ دنیا جانتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ڈریس ہندو اور مسلمان کے لئے الگ الگ نہیں ہوتے۔ آج پورے ملک میں انگریزی اسکولوں میں طالب علموں کو ٹائی لگانی پڑتی ہے اور لڑکیوں کو انگریزی لباس بھی پہننا پڑتا ہے۔ ان بچوں میں کثیر تعدادہندوئوں کے بچوں کی ہے۔ اس سے بہت کم تعداد میں مسلمانوں کے بچے ہیں، اور عیسائی تو نام کے ہیں۔ نہ کبھی ہندوئوں نے اعتراض کیا کہ یہ لباس عیسائیوں کا ہے نہ مسلمانوں نے او رنہ اس مغربی لباس کے پہننے سے کسی ہندو کی رگ ہندویت پھڑکتی ہے۔ پھر یہ سرخ ٹوپی کی شکایت کیوں؟ سرخ ٹوپی کوئی اسلام کی علامت تو نہیں۔ اور اب تو یہ ٹوپی اور شیروانی دونوں ہی علی گڑھ سے خارج ہوگئے ہیں۔ مصنف علام یہ بھول گئے کہ جب ۸۸۸۱ میں پنجاب کے مسلمانوں نے علی گڑھ میں ایک سونے کا تمغہ قائم کیا جو مسلمانوں کے درمیان بی۔ اے میں اول آنے والے لڑکے کو ہر سال دیا جانا تھا تو سرسید نے اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے ایسا ہی تمغہ ہندو طالب علموں کے لئے بھی قائم کیا۔
مسلمانوں کے خلاف جین صاحب کے دل میں (اور اب زبان پر) شکوئوں کا ایک طومار ہے۔ اس کو دیکھ کر ایک یہودی لطیفہ یاد آتا ہے جسے مشہور یہودی رپورٹر ٹامس فریڈ مین (Thomas Friedman) نے بیان کیا ہے:
دو یہودی کسی غیر ملک میں پہنچتے ہیں۔ وہاں سرحد پر پاسپورٹ کنٹرول افسر اُن سے پاسپورٹ اور ویزا طلب کرتا ہے۔ اس پر ایک یہودی اپنے ساتھی سے سرگوشی میں کہتا ہے، ’’دیکھا، یہاں کے لوگ بھی کس قدر اینٹی یہودی ہیں، ہم سے پاسپورٹ اور ویزا طلب کر رہے ہیں۔‘‘
جہاں تک سوال ہے اس بات کا کہ بڑے سے بڑے ہندو ادیب پر کوئی بھی چھوٹا موٹا مسلمان ادیب درشت لہجے میں تنقید کرسکتا ہے، لیکن کسی ہندو ادیب کی مجال نہیں کہ کسی بڑے مسلمان ادیب پر کچھ تنقید تو کر دیکھے، تو ہمارے پروفیسر صاحب ذرا اس بات کو ذہن میں لائیں کہ ابوالکلام آزاد، کلیم الدین احمد اور آل احمد سرور سے بڑھ کر عالی مرتبت اردو ادیب کون ہیں، اور پھر یہ غور کریں کہ اسلوب احمد انصاری ان تینوں حضرات کو مسلسل سب وشتم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسن کو آل احمد سرور نے ایک انتخاب میں رضیہ سجاد ظہیر پر فوقیت دی تھی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے سرور صاحب کے بارے میں کیا کیا دل آزار باتیں نہیں لکھیں؟ خود محمد حسن کے خلاف گوپال متل نے نہایت سخت لکھا لیکن ’’مسلمان اردو والوں‘‘ نے گوپال متل کو کچھ بھی نہ کہا۔ رشید حسن خاں نے ’’علی گڑھ تاریخ ادب اردو‘‘ کے مصنفین کے خلاف کیا سخت ترین تنقید نہیں کی؟ رضوان احمد نے عابد رضا بیدار کو کئی سال تک اپنے قلم کے نشانے پر رکھا۔ کیا گیان چند جین کو نہیں معلوم کہ ذکی کاکوروی نے مسعود حسن رضوی ادیب کو کس کس طرح طنز و تعریض کا نشانہ بنایا؟ اور بھی مثالیں ہیں، گیان چند جین اگر ایمان دار دل سے غور کریں گے تو انہیں خود یاد آجائیں گی۔ (میں پاکستان سے مثالیں نہیں دے رہا ہوں، ورنہ فوری طور پر کئی باتیں میرے ذہن میں موجود ہیں۔)
جین صاحب کے ’’دل میں خیال آتا ہے کہ۔۔۔ ممکن ہے ہندوستان کے مسلمان بھی‘‘ پاکستان نواز ہوں، لیکن ’’ہندوستان میں ہندو اکثریت کے خوف سے شاید مصلحت سے کام لیتے ہوں۔‘‘ یعنی ہندوستان کے اردو لکھنے والے مسلمان پاکستان نواز اور غدار ہیں۔ خیر یہ تو جین صاحب کا خیال تھا اور ایسے خیالات آر۔ ایس۔ ایس، وشو ہندو پریشد اور شیو سینا وغیرہ کے عالم فاضل لوگوں کے بھی دل میں آتے ہوں گے۔ لیکن ان کے اس ارشاد کی دلیل کیا ہے کہ ان کے ’’اردو والے مسلمان دوستوں کی‘‘ تحریروں میں ’’اب بھی وہی علیحدگی پسندی دکھائی دیتی ہے جو پہلے تھی‘‘۔ (ص: ۳۳) جین صاحب نے اپنے کئی ’’اردو والے مسلمان دوستوں‘‘ کا ذکر اس کتاب کے صفحہ VI پر کیا ہے۔ کچھ مزید دوستوں کا ذکر متن کتاب میں بھی ہے۔ بھلا وہ ان میں سے ایک کی کوئی تحریر کیا، ایک جملہ ہی دکھا دیں جس میں ’’علیحدگی پسندی‘‘ ہو اور ’’ابنائے وطن (= ہندوئوں)‘‘ کے تئیں ان کا وہی رویہ نظر آتا ہو جو ’’ہندوستان کے باہر اردو والوں (=پاکستانیوں)‘‘ کا ہے۔ لگے ہاتھوں اپنے ان ہی دوستوں کی کسی تحریر کا ایک جملہ بھی ایسا دکھا دیں جس میں ’’وہ علیحدگی پسندی‘‘ نظر آئے ’’جو پہلے تھی‘‘، اور اس ’’پہلے تھی‘‘ کی بھی تھوڑی سی تفصیل وہ پیش کردیتے تو اور بھی خوب ہوتا۔
زیر تبصرہ کتاب کے بقیہ ابواب میں اسی قسم کے نظریات اور عقائد کی تفصیل ہے۔ کہیں کہیں عنوانات سے دھوکا ہوتا ہے کہ یہاں شاید کوئی علمی بحث ہوگی۔ مثلاً تیسرے باب کا عنوان ہے ’’اردو اور ہندی کے آغاز کی تلاش اور محققین‘‘ لیکن پورے باب میں ’’وہابیت‘‘، شاہ ولی اللہ کی تحریک، شیخ احمد سرہندی ، مجدد الف ثانی کی تحریک، ’’تحریک اتحاد اسلامی‘‘ سے لے کر بھارتی جنتا پارٹی تک کا ذکر ہے اور آخر میں حسب ذیل گل افشانی کی گئی ہے:
ہندوستان کے مسلمان طلبہ اور اساتذہ کا اہل پاکستان سے کافی رابطہ رہتا ہے، اپنے عزیزوں سے ملنے ملانے کے لئے ان پر پاکستان کے طرز تعلیم اور نصاب کا اثر ضرور پڑتا ہوگا۔ (ص: ۵۶)
معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں آباد ہونے کے بعد جین صاحب کے علمی اور تحقیقی طریق کار میں گمان، ظن (خاص کر سوئے ظن)، اور عقلی گُدے کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ورنہ وہ ’’ضرور پڑتا ہوگا‘‘ جیسے فقروں کو علمی بحث میں جگہ نہ دیتے اور یہی نہیں، انہوں نے کئی جگہ ایسا کیا ہے۔ جین صاحب کو غالباً یہ بھی معلوم نہیں کہ اپنے عزیزوں سے ملنے ملانے کے لئے پاکستان کے لئے عموماً ایک ماہ کا ویزا ملتا ہے اور ہندوستان سے پاکستان جانے والے زیادہ تر سن رسیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ نئی نسل والوں میں سے اکثر نے تو اپنے اعزا کو دیکھا بھی نہیں۔ وہاں یہ سن رسیدہ یا نو عمر لوگ (اگر کوئی ہوں) ایک ماہ میں نہ تو اسکول میں کچھ پڑھ سکتے ہیں او رنہ پڑھا سکتے ہیں۔ پھر ان پر پاکستان کا زہریلا اثر کہاں سے اور کتنا پڑتا ہوگا؟
جین صاحب کے باب ہشتم، ’’ہندی کے ماضی پر اہل اردو کے دو سوالات‘‘ میں مسلم لیگ کے بارے میں ارشاد ہے:
ظاہر ہے کہ مسلم لیگ کا ہریجنوں کے لئے پریم دکھانا حب علی کی وجہ سے نہیں، بغض معاویہ کے سبب تھا۔ ہندوئوں میں پھوٹ ڈالنے کی خاطر۔ (ص: ۹۱۱)
جین صاحب نے ’’ظاہر ہے‘‘ کہہ کر تاریخی تحقیق کا حق ادا کردیا، لیکن وہ یہ نہ واضح کرسکے کہ اس باب میں (بلکہ پوری کتاب میں) اس بحث کی ضرورت کیونکر ظاہر سمجھی جائے۔ وہ آگے چل کر ہندی کی برتری اس طرح بیان کرتے ہیں:
ہندی کے علما کی تحریریں دیکھئے کس قدر عبور اور قدرت کے ساتھ، سنسکرت، پالی، پر اکرت اور اپ بھرنش کے الفاظ اور قواعد کو پانی کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ان کے مقابل ناواقفان اردو کو دیکھئے جو اپنی لسانی عصبیت کو عدم واقفیت اور جہالت کا جواز سمجھتے ہیں۔ (ص: ۵۲۱)
پروفیسر گیان چند جین یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ ’’اردو کا مزاج تنگ نظری کا ہے‘‘ (ص: ۴۲۱) پھر اگلے باب میں آگے اردو کو میل جول کی زبان نہ مانتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
فاتح اور مفتوح میں کہاں کا میل، کیا ہندو سومناتھ کے مندر توڑنے والوں، جزیہ لگانے والوں، ہندو کلچر کو تباہ کرنے والوں پر ملتفت ہوتے۔ اردو میل جول کی نشانی ہے یا ہندوستان کی زبان سے الگائو برتنے کی علامت۔ (ص: ۷۴۱)
دسویں باب ’’ہندی اردو تنازع اور فرقہ وارانہ سیاست‘‘ میں بھی پیٹ بھر کر زہراُگلا گیا ہے۔ مندروں کو توڑنے اور مسلمان بادشاہوں کی ہندو بیویوں وغیرہ کا ذکر کرنے سے شوق ستم نہ پورا ہوا تو بھارتیندو کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ’’یہ (اردو) طوائفوں کی زبان ہے، ہندو رئیسوں کے بد چلن لڑکے طوائفوں اور دلالوں سے گفتگو کرنے کو اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (ص: ۰۸۱) جین صاحب کا عقیدہ ہے کہ بھارتیندو نے ’’طوائفوں کی زبان‘‘ والا لقب بنگال کے گورنر سے سیکھا ہوگا۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔ جین صاحب نے یہی طوائفوں کی زبان (اردو) نہ صرف پڑھی بلکہ تیس چالیس سال تک یونیورسٹیوں میں پڑھائی اور پچیسیوں کتابیں لکھیں۔ اسی کی روٹی کھائی، اسی سے نام و نمود کمایا۔ انہیں کس بنگال کے گورنر نے گمراہ کیا تھا؟
گیارہویں باب، ’’اردو کی ادبی تاریخ کے کچھ موضوعات‘‘ میں صرف ایک موضوع ہے اور وہ یہ کہ اردو کی کچھ مثنویوں میں (سب میں نہیں، یہ جین صاحب بھی مانتے ہیں) ہیرو مسلمان ہوتا ہے اور ہیروئن ہندو۔ جین صاحب کے خیال میں یہ ہندوئوں کی توہین ہے، ’’اس موضوع میں مذہبی تفوق کے ساتھ ایک رکیک جنسی جارحیت ہے۔‘‘ (ص: ۲۹۱) جین صاحب یہ ملاحظہ کرنا بھول گئے کہ وہ غالباً پہلے محقق ہیں (اور وہ ہندو بھی نہیں، جین ہیں) جنہیں یہ نکتہ سوجھا ہے۔ مثنویوں کے کردار تو فرضی ہوتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں کہیں اور نہیں، ہندوستان کے سیاسی حلقوں، فلم انڈسٹری اور میٹرو پولیٹن شہروں کو دیکھئے، بہتیرے ایسے مسلمان ملیں گے جن کی بیویاں اور محبوبائیں ہندو ہیں اور بہت سے ایسے ہندو ہیں جن کی بیویاں مسلمان ہیں۔ جین صاحب کو فرضی کہانی پر اعتراض ہے، حقیقی زندگی پر نہیں۔
پروفیسر موصوف کی مسلمان دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اختر حسین رائے پوری کے ترجمہ ’’شکنتلا‘‘ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ’’ابا‘‘، ’’امی جان‘‘، ’’بڑی بی‘‘ اور ’’میاں‘‘ (شوہر) جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو خالص ’’اسلامی معاشرت‘‘ کے الفاظ ہیں اور ’’ہندو گھرانوں کے لئے بھی یہ الفاظ بالکل اجنبی اور بیگانہ ہیں۔‘‘ (ص: ۷۰۲/ ۸۰۲) لیکن اگر جین صاحب کو اختر حسین رائے پوری کی ’’ذہنیت‘‘ پر اعتراض ہے کہ انہوں نے اپنے دیباچے میں ایک جملہ ایسا لکھا ہے جو نازیبا ہے، تو انہیں گوپی چند نارنگ کی بیگم پر بھی اعتراض ہے کہ انہوں نے جین صاحب کے سوال، ’’آپ کیسی ہیں؟‘‘ کے جواب میں ’’خدا کا شکر‘‘ کہا۔ انہیں ’’بھگوان‘‘ یا ’’ایشور‘‘ کہنا چاہئے تھا۔ (ص: ۸۲)
گیارہویں