زندگی کی پیچیدگی کہاں جنم لیتی ہے؟
اچھوتے خیالات کہاں سے آتے ہیں؟
زبانیں کہاں سے بدلتی ہیں؟
نئی رسمیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں؟
ایجادات کہاں سے آتی ہیں؟
ان سب کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے “ساتھ والے کمرے سے”۔ وہ کیسے؟ اس کے لئے پہلے ایک نظر سائنسی ترقی کی کہانی پر۔
سورج کے دھبے چار الگ سائنسدانوں نے چار الگ ممالک میں 1611 میں دریافت کئے۔ پہلی بیٹری ڈین وان کلائیسٹ اور کونیس لیڈن نے 1745 اور 1746 میں ایجاد کی۔ جوزف پریسٹلے اور کارل ولہم شیل نے الگ الگ 1772 اور 1774 میں آکسیجن الگ کی۔ توانائی کی بقا کا قانون چار جگہوں پر 1840 کی دہائی میں بنا۔ ارتقا میں جینیاتی میوٹیشن کی اہمیت کا پہلے کورشنکسی نے 1899 اور پھر ہیوگو ڈی ورائس نے 1901 میں پتہ لگایا۔ ایکسرے سے میوٹیشن کے امکان میں اضافے کا 1927 میں دو الگ محققین نے معلوم کیا۔ ٹیلی فون، ٹیلی گراف، سٹیم انجن، فوٹوگراف، ویکیوم ٹیوب، ریڈیو، غرضکہ جدید زندگی کی زیادہ تر اہم ایجادات میں یہی پیٹرن ہے۔
اس پر 1920 کی دہائی میں آگبرن اور ڈوروتھی تھامس نے ایک مضمون لکھا، “کیا ایجادات ناگزیر ہیں؟” اس میں ڈیڑھ سو الگ ایجادات کا تجزیہ کیا۔ ان میں سے زیادہ تر ایک ہی دہائی میں الگ الگ جگہوں پر ہوئی تھیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اچھوتا نیاپن خواہ زندگی میں ہونے والی قدرتی تبدیلیوں میں ہو، ذہن میں امڈتے خیالات میں یا معاشرتی جدتوں میں، بس ایسے ہی نہیں ہو جاتا۔ اچھے خیالات دماغ میں یکدم نہیں آ جاتے۔ ارتقا بس اچانک نہیں ہو جاتا۔ ایجادات کو بھی ممکن ہونے کے لئے گہری بنیادیں چاہیئں۔ آپ ایک کمرے میں ہیں جس میں تین دروازے ہیں۔ ایک دروازہ کھول کر جب اگلے دروازے میں داخل ہو جائیں گے تو پھر نئی ممکنات کھل جائیں گی۔ اس نئے کمرے میں بھی تین دروازے ہیں۔ یہ نئی جگہوں پر لے جائیں گے۔ دروازے کھولتے جانا آگے بڑھتے چلے جانے کو ممکن کرتا ہے۔ یہ ارتقا ہے، زندگی کا، فکر کا اور ترقی کا۔
پریسٹلے اور شیل نے آکسیجن الگ کی۔ اس کے لئے پہلے اس تصور اور فریم ورک کی ضرورت ہے کہ ہوا خود کوئی ایسی چیز ہے جس کو پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ مختلف گیسوں کی بنی ہے۔ یہ خیالات اٹھارہویں صدی تک عام نہیں ہوئے تھے۔ پھر ان کو حساس سکیل درکار تھے جو وزن کی انتہائی معمولی سی تبدیلی کا پتا لگا لیں جو آکسیڈیشن سے ہوتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اپنی ترقی کا سفر کر کے اٹھارہوں صدی کے وسط کے بعد ممکن ہو سکی تھی۔ اس کے بعد آکسیجن دریافت ہونے کا سٹیج تیار تھا۔ کیونکہ اس تک پہنچے کی رکاوٹ نہ تھی۔ اس تک پھر الگ الگ لوگ پہنچ گئے۔
ساتھ والا کمرہ حد بھی ہے اور امکان بھی۔ یوٹیوب اس وقت ممکن ہوئی جب انٹرنیٹ تیزرفتار عام ہوا۔ یہ کمپنی اپنے بننے کے ایک برس بعد ہی انتہائی کامیاب ہو چکی تھی۔ اگر یہ دس برس پہلے بنتی تو کامیاب نہ ہو سکتی۔ کامیابی کے لئے سٹیج تیار نہ تھا۔ لیکن پھر اگلا سوال یہ کہ ایک بار سٹیج تیار ہو بھی جائے تو پھر یہ ایجادات دنیا کی چند جگہوں پر ہی کیوں ہوتی ہیں۔ اچھوتے خیالات چند لوگوں کو ہی کیوں آتے ہیں۔ زندگی کی ورائٹی کورل ریف میں اس قدر زیادہ کیوں ہے؟ (اور یاد رہے کہ اچھوتے خیال کا مطلب صرف کوئی بڑی ایجاد نہیں۔ دوسری جماعت کے بچوں کو پڑھانے کا اچھا طریقہ، ویکیوم کلینر کی مارکٹنگ نئے طریقے سے کرنے جیسے خیالات بھی ہیں)
اچھے خیالات کے لئے موافق ماحول درکار ہے اور ایک نیٹ ورک۔ اس کے لئے ہم اپنے دماغ کو دیکھ سکتے ہیں۔ دماغ کے اربوں نیورون کچھ نہیں کر سکتے اگر وہ آپس میں جڑے نہ ہوں۔ دماغ کے اربوں نیورون کچھ نہیں کر سکتے اگر وہ تبدیلی کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں (پلاسٹسٹی)۔ کیونکہ ان دونوں صلاحیتوں کے بغیر دماغ ان نئی حالتوں (کونفگریشن) میں نہیں جا سکتا جسے ہم نیا خیال کہتے ہیں۔ یہی سبق ایجادات کا اور ترقی کا ہے۔ اگلے کمروں میں وہ جاتے ہیں جو ساتھ والے کمروں کے دروازے مل کر کھول سکیں۔ یہ مناسب ماحول اور مضبوط نیٹ ورک کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اس کے بغیر نہیں۔
اس پر سب سے اہم تجربہ مک گِل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے کیون ڈنبار نے بیس برس پہلے کیا۔ اس لمبے تجربے سے نتیجہ یہ نکلا کہ اکیلا سائنسدان صرف کہانی کی کتابوں میں ملتا ہے۔ سائنس کی اہم دریافتیں نہ اکیلے ہوتی ہیں اور نہ ہی لیبارٹریوں میں۔ یہ کانفرنس رومز میں ہوتی ہیں جب ذہن سے ذہن ملتے ہیں، خیالات سے خیالات۔ نئے خیالات جنم لیتے ہیں اور پھر کہیں سے جیسے اچانک ہی ایک نیا دروازہ کھل جاتا ہے اور پھر اگلے ممکنات۔ انسانی معاشرت میں ٹیکنالوجی، زبان، کلچر سب کی تبدیلیاں اسی طریقے سے آتی ہیں۔
تو پھر دنیا کی کچھ جگہیں آگے کیوں نکل جاتی ہیں اور کچھ تہی دامن کیوں رہ جاتی ہیں۔ اس کے لئے کورل ریف کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ ماحول ہے۔ جہاں پر نئے خیالات کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، جہاں پر تبدیلی سے مزاحمت ہو، جہاں پر فرق خیالات کا نیٹ ورک آپس میں مل کر نہ بن سکے، وہ اچھوتے خیالات کے لئے موافق ماحول نہیں۔ صرف سٹیج کا ہونا کافی نہیں۔
یہ صرف سائنس کا نہیں، کسی بھی بزنس، کسی بھی ملک، کسی بھی گھر اور کسی بھی فرد کے ساتھ ہے۔ نئے اور کامیاب بزنس بھی اسی طریقے سے پھلتے اور بڑھتے ہیں۔ یہ ہمیں تاریخ سے بھی پتہ لگتا ہے، قدرت سے بھی، سٹاک مارکیٹ سے بھی اور معاشرت سے بھی۔
اس کی ریاضی کے لئے ایم آئی ٹی کا پیپر یہاں سے