“۔ ۔ ۔ ہر جادوئی چکمے ( Magic Trick ) کے تین حصے یا ایکٹ ہوتے ہیں ۔ شعبدے باز آپ کو کوئی عام سی شے دکھاتا ہے ۔ یہ تاش کی گڈی ہو سکتی ہے ، ایک پرندہ یا ایک آدمی ۔ وہ یہ آپ کو دکھاتا ہے اور شاید یہ بھی کہتا ہے کہ آپ اس کا اچھی طرح معائنہ کرلیں کہ یہ اصلی ہے ، اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں کی گئی اور وہ اپنی عمومی حالت میں ہے ۔ لیکن یقیناً ، شاید ایسا نہیں ہوتا ۔ آپ کہاں جا رہے ہوتے ہیں ؟ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس ایکٹ کا حصہ ہیں ۔ آپ یہیں سے بیوقوف بن جاتے ہیں ۔ اور دوسرا ایکٹ شروع ہوتا ہے جسے ‘ مڑنا ‘ کہتے ہیں ۔ شعبدے باز اس معمولی شے کو غائب کرکے غیرمعمولی بنا دیتا ہے لیکن آپ اس پر تالی نہیں بجاتے کیونکہ غائب کر دینا کافی نہیں ہوتا اور یہیں سے تیسرا ایکٹ شروع ہوتا ہے ۔ آپ کو اُسے واپس لانا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ”
[ کرسٹوفر پریسٹ کے ناول ‘ پریسٹیج ‘ ( 1995 – The Prestige ) سے ایک اقتباس ]
جب ہم فنون لطیفہ کی بات کرتے ہیں تو ‘ پرفارمنگ آرٹس ‘ اس کا حصہ تو ہوتے ہیں لیکن یہ اپنے تئیں ایک الگ حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں ؛ تھیئٹر ، موسیقی ، رقص اور مرئی و غیر مرئی اشیاء کے ساتھ جوڑ توڑ اور ساز باز کرکے فنکاری دکھانا دنیا کے ہر معاشرے میں قبل از عہد عتیق سے موجود رہے ہیں ۔ موسیقی اور رقص تو قبل از تاریخ کے زمانے سے دنیا کے معاشروں میں موجود رہے ہیں ۔ تھیئٹر کی تاریخ ہمیں یونان لے جاتی ہے جہاں ڈرامہ لگ بھگ 700 سال قبل از مسیح میں ایتھنز کے ‘ دیونیسیا (Dionysia ) کے جشن کا ایک باقاعدہ ایونٹ بنا تھا اور بعد ازاں یہ المیہ اور طربیہ ، دو حصوں میں تقسیم ہوا ۔ سوفوکلیس اس زمانے کا ایک بڑا نام تھا ۔ انڈیا کی بات کریں تو بدھسٹ ‘ ایسواگوش ‘ ( مسیح کے ظہور کے بعد پہلی صدی میں ) کا نام سامنے آتا ہے ۔ سرکس اور اس سے جُڑے کرتبوں کی ابتدائی شکل قدیم مصر سے جا کر جڑتی ہے ۔ رہی بات مرئی و غیر مرئی اشیاء کے ساتھ جوڑ توڑ اور ساز باز کرکے فنکاری دکھانا تو یہ بھی کچھ کم پرانا نہیں ہے ۔
میجک ( جادو ) کا لفظ قدیم فارسی میں ‘ ماجُو ‘ ( جدید فارسی ؛ جادو ) سے نکلا اور چھٹی و پانچویں صدی قبل از مسیح ، یونانیوں نے برتنا شروع کر دیا ، ایک صدی قبل از مسیح یہ اصطلاح لاطینی میں بھی در آئی ۔ جادوگری کو دو حوالوں سے دیکھا جاتا ہے ؛ ایک ، ایسی جادو گری جو فریب نظری اور ‘ مکّر یا چَکموں ‘ (tricks) سے جڑی ہے دوسرے ، ایسی جادوگری ، جس کا تعلق مافوق الفطرت معاملات سے ہے ۔ ان دو طرح کی جادو گریوں کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنی ممکن نہیں ہے ۔
مافوق الفطرت جادوگری کو منفی معانوں میں دھوکہ دہی ، فریب ، غیر فطری اعمال اور خطرناک عملوں کے لیے برتا جانے لگا ۔ یہ بعد ازاں مسیحی اور پھر اسلامی روحانیات کا حصہ بنی ۔ یہ علم پہلے روز سے ہی منفی سمجھا گیا اور اب تک سمجھا جاتا ہے ۔ اس علم کو استعمال کرنے والا یا کرنے والی جادوگر یا جادو گرنی ، ساحر یا ساحرہ کہلائی اور انسانی معاشروں میں یہ دونوں متعوب ٹھہرائے گئے اور انہیں زندہ جلایا بھی گیا ؛ جادوگرنیوں اور ‘ وِچ کرافٹ ‘ پر بات کرنا یہاں مناسب نہیں اوریہ موضوع ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے ۔
مذاہب اور جادوگری کی مخاصمت ایک طرف رکھی جائے اور فقط فن یا آرٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ علم ، خاص طور پر فریب نظری اور مکّر سے جڑی جادوگری اپنے اپنے زمانے کی دستکاریوں ، ہنرمندیوں اور کیمیا ، فلکیات ، طبیعات و دیگر علوم کی مدد سے خود کو پروان چڑھاتی رہی اور خود کو کامل کرتی رہی ۔
میں یہاں اس جادوگری کے بارے میں بات کروں گا جو فریب نظری اور مکّر سے جڑی ہے ۔ گو اس کی تاریخ میں پیچھے جائیں تو یہ ایران اور یونان سے ہی شروع ہوتی ہے لیکن یہ ‘ پرفارمنگ آرٹس ‘ کا حصہ کب سے بنی ، اس کی ہر سماج و تہذیب میں اپنی ہی الگ سے تاریخ ہے ۔
میں اگر اپنے بچپن کی بات کروں تو لاہور میں لگنے والے میلوں ٹھیلوں میں ایسے بہت سے جادوگر اور شعبدے باز موجود ہوتے تھے جو اپنے گرد مجمع اکٹھا کرتے اور انہیں اپنے کرتب اور کمالات دکھاتے ؛ ان میں دیگر کے علاوہ بچے جمورے کو زمین پر لِٹا کر اس پر چادر ڈال کر ہوا میں اوپر اٹھانا بھی شامل ہوتا تھا ۔ شعبدے باز ، پھر ہوا میں معلق بچے جمورے کے نیچے چھڑی گھما پھرا کر یہ دکھاتا کہ بچے جمورے کو کسی شے نے سہارا نہیں دیا ہوا اور وہ اپنے استاد کے منتر پڑھنے کی وجہ سے ہوا میں معلق ہوا تھا ۔
میں نے یہ بات یہاں اس لیے کی کہ ایسی فریب نظریوں اور مکّر کے کرتب اور کمالات ہمارے برصغیر میں بھی نجانے کب سے تھے جو شاید صدیوں کا سفر طے کرتے میرے بچپن یعنی 1960 ء کی دہائی میں آ پہنچے تھے ۔ میرے پاس اس سفر کی تفصیل ہے لیکن اس تحریر میں اسے بیان کرنے ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں اس مضمون کو دانستہ طور پر یورپ تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں ۔
مغرب میں ، البتہ ، فریب نظری اور ‘ مکّر ‘ کی کرافٹ پر بہت سی کتابیں 17ویں صدی میں شائع ہو چکی تھیں اور18ویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یورپ کے شہروں میں بازاروں اور میلے ٹھیلوں میں ایسے بہت سے شعبدے باز نظر آنے لگے تھے جو لوگوں کی تفریح کے لیے فریب نظری اور ‘ مکّر ‘ پر مبنی کرتب و کمالات دکھاتے ۔ جلد ہی یہ فن اشرافیہ کے لیے سٹیج پر آگیا ۔ اس ضمن میں فرانسیسی ‘ ژاں ایوجین روبرٹ ۔ ہوڈِن ‘ ( Jean Eugène Robert-Houdin دسمبر 1805 ء تا جون 1871 ء ) وہ پہلا بندہ تھا جس کا اپنا ایک ‘ جادو گھر ‘ 1945 ء میں وجود میں آیا تھا ۔ روبرٹ ۔ ہوڈِن ایک گھڑی ساز تھا جس نے بہت سی ایسی گھڑیاں اور کلاک بھی بنائے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد تھے ۔ یہ بعدازاں خاصی حد تک پراسرار بھی ہوتے گئے تھے ۔ گھڑی سازی کے علاوہ اس نے’ جادوگری ‘ بھی سیکھی اور اس میں نام پیدا کیا ۔ اس کے کمالات میں اور کے علاوہ ‘ نارنگیوں کا شاندار درخت ‘ اور ‘ ہلکی و بھاری افقی الماری ( Chest ) ‘ نے شہرت پائی ؛ نپولین III نے 1856 ء میں اُسے اور اُس کی فریب نظریوں کو اپنی نوآبادی الجزائر میں مقامی قبیلوں پر قابو پانے کے لیے بھی استعمال کیا تھا ۔ اس نے فریب نظری اور مکّروں پر کئی کتابیں لکھنے کے علاوہ اپنی یادداشتیں بھی لکھیں ۔
روبرٹ ۔ ہوڈِن جیسا ایک اور شعبدے باز سکاٹ لینڈ میں بھی تھا ؛ ‘ جان ہنری اینڈرسن ‘ (John Henry Anderson ۔ 1814 ء تا 1874 ء ) بھی تھا جس نے 1840 ء میں لندن میں ایک ایسا تھیئٹر بنایا جس میں فریب نظری اور مکّر کے کمالات دکھائے جاتے ؛ یہ ‘ نیو سٹرینڈ ‘ ( New Strand Theatre ) کے نام سے تھا ۔ اس نے دوسرا تھیئٹر ۱۸۴۵ ء میں گلاسکو میں ، سٹی تھیئٹر (the City Theatre) کے نام سے بنایا ۔ اس سکاٹش شعبدے باز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے فریب نظری اور مکّر کے کمالات کو گلیوں اور میلوں ٹھیلوں سے اٹھا کر تھیئٹر کی زینت بنایا ۔ کہا جاتا ہے کہ سر والٹر سکاٹ نے اسے ‘ شمال کا عظیم ساحر ‘ (The Great Wizard of the North ) کا نام بھی دیا تھا ۔ اس کے کمالات میں ‘ گولی پکڑنے ‘ ( bullet catch ) کی فریب نظری بہت مشہور ہوئی ,گو یہ چکمہ اس کا اپنا ایجاد کرہ نہ تھا ۔ اس نے فریب نظری اور مکّر کے کمالات کے حوالے سے تین کتابیں لکھیں ۔ اس کی دو بیٹیاں ، ہیلن اور ایلس ، اس کی سٹیج پر معاونت کرتے کرتے ، بعد ازاں خود بھی نامور شعبدے باز بنیں ۔ اس کا بیٹا جان ہنری جونیئر بھی اسی طرح شعبدے باز بنا ۔
اسی زمانے میں برطانوی جے این میسکیلین (John Nevil Maskelyne ۔ دسمبر 1839 ء تا مئی 1917 ء ) بھی ایک نامور شعبدے باز تھا جو اپنے ساتھی جارج الفرڈ کُک کے ساتھ شعبدے بازی کے کمالات دکھاتا تھا ۔ وہ موجد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا فوٹوگرافر بھی تھا ؛ پینی ڈالو اور حاجت رفع کرو ، مطلب اس نے ‘ پے ٹوائلٹ ‘ ( pay toilet ) بنائی تھی اور جارج ایلیگنون کلارک کے ساتھ مل کر تاش کا کھیل ‘ وہِسٹ ‘ ( Whist ) کھیلنے والی ‘ سائیکو آٹومیشن ‘ نامی مشین بھی بنائی ۔ اس نے 29 مئی 1900 ء کو سورج گرہن کی سب سے پہلی تصویر کھینچی تھی ۔
اسی زمانے میں فرانس میں ایک اور شعبدے باز ، ایلکزیندر ہرمان ( Alexander Herrmann ۔ فروری 1844 ء تا دسمبر 1896ء ) بھی تھا جو امریکہ جا بسا تھا ۔ اس کی بیوی ایدیلیڈ (Adelaide ) بھی شعبدے باز تھی اور اس کی موت کے بعد 25 برس تک اس پیشے سے وابستہ رہی ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہی وہ زمانہ تھا جب بہت سی سائنسی ایجادات بھی ہو رہی تھیں ؛ فزکس کی برانچ میکانیات ( Mechanics ) خاصی ترقی پا چکی تھی ؛ لیور ، پُلیز ، نیوٹن کے حرکت کے قوانین وغیرہ ، اس کی برانچ آپٹکس (Optics) میں عدسے ، آئینے ، عکس اور منعکس سے تعلق رکھنے والے قوانین ، مقناطیسی کشش کے حوالے سے برقیات ( Electricity ) میں بیٹریاں جنریٹروں میں بدل رہیں تھیں ۔ علم کیمیا ( Chemistry ) میں نئے نئے محلول اور مرکبات سامنے آ رہے تھے ساکت فوٹوگرافی سینماٹو گرافی میں بدل رہی تھی ۔ فللکیات کے حوالے سے دوربینیں اور خورد بینیں بہتر سے بہتر ہو رہیں تھیں غرضیکہ ہر علم میں ایک طرح کا انقلاب آ ریا تھا اور انقلاب کا فائدہ شعبدے بازوں نے بھی اٹھایا اور وہ ان تمام سے فائدے اٹھاتے ہوئے اپنی فریب نظریاں اور مکّر بہتر سے بہتر کرتے ہوئے عام ناظر کو دنگ کر رہے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں 1991 ء میں یورپ اور امریکہ کی سیر پر نکلا تھا تو مجھے برطانیہ ، فرانس ، اٹلی ، ہالینڈ ، شکاگو ، نیویارک اور دیگر کئی جگہوں پر بہت سے لوگ ایسے ملے جو ‘ مائیکرو ویو اوون ‘ جیسی اشیاء کو جادوئی مشینیں سمجھتے تھے ؛ شکاگو میں میری لینڈ لیڈی نے مجھے سٹوڈیو اپارٹمنٹ دیتے ہوئے یہ شرط رکھی تھی کہ میں اس کی عمارت میں ‘ مائیکرو ویو اوون ‘ لے کر نہیں گھُسوں گا ۔
مغرب میں شعبدے بازی جس میں فریب نظری اور مکّر سب شامل ہے ۔ یہ بیسویں صدی میں بھی پرفارمنگ آرٹس میں جاری و ساری رہی اور ‘ اوکیٹو ‘ ، ‘ ہیری بلیکسٹون ‘ ، ‘ کارڈینی ‘ ٹامی وانڈر ‘ ، ‘ ڈائی ورنون ‘ اور ‘ جوزف ڈنیگر ‘ جیسے کئی شعبدے باز مشہور ہوئے ۔ آج یعنی اکیسویں صدی میں لانس برٹن ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ ، جیمیز رینڈی ، کرس اینجل جیسے کئی اور ہیں جو اس پرفارمنگ آرٹ سے جڑے ہوئے ہیں اور اب تو ان شعبدے بازوں کو سٹیج کے علاوہ ٹیلی ویژن کا میڈیم بھی مل گیا ہے ۔
اس تعارفی نوٹ لکھنے کا مقصد آپ کو اس پس منظر سے متعارف کرانا تھا جس سے گزر کر شعبدے بازی ( Illusion ) و مکّر ( Tricks ) کی کرافٹ 21 ویں صدی میں بھی زندہ ہے ۔ یہ آپ کو سٹیون مِلہوسر (Steven Millhauser) کے افسانے ‘ شعبدے باز ایزنہیم ‘ ( Eisenheim the Illusionist ) کو سمجھنے میں مدد دے گا جو 19ویں صدی کے آخری سالوں اور 20ویں صدی کے آغٓاز کے زمانے میں سیٹ کیا گیا ہے ۔
سٹیون مِلہوسر 3 ، اگست 1943 ء کو نیویارک شہر میں پیدا ہوا ۔ اس نے 1965 ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور برائون یونیورسٹی سے انگریزی زبان میں پی ایچ ڈی کرنے کی کوشش کی ۔ وہ اسے دو کوششوں کے بعد بھی مکمل نہ کر سکا لیکن اس نے برائون یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران اپنے دو ناولوں کے کچھ حصے ضرور لکھ لیے ؛ یہ ‘ ایڈوِن مُل ہائوس ‘ (Edwin Mullhouse ) اور ‘ فرام دی ریلہم آف مارفیس ‘ (From the Realm of Morpheus ) تھے ۔ اسی دوران جب وہ والدین کے پاس جاتا تو اپنے ناول ‘ پورٹریٹ آف اے رومینٹک ‘ (Portrait of a Romantic ) پر کام کرتا ۔ 1997 ء تک اس کی پہچان اس کا پہلا ناول ‘ ایڈوِن مُل ہائوس ‘ ہی رہا ۔ یہ ناول ایک فرضی بندے کی سوانح ہے جسے ایک فرضی ادیب نے لکھا ہے ۔ ایڈوِن ایک ایسا غیر روایتی لڑکا ہے جوایسا ظاہر کرتا ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی ادبی معرکہ ضرور مار لے گا ۔ وہ دس برس کی عمر میں ایک ناول لکھتا ہے اور اگلے ہی برس ، گیارہ برس کی عمر میں پراسرار طریقے سے مر جاتا ہے ۔ جس پر جیفری کارٹ رائٹ اس کی سوانح لکھتا ہے ۔ سٹیون مِلہوسر نے اس میں برطانوی ادیبوں جیمز بوسویل اور ڈاکٹر جانسن کے سے تعلقات کا سہارا لیتے ہوئے ناول کو تین حصوں میں لکھا ؛ اس ناول کے پبلشر کے مطابق ایک ‘ کلٹ ناول ‘ ( Cult Novel ) ہے ۔ اس کا دوسرا ناول ‘ پورٹریٹ آف اے رومینٹک ‘ 1977 ء میں سامنے آیا ۔ یہ ایک مایوس رومان پسند کی کہانی ہے جو اکتاہٹ سے نجات ، محبت اور موت کا خواہاں ہے ۔ وہ رہتا تو ایک پراسرار شخصیت کے ساتھ ہے لیکن ‘ ایلینور’ کی یاد مین غلطاں ہے ؛ ایلینور جو بیمار ہے اور جس نے خود کو عجیب و غریب اور جادوئی کھلونوں کے ساتھ خود کو ایک کمرے میں بند کر رکھا ہے ۔ اس کا تیسرا ناول ‘ فرام دی ریلہم آف مارفیئس ‘ 1986 ء میں شائع ہوا ؛ یہ کہانی بیان کرنے والے ‘ کارل ہوسمین ‘ کے مشاہدات مبنی ناول جو گم ہوئے ایک ‘ بیس بال ‘ کو تلاش کرتا ایک جادوئی منظر میں داخل ہو کر ‘ مارفیئس کی سلطنت میں داخل ہو جاتا ہے ۔ یہ ناول کچھ ‘ ایلس ان ونڈر لینڈ ‘ جیسا ہے ، یولیسس کی طرح مہمات سے بھرا ہے اور اس میں کچھ ایسا بھی ہے جیسا کہ گولیور ٹریولز میں تھا ۔ اسی برس اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ‘ اِن دی پینی آرکیڈ ‘ (In the Penny Arcade ) سامنے آیا ۔ اس کا چوتھا ناول ‘ مارٹن ڈریسلر ‘ (Martin Dressler: The Tale of an American Dreamer ) 1996 ء میں شائع ہوا ، جس پر اسے 1997 ء میں پلزر( Pulitzer Prize ) انعام دلوایا ۔ یہ ناول ایک ایسے نوجوان مارٹن ڈریسلر کی کہانی ہے جو انیسویں صدی کے اواخر میں اپنا کیرئیر اپنے باپ کی سگاروں کی دکان میں بطور نائب کے شروع کرتا ہے اور پھر خوب سے خوب تر کی تلاش بھٹکتا رہتا ہے ۔ یہ ناول اس تھیم پر لکھا گیا ہے کہ ‘ امریکی خواب ‘ اندر سے کتنا کھوکھلا ہے ۔
ان چار ناولوں کے علاوہ اس کے افسانوں کے لگ بھگ دس مجموعے سامنے آ چکے ہیں ان میں ‘ وائسز اِن دی نائٹ ‘ (Voices in the Night ) 2015 ء میں چھپا ۔ اس کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ‘ دی بارنم میوزیم ‘ (The Barnum Museum ) 1990 ء میں شائع ہوا تھا جس میں اس کا افسانہ ‘ شعبدے باز ایزنہیم ‘ (Eisenheim the Illusionist ) بھی شامل تھا ۔ یہ افسانہ سٹیون ملہوسر کا شاہکار افسانہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس افسانے کو مدنظر رکھ کر امریکی ہدایت کار ‘ نیل برجر ‘ ( Neil Burger ) نے 2006 ء میں اس پر ایک فلمی سکرپٹ لکھا اور اس پر فلم ‘ شعبدے باز ‘ ( The Illusionist ) بنائی ۔ اس فلم میں ایزنہیم کا کردار ‘ ایڈورڈ نارٹن ‘ نے ادا کیا تھا ۔ یہ فلم عوام میں بہت پسند کی گئی اور اس نے باکس آفس پر خوب پیسے کمائے ۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد سٹیون ملہوسر ، 1997 ء کے بعد ایک بار پھر ‘ لائم لائٹ ‘ میں گیا تھا ۔ اس کا افسانہ ‘ سسٹرہڈ آف نائٹ ‘ (The Sisterhood of Night ) دو بار فلمائی جا چکی ہے یہ پہلے 2006 ء میں اور بعد میں 2014 ء میں فلمائی گئی تھی ؛ لیکن یہ دونوں فلمیں وہ مقبولیت حاصل نہ کر سکیں جو ‘ شعبدے باز ‘ نے حاصل کی تھی ۔ سٹیون ملہوسر کا کام لگ بھگ پندرہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
لکھنے کے علاوہ سٹیون ملہوسر لگ بھگ تیس سال ‘ سکڈمور کالج ‘ ، سارا گوٹا سپرنگز ، نیویارک میں پڑھاتا رہا اور 2017 ء میں ریٹائر ہوا ۔ اس نے کچھ فلموں میں اداکاری بھی کی ۔ اس تحریر کو لکھتے وقت ، وہ 76 برس کا ہے اور ‘ سارا گوٹا سپرنگز ‘ میں ہی رہتا ہے ۔
انیسویں صدی کے آخری برسوں میں ، جب عرصے سے کمزور ہوتی سلطنت ِ ہیپس برگ* اپنے اختتام کے نزدیک تھی تو فن جادوگری ایسے پھلا پھولا جیسے یہ پہلے کبھی نہ تھا ۔ کالی ٹوپیاں پہنے داڑھیوں والے جادوگر ، ‘ موراویا ‘ اور ‘ گیلیشیا ‘ جیسے بے نام دیہاتوں میں اور جزیرہ نما ‘ اسٹرین ‘ سے ‘ بوکووینا ‘ کی دھند تک ، مارکیٹ کے چوراہوں پر بستیوں کے رہنے والوں کو حیران کرتے ؛ وہ کاغذی خالی مخروطوں میں سے چکا چوند کر دینے والے ریشمی رومال نکالتے ، بچوں کے کانوں سے بلیرڈ کے گیند برآمد کرتے ، ہوا میں تاش کے پتے یوں اچھالتے کہ وہ ہاتھ میں واپس آنے سے پہلے فواروں ، سانپوں اور فرشتوں کی شکل اختیار کر لیتے ۔ ‘ زیگریب ‘ سے ‘ لووو’ تک ، ‘ بوداپسٹ ‘ سے ‘ ویانا ‘ تک ، بڑے شہروں اور قصبوں کے اوپیرا گھروں کے سٹیجوں ، ٹائون ہالوں ، جادوگھروں میں بستی بستی گھومنے والے شبعدے باز جو نِت نئے آلات سے لیس ہوتے ، اشرافی طبقے کے نفیس ناظرین کو اپنے زیادہ تفصیلی شعبدوں سے محظوظ کرتے ۔ یہ گردن مارنے کا زمانہ تھا ، یہ ہوا میں اڑنے اور معلق رہنے کا زمانہ تھا ، یہ بھوت کی طرح سامنے آنے اور غائب ہو نے کا زمانہ تھا جیسے زوال پذیر سلطنت اِن جادوگروں اور شعبدے بازوں کے ذریعے اپنے فنا ہو جانے کی پوشیدہ خواہش کا اظہار کر رہی ہو ۔ اس وقت کے قابل ذکر شعبدے بازوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے فریب نظری و چَکموں کی ان بلندیوں کو چھوا ہو جنہیں ‘ ایزنہیم ‘ نے چھوا تھا ، جس کے آخری چیستانی کرتبوں اور کمالات کو کچھ نے فن ِشعبدہ بازی و جادوگری کی فتح جبکہ دوسروں نے تباہ و بربادی کا نشان سمجھا ۔
ایزنہیم نے ایڈورڈ ابریمووِز ، ‘ بریٹسلوا ‘ میں 1859ء یا شاید 1860ء میں پیدا ہوا ۔ اُس کی زندگی کے ابتدائی سالوں کے بارے میں معلومات کم کم ہی ہیں یا شاید ایسا تھا کہ اس کی ساری زندگی ، شروع سے ہی فریب نظری اور چَکموں کے دائرے میں ہی رہی ۔ حقائق کی کمی کے باعث ہمیں شعبدے بازوں کی مشکوک یادداشتوں ، اس وقت کے اخباری تبصروں ، کہانیوں ، کاروباری رسالوں ، اشتہاری مواد اور جادوگری کے کرتبوں سے متعلق کتابچوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے اور ان میں ڈائری کے وہ اوراق بھی شامل ہیں جنہیں کسی شہزادی یا سفیر نے اس وقت لکھا جب انہوں نے ایزنہیم کے کرتب ‘ پیرس ‘ ، ‘ کراکائو ‘ یا ‘ ویانا ‘ میں دیکھے ۔
ایزنہیم کا والد ایک انتہائی باعزت ‘ الماری ساز ‘ تھا جس کی ‘ گِلٹ ‘ سے سجی الماریاں ، مہارت سے بنائی گئی پست قد درازوں والی میزیں ، جن کے پیر شیر کے پنجوں جیسے اور جن کی ہتھیاں غراتے شیروں جیسی ہوتیں ، ‘ بریٹسلوا ‘ کی اشرافیہ کے کمروں کی زینت بنتیں ۔ ایزنہیم چاروں بچوں میں سب سے بڑا تھا ؛ ‘ بریٹسلوا ‘ کے دوسرے یہودیوں کی طرح یہ خاندان بھی جرمن زبان بولتا تھا اور اپنے شہر کو ‘ پریس برگ ‘ کہتا تھا ، گو یہ یہودی ، کاروبار کو اچھی طرح سے چلانے کے لیے ، ضرورت کی حد تک ، سلواک اور مگیار زبانیں بھی جانتے تھے ۔ ایزنہیم بچپن میں ہی اپنے والد کی دکان میں کام کرنے کے لیے جانے لگا تھا ، یہی وجہ تھی کہ وہ ساری زندگی لکڑی کے ایسے ہموار ٹکڑوں کا شوقین رہا جو چولوں اور سوراخوں کے ذریعے ایسی نفاست سے جوڑے گئے ہوتے کہ بے جوڑ نظر آتے ۔ وہ جب سترہ برس کا ہوا تو وہ خود ایک ماہر الماری ساز بن چکا تھا ، یہ بات اس کے ہم عصر شعبدے بازوں میں سے کئی ایک نے بیان کی جو اس کے اس ہُنر کی تعریف کرتے تھے کہ وہ فریب نظری کے کرتب دکھانے کے لیے اپنی قوت ِ اختراع استعمال کرتے ہوئے ایسی ایسی الماریاں بناتا کہ کرتب دیکھتے ہوئے بندے کا سانس رُک جائے ۔ یہ نوجوان ہنر مند پہلے سے ہی ایک پُر جوش ‘ امیچیور ‘ جادوگر تھا جس کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ اپنے گھر والوں اور دوستوں یاروں کو تاش کے پتوں کے کرتبوں کے علاوہ انگوٹھی غائب کرنے کا کرتب بھی دکھاتا جس کے لیے اس نے ‘ بیچ ‘ کی لکڑی سے ایک چھوٹا سا بکسا خود ہی بنا رکھا تھا ۔ وہ ایک انگوٹھی مستعار لیتا ، اسے بکسے میں رکھتا اور اسے مضبوط رسی سے باندھ دیتا اور دیکھنے والوں میں سے کسی ایک کو ڈبہ تھماتے ہوئے چپکے سے اس میں سے انگوٹھی سِرکا لیتا ۔ ‘ بیچ ‘ کی لکڑی کا بنا یہ بکسا اپنے خفیہ خانے کی وجہ سے کافی دیر تک دیکھنے والوں کے لیے ایک امتحان بنا رہا ۔
کہا جاتا ہے کہ ایزنہیم کی زندگی سے جڑے ، شعبدہ بازی کے اس شوق کے پیچھے وہ اتفاق تھا جو اسے ایک ، بستی بستی گھومنے والے شعبدہ باز ، سے ملنے کے حوالے سے ہوا تھا ۔ اس کہانی کے مطابق ، ایک روز ، جب وہ سکول سے گھر لوٹ رہا تھا تو اس نے کالے کپڑوں میں ملبوس ، ایک بندے کو پیپل کے درخت تلے بیٹھا دیکھا ۔ اس بندے نے ایزنہیم کو بلایا اور لاتعلقی اور کاہلی سے اس کے کان سے پہلے ایک سکہ نکالا ، پھر دوسرا اور تیسرا ، یوں مزید سکوں کے بعد یہ اتنے ہو گئے کہ مٹھی بھر جائے ۔ پھر یہ سکے یک دم سرخ گلابوں کے ایک گچھے میں بدل گئے اوراس بندے نے اس گچھے میں سے بلیرڈ کا ایک سفید گیند نکالا جو بعد ازاں لکڑی سے بنی ایک بانسری میں بدلا اور اچانک نظروں سے غائب ہو گیا ۔ یہ کہانی ایک اور طرح سے بھی سنائی جاتی ہے کہ آخر میں وہ بندہ خود بھی پیپل کے درخت سمیت وہاں سے غائب ہو گیا تھا ۔ کہانیاں ، شعبدہ بازوں کے کرتبوں کی طرح ، اس لیے گڑھی جاتی ہیں کہ تاریخ ہمارے خوابوں کے لیے ناکافی ہوتی ہے ، لیکن ایزنہیم کے معاملے میں یہ بات خاصی مناسب لگتی ہے کہ یہ فرض کر لیا جائے کہ مستقبل کے اس ماہر شعبدے باز پر شعبدہ بازی کا پہلے کبھی تجربہ ہوا ہو ، جس نے اس پر گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ ایزنہیم نے ایک بار ایک جادوئی سامان کی دکان دیکھی تھی لیکن اس نے اس میں کچھ خاص دلچسپی نہ لی تھی ؛ لیکن اس واقعے کے بعد وہ ذوق و شوق سے اس طرف پلٹا تھا ۔ سردیوں کی ان تاریک صبحوں کو ، وہ سکول جاتے ہوئے اپنے دستانے اتار کر اپنی ٹھِٹری ہوئی انگلیوں سے کوٹ کی جیبوں میں بھرے ، گیند وں اور سکوں کے ساتھ جوڑ توڑ کرتا رہتا ۔ وہ اپنی تینوں بہنوں کو پیچیدہ سایوں سے سحر زدہ کرتا ؛ یہ سائے ‘ رمپلسٹیٹسکن اور ریپانزل ‘ ، ‘ امریکی بھینسوں اور ریڈ انڈینز ‘ اور پراگ کے گولم ‘ کی نمائندگی کرتے ۔ بعد ازاں ایک مقامی شعبدے باز جو ‘ اگنیزک ‘ کہلاتا تھا ، نے اسے سکھایا کہ شعبدہ بازی کے دوران آنکھ اور ہاتھ کی حرکات میں مطابقت کیسے پیدا کرنی تھی ۔ اور ایک بار تو اس تیرہ سالہ لڑکے نے یہ جراؐت کی کہ وہ سوڈا واٹر پینے والی پتلی نَلی پر ایک انڈا دھرے ‘ براٹسلوا ‘ قلعے تک گیا اور واپس آیا ۔ اس کے بہت بعد ، جب وہ یہ سب کچھ بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا اور وہ ویانا کے ایک اپارٹمنٹ کے ایک کونے میں اداس بیٹھا تھا ، جہاں اس کے اعزاز میں دعوت دی گئی تھی ، وہ تھکے ماندے انداز میں اٹھا اور ہوا میں سے بلیرڈ کے پانچ گیند برآمد کرکے ، بِنا کسی غلطی کے ، مہارت سے ان کے کرتب دکھانے لگا جس پر اس کی میزبان حیران رہ گئی تھی ۔
لیکن اُس جذبے کی پراسرایت کی گُتھی کس نے حل کرنی تھی جس نے اسے زندگی بھر کا روگ لگا دیا اور اسے اس کے پہلے والے راستے سے ہٹا کر اس راستے پر لگا دیا تھا جس سے واپس پلٹنا ممکن نہ تھا ؟ لگتا ہے کہ ایزنہیم نے اپنی قسمت کو دھیرے دھیرے قبول کرنا شروع کیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ یہ کوشش کرتا رہا ہو کہ اپنے اندر کے تضاد اور شعبدے بازی کے علم سے پیچھا چھوٹ جائے ۔ وہ چوبیس سال کی عمر میں بھی ایک ماہر الماری ساز تھا جو کبھی کبھار بی نجی محفلوں میں کرتب دکھاتا تھا ۔
اور پھر ایسے لگا جیسے کہ ایزنہیم اچانک ویانا کے ایک تھیئٹر میں نمودار ہوا ہو اور اس نے اپنے خوش کُن لیکن فنائی کیرئیر کا آغاز کر دیا ہو۔ یہ ذہین نووارد اس وقت اٹھائیس برس کا تھا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس زمانے کی دستاویزات یہ آشکار کرتی ہیں کہ ‘ براٹیسلوا ‘ کا یہ الماری ساز آسٹریا کے دارالخلافے میں آنے سے پہلے نجی محفلوں میں کم از کم سال بھر سے کرتب دکھا رہا تھا ۔ سال بھر پہلے اُس نے کس نجی محفل میں کرتب دکھائے یہ ابھی بھی پُراسرار ہے ، لیکن یہ بات بہت واضح ہے کہ اس نے آہستہ آہستہ شعبدے بازی اور جادوگری کی طرف توجہ کی اور اسے ، اپنی درازوں والی میزوں اور الماریوں کے ذریعے ، کُلی طور پر بطور پیشہ اپنایا ؛ درازوں والی میزیں اور الماریاں جو وہ مقامی شعبدے بازوں کو مہیا کرتا تھا ۔ ایزنہیم ایک ایسی طبیعت کا مالک تھا : وہ دھیمے دھیمے ، احتیاط سے اور مرحلہ وار آگے بڑھتا اور پھر جب وہ یہ جان لیتا کہ وہ جراؐت کرسکتا تھا تو وہ اچانک بڑھتا اورچھلانگ لگا دیتا ۔
عوام میں اس کے پہلے روز کے کرتبوں کو ، ان کے جراؐت مندانہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ سٹیج پر صفائی بھری مہارت سے فریب نظری کی وجہ سے جانا گیا جن میں فن بھری گھمن گھیریاں اور بدلائو کا عنصر بھی شامل تھا ۔ ایزنہیم کی پہلی کامیابیوں میں سے ایک ” نارنگیوں کا پراسرار درخت ” تھا جسے رابرٹ ۔ ہوڈن نے بازی گری میں مقبول کیا تھا ۔
حاضرین میں سے مستعار لیا ایک رومال ایک ننھے بکسے میں رکھا گیا اور جس کا رومال تھا اسے ہی یہ بکسا تھما دیا گیا ۔ اس دوران ایک نائب ایک بکسے میں نارنگیوں کا ایک چھوٹا سا پودا لیے سٹیج پر آیا اور اس نے اسے شعبدے باز کی میز پر رکھا اور وہاں سے چلا گیا ۔ ایزنہیم کے منہ سے نکلے ایک لفظ اور چھڑی گھمانے کے ساتھ ہی اس پودے پر پھولوں کی بہار آئی اور لمحوں بعد ہی اس پر نارنگیاں ابھرنا شروع ہو گئیں ؛ ایزنہیم نے ان میں سے کئی توڑیں اور انہیں حاضرین میں تقسیم کر دیا ۔ اور پھر اچانک پتوں پر سے دو تتلیاں اٹھیں جنہوں نے رومال اٹھایا ہوا تھا ۔ حاضرین میں سے وہ ، جس کے پاس رومال والا بکسا تھا ، نے جب ڈبہ کھولا تو رومال اس میں سے غائب تھا ؛ تتلیوں نے کسی طور اسے درخت پر سے حاصل کر لیا تھا ۔
یہ فریب نظری دو طرح کے دھوکوں پر مبنی تھی : ایک تو درخت میکانکی تھا جس پر اصلی پھول و اصلی پھل تھے اور میکانکی تتلیاں تھیں جنہیں پوشیدہ میکانکی طریقے سے اڑایا گیا تھا ؛ اور دوسرے فریبی بکسے سے رومال کا اس وقت نکال لینا جب اسے ناظر کے حوالے کیا گیا تھا ۔
ایزنہیم نے بہت جلد ہی رابرٹ ۔ ہوڈن کی اس بازیگری میں تبدیلیاں کر لیں جو بہت مشہور ہوئیں : وہ جب بھی پودے پر لال رنگ کا ریشمی کپڑا ڈالتا ، یہ پہلے سے اور بھی بڑا ہو جاتا اور اس کی شاخیں نارنگیوں کے علاوہ سیبوں ، آلو بخاروں اور ناشپاتیوں سے لد جاتیں اور آخر میں رنگ برنگی اصلی تتلیوں کا گلہ ہوا میں بلند ہوتا اور ناظرین کے سروں پر منڈلانے لگتا ، جہاں بچے خوشی سے چلاتے ہوئے ان نازک ریشمی تِتلیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ۔ اور پھر اس جادوگری کا اختتام یوں ہوتا کہ جب اس درخت پر کالا مخملی کپڑا ڈال کر تیزی سے اٹھایا جاتا تو درخت ایک ایسے پنجرے میں بدل چکا ہوتا جس میں پرندے رکھے جاتے ہیں اور اُس میں گم ہوا رومال پڑا ہوتا ۔
شعبدے و کمالات دکھاتے وقت ایزنہیم نے روایتی فراک کوٹ پہنا ہوتا اور سر پر ریشمی ہیٹ رکھا ہوتا اور اس کے ہاتھ میں آبنوسی چھڑی ہوتی جس کی نوک ہاتھی دانت سے بنی ہوتی ۔ ایک منفرد بات اس کے کالے دستانوں کا جوڑا تھا ۔ وہ اپنے ہر کرتب دکھانے کا آغاز یوں کرتا ؛ وہ آرام سے قدم اٹھاتا گِرے ہوئے پردوں میں سے سٹیج کے اگلے حصے میں آتا اور انہیں اُتار کر ہوا میں اچھال دیتا جہاں وہ ، دو سیاہ چمکیلے کوئوں میں بدل جاتے ۔
نقادوں نے جلد ہی اس بات کو بھی محسوس کر لیا کہ اِس جوان شعبدے باز کی دلچسپی اِن پراسرار ‘ مکّر اور چَکمے ‘ (Effect ) پیدا کرنے میں تھی جس کا ایک اظہار ، اس کا مقبول بھوتیلا پورٹریٹ تھا ؛ تاریک سٹیج پر ایک بڑا خالی کینوس پڑا ہوتا جو’ لائم لائٹ ‘ میں روشن نظر آتا ۔ اور جیسے ہی ایزنہیم اپنے دائیں ہاتھ سے لہریں پیدا کرتا تو سفید کینوس پر پُراسرار طریقے سے ایک پینٹگ روشن سے روشن تر ہوتی جاتی ۔
اب یہ بات شعبدے بازوں اور جادوگروں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ کوری ململ پر ایسے کیمیاوی محلولوں سے تصویر کشی کی جا سکتی ہے جو خشک ہونے پر نظر نہیں آتی ؛ اگر ” آئرن سلفیٹ ‘ کو نیلے رنگ کے لیے ،’ بسمتھ نائٹریٹ ‘ کو پیلے کے لیے اور ‘ کاپر سلفیٹ ‘ کو بھورے رنگ کے لیے برتا جائے تو ‘ پوٹاس کے سائناڈ ‘ کے ہلکے محلول کی پھوار پڑنے پر یہ تصویر نظر آنا شروع ہو جاتی ہے ۔ شعبدے باز کی آستین میں چھپی چھڑکائو کرنے والی بوتل ، آہستہ آہستہ ، پہلے نہ نظر آنے والے پورٹریٹ کو دکھانے لگتی ہے ۔ ایزنہیم نے اس کرتب کی پراسرایت میں یوں اضافہ کیا کہ اس کا پورٹریٹ انسانی قد جتنا بڑا تھا ، جو نظر آنے پر یوں نظر آتا جیسے کسی زندہ بندے کی شبیہہ ہو ؛ اس کی آنکھیں اور لب ہل رہے ہوتے ۔ ایک آرک ڈیوک ، یا کسی شیطان یا پھر ایزنہیم کا اپنا یہ بھوتیلا پورٹریٹ پھر مہر بند لفافوں کے اندر موجود مندرجات پڑھتا اور پھراس کی اپنی ہی چھڑی کے لہرانے پر غائب ہو جاتا ۔
لیکن ، شعبدے باز چاہے کتنا بھی ماہر کیوں نہ ہو جائے ، اس وقت تک اچھی ساکھ حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی اختراع سے نئے اور طبع زاد کرتب اور کمالات تخلیق نہ کرے ۔ اس لیے یہ بات واضح تھی کہ ایزنہیم پہلے سے معروف کرتبوں میں چالاکی کے ساتھ تبدیلیاں کرکے پیش کرنے پر مطمئن نہ تھا اور 1890 ء تک وہ اپنے کرتب دکھاتے ہوئے ، آخر میں ایک ایسی فریب نظری اور چَکمے کا کمال دکھاتا جو واضح طور پر اس کا اپنا طبع زاد ہوتا ۔ ایک کچھ یوں تھا ؛
شاندار طریقے سے کندہ کیے گئے ایک فریم میں ایک بڑا آئینہ رکھا ہوتا جس کا منہ ناظرین کی طرف ہوتا ۔ ایک ناظر کو سٹیج پربلایا جاتا اور اسے کہا جاتا کہ وہ اس کے گرد چکر لگا کر اچھی طرح معائنہ کرکے اپنی تسلی کر لے ۔ پھر ایزنہیم اُس کو ٹوپی والا لال لبادہ پہننے کے لیے کہتا اور اسے آئینے سے دس فٹ کے فاصلے پر کھڑا کر دیتا ، جہاں اس بندے کا شوخ لال عکس ناظرین کو واضح طور پر نظر آتا ۔ پھر ہال میں اندھیرا کر دیا جاتا سوائے ایک روشنی کے جو خود آئینے میں سے نکل رہی ہوتی ۔ جیسے ہی ناظر لبادے میں موجود اپنے ہاتھ لہراتا اور اپنے عکس کے سامنے جھکتا یا ادھر ادھر ہوتا تو اس کا عکس پہلے تو وہی کرتا جو ناظر کرتا لیکن پھر وہ ، اس کی تابع داری سے کترانا شروع کر دیتا ۔ ۔ ۔ وہ اپنے سینے پر ہاتھ باندھ لیتا جبکہ اسے ہاتھ لہرانے چاہیے ہوتے اور وہ جھکنے سے بھی انکاری ہو جاتا ۔ اچانک عکس پر اداسی طاری ہوتی اور وہ ایک چاقو نکالتا اور اپنی چھاتی میں گھونپ لیتا ۔ اور پھر ناظر کا عکس آئینے میں نظر آنے والے فرش پر گرتا اور اس کے مردہ جسم سے بھوتیلی سفیدی اوپر اٹھتی اور پھر یہ سفید دھواں گلاب کی شکل اختیار کر لیتا اور یہ گلاب آئینے میں کسی غیر مرئی شے پر منڈلانے لگتا ؛ اچانک آئینے میں سے ایک بھوت نکلتا اور ہوا میں تیرتا ہوا ، حیران زدہ ناظر ، جو کبھی تو بُری طرح ڈرا ہوا ہوتا ، کی طرف بڑھتا لیکن ایزنہیم کے اشارہ کرنے پر اوپر اٹھتا اور اندھیرے میں غائب ہو جاتا ۔
عام ناظرین کی تو بات ہی چھوڑ دیں ، مہارت سے بھرپور اس فریب نظری کے کمال نے پیشہ ور شعبدہ بازوں ، جادو گروں اور بازی گروں کو بھی اچنبھے میں ڈال دیا ؛ وہ آپس میں متفق تھے کہ یہ آئینہ ایک طرح کا ‘ الماری والا کرتب ‘ تھا ، الماری جس کے پیچھے کے دروازے کا چوکھٹا کالا تھا اور وہاں ایک نائب چھپا ہوا تھا ۔ بتیوں کو شیشے اور اس کی پشت پر سلور کی تہہ کے درمیان چھپایا گیا تھا ۔ جیسے ہی یہ روشن ہوتیں ، آئینہ شفاف ہو جاتا اور لال لبادے میں ملبوس نائب شیشے میں نظر آنے لگتا ۔ لیکن بھوت کی وضاحت خاصی مشکل تھی گو کہ سٹیج پر بھوتوں کو لا کھڑا کرنا ایک لمبے عرصے سے شعبدہ بازی کے کمالات میں موجود تھا ؛ اس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اسے چھپائی گئی جادوئی لالٹینوں کی مدد سے کھڑا کیا گیا تھا ، لیکن کوئی بھی دوسرا شعبدہ باز اس کرتب کی نقل نہ کر سکا ۔
اِن شروع کے سالوں میں ، جب ابھی ایزنہیم نے پریشان کر دینے والے ایسے کرتب دکھانے ابھی شروع ہی کیے تھے جن کا سٹیج پر کیے جانے والے کرتبوں کی تاریخ میں پہلے کوئی ذکر نہ تھا ، اس کی فریب نظریوں میں خاصی پیچیدگی تھی ؛ اور اس وقت بھی کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایزنہیم ایک بازیگر نہ تھا بلکہ ایک ایسا دانا ساحر تھا جس نے اپنی روح شیطان کے ہاتھوں بیچ دی تھی اور اس کے بدلے میں اس سے غیر الوہی طاقتیں پائی تھیں ۔
ایزنہیم ایک درمیانے قد کا بندہ تھا ۔ اس کے کندھے چوڑے اور چکلے تھے اور اس کی ہاتھوں کی انگلیاں لمبی تھیں ۔ اس کے سخت گیر زرد چہرے پر اس کی کالی آنکھیں بلا کی تیز تھیں اور چوڑی ، بڑی داڑھی نے اس کے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا جبکہ اس کا سب سے زیادہ نمایاں حصہ اس کا مضبوط سر تھا اور اس کا ماتھا ایسا تھا جس پر بالوں کی لکیر پیچھے ہٹ رہی تھی ۔ یہ چوڑا ماتھا لوگوں کو پیل کر رکھ دیتا ۔ اس کی شخصیت کے یہ سب پہلو مل کر اس کی ایسی ہیت بناتے جیسے کہ وہ ایک غیر معمولی دماغی طاقت رکھتا ہو ۔ اخباروں والے تو اس کی شخصیت کی چھوٹی چھوٹی تفصیل بھی بیان کرتے جو عوام میں اہم ہو جاتی ؛ جب وہ اپنی توجہ مکمل طور پر مرکوز کرتے ہوئے اپنے سر کو آگے بڑھاتا تو اس کے دائیں ابرو کے اوپر ایک بڑی رگ یوں پھولتی کہ یہ الٹے ‘ Y ‘ کی شکل اختیار کر لیتی ۔
جیسے جیسے بوڑھی صدی کی آخری دہائی کے سال گزرتے گئے ، ایزنہیم بھی رفتہ رفتہ اپنے ہم عصر شعبدے بازوں ، جادوگروں اور بازیگروں میں سب سے زیادہ نمایاں ہونے لگا ۔ یہ وہ سال تھے جب وہ یورپ کے ایک بڑے دورے پر نکلا جو اسے لندن میں ‘ مصری ہال ‘ ، پیرس میں ‘ رابرٹ ۔ ہوڈِن تھیئٹر’ ، شاہی درباروں اور ڈیوکوں کے محلات میں لے جانے کے علاوہ ‘ برلن ‘ ، ‘ میلان ‘ اور ‘ سلامانکا ‘ کے ہالوں میں بھی لے گیا ۔ اس نے ، گو ، اپنے کرتبوں میں ، ‘ غائب ہوتی عورت ‘ ، ‘ نیلا کمرہ ‘ ، ‘ پرواز کرتی گھڑی ‘ ، ‘ روح والی الماری ( اندرونی خانقاہ کا بھوت ) ‘ ، ‘ آسیب زدہ گھر ‘ ، ‘ جادوئی کیتلی ‘ ، ‘ عربی تھیلے کی پراسراریت ‘ جیسی مشہور فریب نظریاں اپنائیں لیکن وہ ان کو ماہرانہ طور پر بدل بدل کر، ان کی نئی اختراعی شکلیں پیش کرتا لیکن ساتھ ساتھ ، اس میں بے صبری بھی بڑھ جاتی اور وہ پہلے سے جانی پہچانی ان فریب نظریوں اور مکّروں کو تیزی سے اپنی ڈرامائی تخلیقات سے بدلنے لگا ۔
اُس زمانے کی اس کی اہم فریب نظریوں میں ‘ بابل کا مینار ‘ جس میں ایک چھوٹی سیاہ مخروط پراسرار طور پر ایسے بڑی ہوتی جاتی یہاں تک کہ پورا سٹیج اس سے بھر جاتا ؛ ‘ شیطانی کرسٹل کا گیند ‘ جس میں جہنم سے بلائی گئی ایک بھوتیلی مخلوق شیشے کے گلوب کو چورا چورا کرتی اور پھر ایسی چیخیں ، جو کسی بھی زمینی مخلوق کی نہ ہوتیں ، مارتی سٹیج پر اِدھر اُدھر پھرتی ؛ ‘ شیطانوں کی کتاب ‘ جس میں ایک عہد عتیق کی کتاب سے سیاہ دھواں اٹھتا اور پھر یہ کتاب شعلوں میں بدل جاتی اور ان سے بالوں سے بنے انگرکھوں میں ملبوس ڈرائونے بونے شور مچاتے سٹیج پر نکلتے اور اِدھر اُدھر دوڑنے لگتے ۔
1898 ء میں اس نے ویانا میں اپنا تھیئٹر قائم کیا جس کا نام اس نے ‘ ایزنہیمس ‘ یعنی ‘ ہائوس آف ایزنہیم ‘ رکھا ۔ یہ اس کے لیے ایسا تھا جیسے یہی اس کا اصلی گھر ہو جبکہ باقی وہ سب جن میں وہ پہلے رہا اور جہاں اس نےکرتب دکھائے ، نظر کے فریب سے بھری عمارتیں ہوں ۔ اس تھیئٹر میں اس نے ‘ ہیملن کا رنگ برنگا بانسری نواز ‘ ( پائیڈ پائپر آف ہیملِن ) پیش کیا ۔ وہ ناظرین سے بچے چنتا اور اپنی چھڑی کو بانسری کی طرح پکڑے ، ان کی قطار کو لیے دھند میں گِھری ایک پہاڑی جس کا دہانہ غار جیسا تھا ، میں جاتا اور پھر اپنی چھڑی یوں لہراتا کہ ساری پہاڑی ہوا میں تحلیل ہو جاتی ۔ کچھ لمحوں بعد ایک کالی افقی الماری (chest) نمودار ہوتی جس کے درازوں میں سے بچے نمودار ہوتے اور حیرانی سے اِدھر اُدھر دیکھتے اور پھر بھاگ کر اپنے والدین کے پاس چلے جاتے ۔ بچے اپنے والدین کو بتاتے کہ وہ ایک ایسے عجیب و غریب پہاڑ پر تھے جہاں سنہری میزیں اور کرسیاں تھیں اور یہ کہ جہاں ہوا میں سفید فرشتے اڑتے پھر رہے تھے ؛ انہیں اس بات کا کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ الماری کی درازوں میں کیسے آئے یا ان کے ساتھ کونسی واردات پیش آئی تھی ۔ اس کرتب کے بارے میں کچھ شکایات بھی کی گئیں ؛ اور جب ایک بار اس کرتب کے دکھائے جانے کے بعد ایک خوفزدہ بچے نے اپنی ماں کو یہ بتایا کہ وہ جہنم سے ہو کر آیا تھا ، جہاں اس نے ایک سبز رنگا شیطان بھی دیکھا جو سانس لیتا تو اس کے اندر شعلے جاتے اور چھوڑنے پر شعلے ہی باہر آتے ۔ اس پر ویانا کا پولیس چیف ، والتھر اوہل ، ایز نہیم سے ملا ۔ اس کے بعد ‘ پائیڈ پائیپر آف ہیملِن ‘ کا کھیل دوبارہ نہیں کھیلا گیا لیکن اس کے دو نتائج سامنے آئے : اول یہ کہ اس بات کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا تھا کہ ایزنہیم کے آرٹ میں ایک خاص طرح کا انتشار پھیلانے والی صفات موجود تھیں اور دوسرے یہ کہ ‘ فرانز جوزف ‘ کی خفیہ پولیس اس ماہر استاد پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھی ۔ یہ آخری والا بادشاہ عام بادشاہوں جیسا نہیں تھا اور اپنے بدنام زمانہ دادا کے برعکس پولیس کی جاسوسی میں کم ہی دلچسپی لیتا تھا ۔ لیکن ایزنہیم کے گرد افواہیں یوں دھند کھڑی کر رہیں تھیں کہ اس کے واضح کمالات بھی دھندلا گئے تھے اور اس کے خدو خال کو تاریک کرتے ہوئے اس کی مضبوط ساکھ سے پیدا ہونے والے خوف کو بڑھا رہے تھے ۔
ایسا نہ تھا کہ ایزنہیم کا کوئی حریف نہ تھا ؛ وہ اپنے مد مقابل کھڑے ہونے والوں کی للکاروں کا فیصلہ کُن جواب دیتا اور کچھ کا تو یہ کہنا تھا کہ وہ اپنی عزت نفس بچانے کے لیے بہت خونخواری سے جوابات دیتا ۔ صدی کے آخری سالوں میں ہوئے دو واقعات نے ، اس کے ہم عصروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ؛
1898 ء میں ویانا میں ‘ بینی ڈیٹی ‘ نامی ایک شعبدے باز سامنے آیا ؛ اس کا اصل نام ‘ پال ہنری کورٹوٹ ‘ تھا اور اس کا تعلق ‘ لیون ‘ سے تھا ۔ وہ ایک استاد شعبدے باز تھا اور اس کی فریب نظریوں میں مہارت کے علاوہ عمدہ بہائو بھی تھا ۔ اس کی غلطی یہ تھی کہ اس نے ایزنہیم کی اصل فریب نظریوں کو مہارت کے ساتھ کچھ تبدیلیوں کے بعد پیش کرکے ایزنہیم کو للکارا ۔ یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ ایزنہیم نے کبھی اپنے پیش رو شعبدہ بازوں کے کام کے ساتھ کیا تھا ۔ ایزنہیم کو جب اپنے اس حریف کے ظن کا پتہ چلا تو اس نے اسے ‘ شیطان کے بولتے پورٹریٹ ‘ کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ تباہی ‘ مغرور’ کی منتظر تھی ۔
اگلی رات ہی بینی ڈیٹی کی سٹیج پر ایزنہیم کی شکل والے بولتے پورٹریٹ نے منہ سے مسخری بھرے الفاظ میں یہی نکلا کہ تباہی مغرور کی منتظر تھی ۔ ایزنہیم جو خود پر فخر تو کرتا ہی تھا اور سوچ بچاری سے بھی کام لیتا تھا ، نے اتوار کو اپنی کی جانے والی بازیگری میں اس توہین کا ذرہ بھر اشارہ نہ کیا ۔ پیر کی شب بینی ڈیٹی کا کرتب بگڑ گیا : اس کی چھڑی اس کی انگلیوں سے اچھلی اور سٹیج پر لڑھکتی چلی گئی : بینی ڈیٹی کے لبادے میں چھپا پانی کا پیالہ جس میں دو مچھلیاں بند ڈھکن تلے موجود تھیں ، زمین پر گر کے ٹوٹ گیا : بولتا پورٹریٹ کچھ نہ بول سکا : ہوا میں تیرتی خاتون کالی تاروں پر لیٹی نظر آئی ۔ برہم بینی ڈیٹی نے انتقام لینے کا اعلان کرتے ہوئے ایزنہیم کو مجرمانہ تحریف کا مرتکب ٹھہرایا ؛ دو راتوں بعد ، بھرے ہال کے سامنے ، بینی ڈیٹی ایک سیاہ الماری میں گھسا اور اس کا پردہ گرایا جس کے بعد وہ دوبارہ سٹیج پر سامنے نہ آیا ۔ والتھر اوہل کی تفتیش بھی اس بھونڈے واقعے کا کوئی سِرا نہ پکڑ سکی ۔ کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ بد قسمت بینی ڈیٹی نے دور کے کسی دوسرے شہر بھاگ جانے کا یہ آسان راستہ اختیار کیا تھا ، جہاں وہ اپنی شرمناک شکست اور بدنامی کے بعد ایک نئے نام کے ساتھ رہ سکتا تھا ؛ جبکہ دوسرے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایزہنہیم نے کسی طرح اس کی روح کھینچ کر شاید اسے جہنم واصل کر دیا تھا ۔ ویانا کے لوگ اس سکینڈل کے سحر میں گرفتار ہوئے اور یہ کیفے اور ریستورانوں میں موضوع ِ گفتگو بن گیا اور اس کے بعد پولیس چیف اوہل ، ایزنہیم کے تھیئیٹر کے ‘ سٹال ‘ میں ایک سے زائد بار دیکھا جانے لگا اور وہ کسی اچھوتے کرتب پر تعریفی انداز میں سر بھی ہلاتا ۔
اگر بینی ڈیٹی ایک ایسا حریف تھا جو آسانی سے ٹل گیا تو پُراسرار ‘ پاسور ‘ نے ایزنہیم کو اس سے کہیں زیادہ مضبوط طریقے سے للکارا ۔ کہا جاتا تھا کہ ‘ ارنسٹ پاسور ‘ کا تعلق ‘ بوویریا ‘ سے تھا ؛ ویانا میں اس کے پہلے پہل کے کرتبوں اور کمالات کو آسٹریا کے لوگوں نے باریک بینی سے دیکھا اور وہ یہ ماننے پر مجبور ہو گئے کہ وہ چونکا دینے والی تخلیقیت کا استاد تھا ۔ پاسور ایک طوفان کی طرح شہر پر چھا گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ ایزنہیم کو پہلی بار اپنے جوڑ کا سامنا کرنا پڑا تھا ، بلکہ شاید وہ تو ایزنہیم کا بھی استاد لگتا تھا ۔ ۔ ۔ کیا واقعی ایسا تھا ؟ جلد باز اور بیوقوف بینی دیٹی کے برعکس پاسور نے ویانا کے جادوگر ایزنہیم کا کوئی حوالہ یا اس کے حوالے سے اشارہ تک نہ دیا ؛ کچھ نے اسے پیشہ ورانہ پاسداری جانا اور اسے پاسور کی تکبر بھری لاتعلقی نہ گردانا ۔ یہ کچھ ایسے تھا جیسے جرمن پاسور کسی بھی حریف کی موجودگی کو قرین ِ قیاس مانتا ہی نہ تھا ۔ لیکن اس موسم خزاں میں ان دونوں کے کرتب دکھانے میں ایک طرح کی حریفانہ چال پوشیدہ تھی ؛ ایزنہیم اتوار ، بدھ اور جمعہ کی راتوں کو کرتب دکھاتا جبکہ پاسور منگل ، جمعرات اور ہفتے کی راتوں کو ایسا کرتا ۔ یہ بات خصوصیت سے دیکھی گئی کہ پاسور جتنا کھل کر اپنی تخلیقیت کو استعمال کرتے ہوئے فریب نظریاں پیش کرتا ، ایزنہیم کی اپنی فریب نظریاں بھی زیادہ جراؐت مندانہ اور خطرناک ہوتی جاتیں ؛ ایسا لگتا جیسے وہ دونوں شعبدے بازی اور جادوگری کے فن کی حدیں پار کرتے ہوئے ، ہاتھ کی صفائی اور بد شگون کرتبوں کی خوبصورتی کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک اور ہی دنیا میں موجود ہوں ۔ یہ اونچی دنیا جو قطعاً بھولی اور معصوم نہ تھی ، میں یہ دونوں استاد ناظرین کے سامنے ایسے مقابلہ کر رہے تھے کہ ایک دوسرے کو زیر کر سکیں ۔ کچھ کا کہنا تھا کہ ایزنہیم اپنے ذہین حریف کے بے رحم دبائو کے خلاف جدوجہد کر رہا تھا یا اس کے تنائو سے نکلنے میں سرگرداں تھا ؛ جبکہ دوسرے یہ کہتے کہ ایزنہیم نے کبھی بھی وہ استادی نہیں دکھائی تھی جو پاسور دکھا رہا تھا ۔ اور جبکہ صدی اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی تھی تو سب ایک ایسے موقع کے منتظر تھے جب وہ اس ناشکستہ جنگ کے تنائو سے نکل پائیں ۔
اور پھر موقع آ ہی گیا : دسمبر کے وسط میں ایک رات پاسور نے ایک خاص فریب نظری کا مظاہرہ کیا ، اُس نے ، اِس میں پہلے تو اپنے دائیں ہاتھ کو غائب کیا ، پھر بائیں کو ، اس نے بعد میں اپنے پائوں غائب کیے ، یہاں تک کہ آخر میں اس کا صرف سر ، مخمل کے ایک سیاہ پردے کے سامنے ، ہوا میں تیرتا اور یہ کہتا نظر آیا کہ اس کرتب کو ‘ لوہے کے دور ‘ کے کسی بندے نے نہ دیکھا ہو گا ۔ اس طنزیہ اشارے نے ناظرین کا سانس پھلا دیا ۔ جب سر پر پڑنے والی تیز روشنی بجھی اور سٹیج روشن ہوا تو اس پر کالے کپڑے کا ایک ڈھیر پڑا تھا جو پھڑپھڑا رہا تھا پھر وہ اس وقت تک لہراتا رہا جب تک اس نے ہولے ہولے ، پھر سے پاسور کی ہیئت اختیار نہ کر لی ۔ اس ہیئت نے بہت ہی متانت سے ، ناظرین جو پر جوش طریقے سے تالیاں بجا رہے تھے ، کے سامنے سر جھکایا لیکن ایک خاموش للکار کی گونج تالیوں کے اس شور میں بھی دبی نہ رہی ۔ اگلی رات بھرے ہال میں ایزنہیم نے اپنے کرتبوں کا مظاہرہ کیا ؛ لوگ توقع کر رہے تھے کہ اس نے للکار کے جواب میں کچھ اچھوتا پیش کرنا تھا لیکن ایزنہیم نے للکار کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ نئی فریب نظریاں تو پیش کیں لیکن یہ کسی طور بھی پاسور کے کرتب کا جواب نہ تھیں ۔ جب وہ ناظرین کے سامنے آخری بار جھکا تو اس نے لاپرواہی سے یہ ضرور کہا کہ پاسور کا وقت اب گزر چکا ۔ لوگ بدقسمت بینی ڈیٹی کا قصہ بھولے نہ تھے اور یہ کہا جاتا تھا کہ پاسور کی اگلی چکموں سے شعبدے بازی دیکھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی جیسے پورا ویانا شہر جادوگری کا تھیئٹر بن گیا ہو ۔
پاسور کی آخری بازیگری ایسی ذکاوت سے لبریز تھی کہ بندہ خوف زدہ ہو جائے ؛ ہال میں بہت سے پیشہ ور شعبدے باز ، جادو گر اور بازیگر بھی موجود تھے جن کا متفقہ طور پر یہ کہنا تھا کہ یہی ایک کرتب ایزنہیم کے سارے بڑے سے بڑے کرتبوں پر بھاری تھا ۔ پاسور نے ہوا میں کچھ سکے اچھال کر آغاز کیا ، جنہوں نے ایک پرندے کی شکل اختیار کر لی اور ناظرین کے سروں پر اڑنے لگا اور اس کے پھڑپھڑاتے پروں سے سکوں کی جھنکار سنائی دینے لگی ؛ اس نے ہاتھ میں پکڑی چاندی کی ایک چھوٹی چھڑی سے میز پوش ہٹایا ، مہاگنی کی اس میز پر چاندی کی بنی ، ایک ٹرے میں بھاپ چھوڑتی ایک بھنی ہوئی بطخ پڑی تھی ۔ اس شام کے کمالات کے نقطہ عروج پر ، اس نے سٹیج پر پڑی اشیاء کو ایک ایک کرکے غائب کرنا شروع کر دیا ، جادوگر کی میز ، خوبصورت نائب ، دور نظر آتی دیوار یہاں تک کہ پردے بھی غائب کر دئیے ۔ گم ہوئی اس دنیا میں وہ اکیلا کھڑا تھا اور اس کی ناظرین پر جمی نظر ، میں درشتی بڑھتی گئی ۔ پھر اس نے ایک شیطانی قہقہہ لگایا اور اپنے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھا کر ربڑ کا مکھوٹا اتار پھینکا اور خود کو بطور ایزنہیم ناظرین کے سامنے پیش کر دیا ۔ ناظرین کے منہ سے نکلی سانس کی مشترکہ آواز ایسی تھی جیسے کوئی بھٹی جلی ہو ؛ ایک تو ہذیانی کیفیت میں آ کر رونے لگا ۔ جب ناظرین کو سمجھ آیا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایزنہیم ، جو خود ہی اپنا سب سے بڑا حریف تھا اور آخر میں اس نے خود کو بے نقاب کر دیا تھا ، کے لیے بھرپور تالیاں بجا کر داد دی ۔ پولیس چیف اوہل بھی اپنے باکس میں کھڑا ہو کر لوگوں کے ساتھ مل کر تالیاں بجانے لگا ۔ وہ اس چکمے سے بہت محظوظ ہوا تھا ۔
شاید یہ لوگوں کو مسلسل فریب میں رکھنے اور چَکمے دینے کا تنائو تھا یا شاید اکلاپے کا احساس ۔ ۔ ۔ مکمل اکلاپے کا احساس ، بہرحال ایزنہیم نے غائب ہوتی صدی کے آخری ہفتوں میں اور کرتب نہ دکھائے ۔ نئی صدی چڑھنے پر جہاں ویانا کے ‘ پریتر ‘ باغ میں آتش بازی کا مظاہرہ ہوا اور شاہی محل کے میدانوں سے سو توپوں کی سلامی پیش کی گئی ، ایزنہیم ویانا میں ہی تھا لیکن اپنے اپارٹمنٹ میں ہی رہا جس سے اسی دریا کا منظر نظر آتا تھا جو اس کے بچپن کے شہر میں بہتا تھا ۔ آرام کا یہ وقت ، جس کی کوئی وضاحت سامنے نہ تھی ، جاری رہا اور یہ شعبدے بازی سے عارضی دستبرداری میں بدلنے لگا ؛ کچھ نے اسے ریٹائرمنٹ کہا لیکن ایزنہیم نے خود ، ایسی کوئی بات نہ کی ۔ جنوری کے آخری عشرے میں وہ ‘ براٹیسلوا ‘ لوٹ گیا تاکہ اپنے والد کے کاروبار کی تفصیلات کا جائزہ لے سکے ؛ ایک ہفتے بعد وہ ‘ لینز ‘ میں تھا ؛ اور ایک مہینے کے اندر اندر اس نے ، ویانا کے مضافات میں جنگل سے بھری پہاڑیوں میں ایک تین منزلہ مکان خریدا ۔ اب وہ چالیس یا اکتالیس برس کا تھا ، ایک ایسی عمر جس میں بندہ اپنی زندگی پر ایک گہری نظر ڈالتا ہے ۔ اس نے کبھی شادی نہ کی ، گو ، اس کے بارے میں رومان بھری افواہیں وقتاً فوقتاً پھیلتی رہیں تھیں جن کے مطابق وہ اپنی کسی ایک یا دوسری نائب ساحرہ کے ساتھ تعلق میں نظرآتا ؛ وہ ایک سخت گیر خوبرو آدمی تھا اور امیر بھی ۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اتنا تنومند تھا کہ ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر وہ اپنے گھٹنے کو تیس بار جھکا سکتا تھا ۔ جب وہ ویانا کے مضافات ‘ وینروالڈ ‘ میں جا بسا تو کچھ ہی عرصے بعد اس نے ‘ سوفی ریٹر ‘ سے ملاقاتیں کرنا شروع کر دیں ۔ صوفی ایک مقامی جاگیردار ، جسے ایزنہیم کا پیشہ پسند نہ تھا ، کی چھبیس سالہ بیٹی تھی ۔ یہ جاگیردار ‘ کارل لیوگر ‘ کی یہودی مخالف ‘ کرسچین سوشل پارٹی ‘ کا پکا حامی تھا ؛ لگتا تھا جیسے سوفی ، ایزنہیم کی محبت میں گرفتار تھی لیکن آخر میں کچھ ایسی انہونی ہوئی کہ اس نے اچانک ہی ایزنہیم سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور ایک ماہ بعد ‘ گریز ‘ سے تعلق رکھنے والے اناج کے ایک تاجر سے شادی کر لی ۔ ایزنہیم سال بھر ایسے رہا جیسے دنیا سے تعلق توڑے کوئی جاگیردار رہتا ہے ۔ وہ صبح کے وقت گھڑ سواری سیکھتا ، دوپہر میں اپنی نجی شوٹنگ رینج میں پستول سے نشانہ بازی کی مشق کرتا ، موسم بہار کے لیے باغ میں پودے لگاتا اور اپنے تالابوں میں پانی کا ذخیرہ کرتا ۔ اس دوران اس نے پھلوں کا ایک نیا باغ بھی بنایا اور گھر کی پشت پر ایک لمبا اور نیچی چھت والا ایک ، شیڈ جیسا ، ڈھانچہ بھی کھڑا کروایا جو ‘ توفیلس فیبرک ‘ ( شیطان کی فیکٹری ) کے نام سے جانا جانے لگا ۔ اُس نے ، اِس میں اپنی کرتبی الماریاں ، دھوکہ دینے والے آئینے ، آسیبی پورٹریٹ ، اور جادوئی صندوقچے رکھے ۔ اس کی دیواروں کے ساتھ ساتھ ایسی الماریاں لگائی گئیں جن کے شیشے کے سلائیڈنگ دروازے تھے ، جن میں ایزنہیم کے خوفناک جادوئی آلات کا ذخیرہ رکھا گیا تھا : ان میں پرندوں کےغائب ہونے والے پنجرے ، پیالے جن میں پڑی مائع جات کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھیں ، شیطان کے اہداف ، شِلر کی گھنٹیاں ، باریک سپرنگوں والے پھول ، کرتبی گلدستے ، ہاتھ کی صفائی دکھانے والے خفیہ آلات ؛ گیندوں کے خول ، سکے پھینکنے والے ، ایسے اِلاسٹک ، جن سے رومال کھینچ کر غائب کیے جاتے ، مصنوعی سگار ، رومالوں کے کرتبوں میں رنگ بدلنے والی ٹیوبیں ، انگوٹھوں پر چڑھائے جانے والے خول ، ننھے مُنے سپرٹ لیمپ جو موم بتیوں سے جادوئی روشنیاں پیدا کرتے ، نقلی انگلیاں ، سیاہ ریشمی بال ۔ ٹیوبیں شامل تھیں ۔ اس فیکٹری کے تہہ خانے میں ایک بڑا کمرہ تھا جس میں وہ کیمیائوی و برقی تجربات کرتا اور وہاں ایک پردوں سے ڈھکا ‘ ڈارک روم ‘ بھی تھا ؛ ایزنہیم فوٹوگرافی اور سینماٹوگرافی کا ایک شوقین طالب علم تھا ۔ لوگ اسے رات دیر گئے تک کام کرتا دیکھتے اور کچھ کا کہنا تھا کہ اس کی کھڑکیوں کی مدہم روشنی میں بھوتوں جیسے ہیولے نظر آتے تھے ۔
پہلی جنوری 1901 ء کو ایزنہیم اپنے ویانا شہر والے اپارٹمنٹ میں لوٹ آیا جہاں سے ویانا کی پہاڑیاں اور دریائے ڈینوب نظر آتا تھا ۔ اس کے تین روز بعد وہ دوبارہ سے سٹیج پر نمودار ہوا ۔ ایک مقامی نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ فریب نظری کے استاد نے 1900 ء کے سال کو اس لیے خالی چھوڑ دیا تھا کہ یہ اُسے اپنے دو صفروں کی وجہ سے خود میں ہی ایک فریب ہی لگا تھا ۔ سال بھر کی غیر حاضری نے لوگوں کی توقعات کو بڑھاوا دیا تھا ۔ ہال کھڑے لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ماحول میں ایک تنائو بھری خاموشی تھی ؛ جیسے ہی پردہ ہٹا تو سٹیج پر لکڑی کی ایک کرسی اور شیشے کی ایک میز کے سوا کچھ نہ تھا ۔ ناظرین میں سے ، کچھ کے لیے یہ تبدیلی ایک انقلاب کا اشارہ تھی جبکہ دوسرے اس تبدیلی پر گومگو یا مایوسی کا شکار نظر آئے ۔ ایزنہیم دائیں طرف سے سٹیج پر آیا ۔ سرگوشیاں یکدم بند ہو گئیں ۔ اُس نے ایک کالا سادہ سا سوٹ پہن رکھا تھا اور اس نے اپنی داڑھی منڈھا دی تھی ۔ وہ کچھ بولے بغیر میز کے پیچھے پڑی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا ، اس کا منہ ناظرین کی طرف تھا ۔ اس نے اپنے ہاتھ ہولے سے میز کی سطح پر رکھے جو اس روز ، اس کی ساری بازیگری کے دوران وہیں رہے ۔ وہ اپنے سامنے فضا ء میں گھورتا رہا اور پھر قدرے جھک گیا ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ بہت زور سے کسی شے پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہو ۔
اٹھارویں صدی کے وسط میں شعبدے باز کی میز ایک بڑی میز ہوا کرتی تھی جس بچھا کپڑا فرش تک لٹکا ہوتا ؛ اس کپڑے کے نیچے سے ایک نائب ایک سوراخ کے ذریعے میز کی سطح تک رسائی حاصل کرتا اور وہ اشیا ء اٹھا لیتا جو ایک بڑی مخروط میں چھپائی جاتیں ۔ ایزنہیم کے زمانے میں میز پوش ذرا چھوٹا ہو گیا تھا اور میز کی ٹانگیں ناظرین کو نظر آنے لگیں لیکن میز تلے چھپا نائب اور ڈیزائن کی عمومی سادگی نے بھی شعبدہ باز کی میز کی ہیت میں کوئی خاص تبدیلی نہ کی تھی اور یہ ذہانت سے بنائی گئی ویسی ہی ایک مشین رہی جیسے پہلے تھی اور جو بہت سی چکمہ بھری تدبیروں کے ساتھ فریب نظری کے لیے شعبدہ بازوں کی مدد کے لیے موجود تھی ؛ ان میں چھپے ہوئے وصول کرنے والے یا خادمائیں جن کو اشیاء خفیہ طور پر پکڑائی جاتیں ، نظر نہ آنے والے کنویں و جال ، چھپے ہوئے پِسٹن ، ریشمی رومالوں کو غائب کرنے کے پُراثر عمل میں ان میں بنے مددگار سپرنگ شامل ہوتے ۔ ایزنہیم کی شیشے کی شفاف میز یہ اعلان کر رہی تھی کہ شعبدے بازوں، جادوگروں اور بازیگروں کی یہ روایتی میز ، جیسا کہ یہ جادوگری کی ساری تاریخ میں موجود رہی تھی ، اب متروک ہو گئی تھی ۔ یہ انتہا پسندی پر مبنی سادگی ، نہ صرف جمالیاتی سطح پر تھی بلکہ یہ اس بات سے بھی انکار تھا کہ شعبدہ بازی میں خاص طرح کی میکانکی مدد لی جائے اور یہ کچھ مخصوص مکّروں اور چکموں کے خاتمے کا بھی اعلان تھا ۔
ناظرین میں بے چینی ہیدا ہونی شروع ہوئی : کچھ خاص ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا ۔ بزنس کلاس میں بیٹھا ایک گنجا ماتھے پر بل ڈالے بیٹھا تھا ۔ لگ بھگ پندرہ منٹوں کے بعد میز کی سطح پر ہلکی سی افراتفری پھیلی اور ہوا کی کثافت گہری ہوتی محسوس ہوئی ۔ ایزنہیم نے اپنی توجہ اور سختی سے مرکوز کی ؛ اس کی دائیں ابرو پر اس کی مشہور رَگ الٹے ‘ Y ‘ کی شکل اختیار کرتے ہوئے ماتھے کی جلد کو دبانے لگی ۔ لگتا تھا کہ ہوا تھرتھرانے لگی تھی اور مزید کثیف بھی ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر ایزنہیم کے سامنے ، شیشے کی میز پر ، آہستہ آہستہ ایک گہری شکل ابھرنے لگی ۔ یہ ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا ، کچھ ایسا جیسے زیور رکھنے کا ڈبہ ہوتا ہے ۔ اس کے کنارے کچھ دیر کے لیے ہوا میں ہلکا سا تھرتھرائے ، جیسے یہ کالے دھویں سے بنایا گیا ہو ۔ ایزنہیم نے نظریں اٹھائیں ، جن کے بارے میں ایک ناظر کا کہنا تھا کہ یہ کالے آئینوں کی طرح تھیں جن سے کچھ بھی منعکس نہیں ہو رہا تھا ؛ وہ نچڑا اور تھکا ہوا نظر آ رہا تھا ۔ ایک لمحے کے بعد اس نے اپنی کرسی پیچھے دھکیلی ، کھڑا ہوا اور ناظرین کے سامنے جھکا ۔ تالیاں خال خال ہی بجیں ، لوگوں کو پتہ ہی نہ چلا کہ انہوں نے کیا دیکھا تھا ۔
ایزنہیم نے ، اس کے بعد ، ناظرین کو دعوت دی کہ وہ سٹیج پر آئیں اور میز پر رکھے ڈبے کا معائنہ کریں ۔ ایک عورت ڈبے کے پاس پہنچی اور اس نے اس کا معائنہ کیا ، کچھ محسوس نہ کیا اور کچھ بھی محسوس نہ کرتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر چلی گئی لیکن وہاں پہنچ کر اس نے اپنے ایک ہاتھ سے گلے کو پکڑ لیا ( جیسے گلا بند ہو گیا ہو ) ۔ ایک سولہ سالہ لڑکی نے جب اس ڈبے میں اپنا ہاتھ گھمایا تو وہ یوں زور سے چِلائی جیسے کہ سخت تکلیف میں ہو ۔
اس کرتب میں دو مزید چیزوں نے ‘ مادی شکل ‘ اختیار کی ؛ یہ ایک کرہ اور ایک چھڑی تھی ۔ اور جب ناظرین میں سے کچھ نے ان کے عدم سے وجود میں آنے کا یقین کر لیا تو ایزنہیم نے چھڑی کو اٹھایا اور ڈبے کے اوپر گھمایا ۔ پھر اس نے ڈبے کے ڈھکن کو اٹھایا اور کرہ اس میں رکھ کر ڈھکن بند کر دیا ۔ جب اس نے ناظرین میں سے لوگوں کو سٹیج پر بلایا ، تو ان کے ہاتھ خالی ہوا میں سے ہی آر پار ہوئے ۔ ایزنہیم نے ڈبہ کھولا ، کرہ کو باہر نکالا اور اسے ڈبے اور چھڑی کے درمیان رکھ دیا ۔ وہ ناظرین کے سامنے جھکا اور پردہ گرا دیا گیا ۔
ایزنہیم کی ، بیسویں صدی کی ، اس پہلی فریب نظری کے مظاہرے پر حاضرین کا رد عمل ہچکچاہٹ بھرا ، تحیر انگیز اور کسی حد تک مایوسی کا شکار تھا لیکن اس مظاہرے پر نقادوں کے تبصرے ولولہ انگیز تھے : ایک نقاد نے اسے فریب نظری اور چَکموں کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ اور موڑ قرار دیا ۔ اس نے ایزنہیم کے بھوتیلی اشیاء کو سٹیج کے بھوتوں کی بڑی روایت سے جوڑا اور اس کی پچھوکڑ روبرٹسن کے ‘ فینٹسمیگوریا ‘ میں تلاش کی جو اس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں بنایا تھا ۔ روبرٹسن نے جادوئی لالٹینوں کو چھپا کر انگیٹھیوں سے اٹھنے والے دھویں پر خوفناک عکس کھڑے کیے تھے ۔ انیسویں صدی کے وسط تک شعبدے باز زیادہ بہتر تکنیکوں سے ناظرین کو خوفزدہ کرتے تھے ؛ ایک چھپا نائب جس نے بھوتیلا لباس زیب تن کیا ہوتا سٹیج اور حاضرین کے درمیان ایک گڑھے میں کھڑا ہوتا اور ایک ترچھے آئینے ، جو ناضرین کی نظر سے اوجھل ہوتا ، کی مدد سے اس کا عکس سٹیج پر دکھایا جاتا ۔ یہ نئے والے بھوت پیچھے لگے کالے مخملی پردے کی تکنیک کے سہارے دکھائے جاتے ؛ اوپر لگی بتیاں سٹیج کے اگلے حصے کو روشن رکھتیں اور تاریکی میں ڈھکی سفید اشیاء تب سامنے آتیں جب ایک نظر نہ آنے والا نائب ، جس نے سیاہ لباس پہنا ہوتا ، ان پر سے کالے ڈھکن ہٹا نہ دیتا ۔ لیکن ایزنہیم کے بھوت کچھ ایسے تھے جو عدم سے وجود میں آتے تھے ، جن میں کسی مشین یا آلات کا استعمال بالکل بھی نہیں کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ یہ اس کے دماغ میں سے ابھر کر سامنے آتے ۔ یہ اثر حیران کن تھا اور اس میں استعمال کی جانی والی انجانی تدبیریں اس کی تیز فہمی کا شاہکار تھیں ۔ لکھنے والے نے پہلے تو خیال کیا لیکن پھر چھپی ہوئی جادوئی لالٹینوں اور آئینوں کی موجودگی کے امکان کو رد کرتے ہوئے سینماٹوگرافی کی خصوصیات ، جنہیں ‘ لومیر برادران ‘ نے انہی دنوں ایجاد کیا تھا ، کو بیان کیا اور ہم عصر شعبدے بازوں کے بارے میں بتایا کہ وہ اسے برت کر ایک اور ہی طرح کے غیر معمولی ‘ مکّر اور چکمے ‘ دے سکتے تھے ۔ اس نے یہ قیاس آرائی کی کہ ممکن تھا ، ایزنہیم نے یہ سائنسی تکنیکیں برت کر ہوا کو کثیف اور تاریک کیا ہو ۔ لیکن اس نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا یہ ممکن تھا کہ لومیر کی مشینوں میں سے کسی ایک کو اس کام کے لیے برتا جا سکتا تھا کہ وہ میز کے اوپر ہوا میں دھند بھر دے اور پھر اس سے بھوتیلی اشیاء بنا دے ؟ لیکن کسی نے دھند نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی روشنی کی کوئی شعاع جو اس کام کے لیے ضروری تھی ۔ بہرحال ایزنہیم نے یہ فریب نظری کھڑی کر دی تھی اور اس کا یہ چکمہ بے مثل تھا ؛ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ، فقط اپنے دماغ کی انتھک کوشش سے اشیاء کو وجود میں لا رہا ہو ۔ اور ایسا کرتے ہوئے فریب نظری کا یہ استاد ان جدید شعبدے بازوں کو رد کر رہا تھا جن کی شعبدہ بازی میں مشینوں کا استعمال بڑھتا جا رہا تھا اور جو ناظر کو جادو کی اس دنیا میں واپس لے جاتے ، جسے مزید تخلیقی ندرت اور چالاکی کی ضرورت تھی تاکہ شعبدے اور چَکمے اس محدود سیاہ دائرے سے نکل کر زیادہ سرکشی دکھائیں ۔
یہ لمبا تبصرہ صدی کے خاتمے کے حوالے سے تصنع سے بھرا تھا اور اس میں یہ بات پوشیدہ تھی کہ وہ ایزنہیم کو کچھ ایسا دکھائے جیسے وہ شعبدے بازوں کی دنیا سے نکل کر روحانی سفر کی طرف گامزن ہو اور اس کے بارے میں پرانے انداز میں گفتگو نہ کی جا سکتی ہو ۔
ایزنہیم ، اپنے اگلے شعبدے بازی کے مظاہرے میں ، شیشے کی میز کے پیچھے لگ بھگ پینتس منٹ تک بیٹھا رہا ؛ سامنے موجود ناظرین مودٔب تو تھے لیکن ان کی بےچینی بڑھ رہی تھی یہاں تک کہ تاریکی محسوس کی جانے لگی ، بیٹھے رہنے کے دوران وہ اُسی کشٹ سے گزرا جیسے پچھلی بار گزرا تھا اور پھر میز پر ایک جوان عورت کا سر اور کندھے نمودار ہوئے ۔ دیکھنے والوں کی بیان کی گئی تفصیل ایک دوسرے سے مختلف تھی لیکن سب میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ ایک جوان عورت کا ہی سر تھا جو شاید اٹھارہ یا بیس سال کی تھی جس کے بال گھنے ، سیاہ لیکن چھوٹے تھے اور اس کی آنکھیں بڑی پلکوں والی تھیں ۔ وہ سکون سے ناظرین کو خوابیدہ آنکھوں سے یوں دیکھ رہی تھی جیسے ابھی ابھی نیند سے جاگی ہو ۔ اس نے اپنا نام بتایا ؛ گریٹا اور پھر فرالین گریٹا نے ناظرین کے سوالوں کے جواب دئیے ۔ اس نے بتایا کہ وہ ‘ برون ‘ سے آئی تھی ؛ وہ سترہ برس کی تھی ؛ اس کا والد عدسے بناتا تھا ؛ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ اس ہال میں کیسے پہنچی تھی ۔ ایزنہیم ، اس کے پیچھے ، کرسی پر ڈھیر تھا ، اس کا چوڑا چکلا چہرہ ماربل کی طرح زرد تھا اور اس کی آنکھیں سامنے کی طرف یوں گھور رہی تھیں جیسے ان میں بینائی نہ ہو ۔ کچھ دیر کے بعد ایسے نظر آیا جیسے فرالین گریٹا تھک گئی ہو ۔ ایزنہیم نے خود کو سنبھالا اور گریٹا پر اپنی نطریں جما دیں ؛ وہ لہرانا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ مدہم ہوتے ہوئے غائب ہو گئی ۔
فرالین گریٹا والے کرتب کے ذریعے ایزنہیم نے ان سب پر فتح پا لی جو اس پر شک کر رہے تھے ۔ جیسے ہی اِس نئی فریب نظری کے بارے میں باتیں پھیلیں اور ناظرین نے خوفزدگی کے عالم میں ، شیشے کی میز پر ہوا کو تاریک ہونے تک ، انتظار کرنا شروع کر دیا تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ ایزنہیم نے لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا تھا ۔ اب ہر طرف گریٹا کا ہی چرچا تھا ۔ یہ کہا گیا کہ فرالین گریٹا اصل میں ‘ میری ویٹسیرا ‘ تھی جو ولی عہد روڈولف کے ساتھ ، ‘ مئیرلینگ ‘ میں ولی عہد کی شکار گاہی گھر کے بیڈ روم میں ، مر گئی تھی ؛ یہ بھی کہا گیا کہ فرالین گریٹا ، ملکہ الزبتھ ، جسے ساٹھ سال کی عمر میں جنیوا میں ایک ‘ انارکسٹ ‘ نے چھرا گھونپ کر مار دیا تھا ، کی وہ روح تھی جب الزبتھ ابھی لڑکی تھی ۔ یہ بھی کہا گیا کہ فرالین گریٹا کو چیزوں کے بارے میں پتہ تھا ، ہر طرح کی چیزوں کے بارے میں اور وہ دوسری دنیائوں کے رازوں پر سے پردہ اٹھا سکتی تھی ۔ کچھ عرصے کے لیے روحانیت پسندوں نے اسے بھی اپنے جیسا اور خود میں سے ایک جانا : اس کے تئیں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ روحوں کو مادی شکل میں دیکھا جا سکتا تھا ۔ نظام ِ وقت سے غیر مطمئن ‘ بلیواٹسکائٹس ‘ کی ایک انجمن جو ‘ صبح نو کی دختران ‘ کہلاتی تھی نے ایزنہیم کو اعزازی رکنیت سے نوازا جبکہ سالزبرگ کے نفسیاتی ریسرچ کے انسٹی ٹیوٹ کے تین داڑھی والے ممبران نے ایزنہیم کے فریب نظری اور چکموں کے مظاہروں میں آ کر بیٹھنا شروع کر دیا ؛ ان کے ہاتھوں میں کالے رنگ کی کاپیاں ہوتیں ۔ شعبدے بازوں اور روحیں بلانے والوں میں ٹھن گئی لیکن روحیں بلانے والے ایزنہیم کی فریب نظری کے مظاہروں کی کوئی وضاحت پیش کر سکے اور نہ ہی شعبدے باز اس فریب نظری کی نقل کر سکے ۔ روحیں بلانے والوں کے ایک زیرک گروپ نے جب یہ دیکھا کہ وہ ایزنہیم کے ‘ مظہر’ کو خود نہیں پیدا کر سکتے تو انہوں نے شعبدے بازوں کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے اسے ‘ دھوکے باز ‘ کہنا شروع کر دیا ۔ ایزنہیم کی پکی خاموشی کو ہر دو طرح کے لوگوں نے اپنی تائید سمجھا ۔ ان ” مظاہر ” جیسا کہ یہ فریب نظریاں کہلانے لگیں تھیں ، میں جلد ہی ایک کالے بالوں والا بندہ ، فرینکل ، جو تیس کے پیٹے میں تھا اور دماغ پڑھنے اور ٹیلی پیتھی کے روایتی طریقے جو اس وقت تک ختم نہ ہوئے تھے ، برتتے ہوئے گریٹا کے ساتھ شامل ہو گیا ۔ پیشہ وروں کے لیے یہ الجھن تو نہ تھی کہ دماغ کیسے پڑھا جاتا تھا ، الجھن تھی تو یہ کہ فرینکل خود کیسے وجود میں آتا تھا ۔ ہوا پر طبعی اثر ڈالنے کے امکان پر بار بار بحث ہوتی ؛ کچھ حلقوں میں یہ بھی کہا گیا کہ ایزنہیم کثیف کرنے والے کسی کیمائوی مادے کی مدد سے ہوا کو پہلے سے ہی گاڑھا کر لیتا اور اسے کسی نظر نہ آنے والے کیمائوی محلول سے مرتب کر دیتا ۔ لیکن پٹا ہوا ، ململ والے کینوس کا یہ مکّر کسی کو قائل نہ کر سکا ۔
مارچ کے مہینے کے اواخر میں ایزنہیم نے ویانا چھوڑا اور ایک بڑے دورے پر نکلا ؛ وہ ‘ لجبلجانا ‘ ، ‘ پراگ ‘ ، ‘ تیپلز’ ، ‘ بوداپسٹ ‘ ، ‘ کولوزوار ‘ ، ‘ زرنووِز ‘، ‘ ترنوپول ‘ اور ‘ ازغوروڈ ‘ میں فریب نظری کے مظاہرے کرتا رہا ۔ ادھر ویانا میں لوگ ، اس کی واپسی کا بے صبری ، جو دیوانگی کو چھو رہی تھی ، سے انتظار کر رہے تھے ۔ ایسی ہی دیوانگی والا ایک کیس ویانا کے ایک بینکر کی کالی آنکھوں والی سولہ سالہ بیٹی ، ‘ آنا شرر ‘ کا تھا جس نے یہ اعلان کیا کہ اسے گریٹا سے ایک طرح کی روحانی جڑت کا احساس ہوتا تھا اور وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تھی ۔ مصیبت کی ماری یہ لڑکی گھر سے بھاگ نکلی اور دو دن بعد پولیس نے اسے شہر کی ، شمال مشرقی جنگل بھری پہاڑیوں ، میں آشفتہ حالی میں گھِرا پایا ؛ گھر واپس آ کر اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا اور وہ روزانہ کی بنیاد پر بے قابو ہو کر چھ گھنٹے پھوٹ پھوٹ کر روتی رہتی ۔ ایک رات ، ایک اٹھارہ سالہ لڑکے کو ایزنہیم کے وِلا کے میدانوں میں سے گرفتار کیا گیا جس نے بعد ازاں یہ اقرار کیا کہ اس نے ‘ شیطان کی فیکٹری ‘ میں سیندھ لگانا چاہی تھی تاکہ مُردوں کو زندہ کرنے کا راز جان سکے ۔ گریٹا اور فرینکل کے مداحوں نے ٹولیوں کی شکل میں اکٹھے ہو کر ایزنہیم کے بارے میں گفتگو کرنی شروع کر دی ۔ یہ افواہ بھی پھیلی کہ استاد نے ‘ کیرینتھیا ‘ کے ایک دور دراز علاقے میں اپنی جادوئی طاقت کا ایک ایسا مظاہرہ کیا تھا جو پہلے سے بھی زیادہ ہولناک اور دل ہلا دینے والا تھا ۔
اور پھر استاد واپس آ گیا ، پردہ اٹھا اور لوگوں نے نیلے رنگ کی مخملی کرسیوں کی ہتھیوں پر انگلیاں گاڑ دیں ۔ ننگے سٹیج پر ایک سادہ سی کرسی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ایزنہیم تھکا ہوا تھا اور اس کا چہرہ زرد تھا ، اس کی کنپٹیوں پر سایہ دار گڑھے تھے ، وہ چلتا ہوا کرسی تک گیا اور اس پر بیٹھ کر اپنے بڑے اور لمبے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ دئیے ۔ اس نے ہوا میں نظریں جمائیں اور لگ بھگ چالیس منٹ تک تن کر بیٹھا رہا جبکہ اس کے پسینے کی ندیاں اس کے بڑی ہڈیوں والے گالوں پر بہتی رہیں اور ماتھے پر اس کی موٹی رگ نے ابھر کر معمول کی شکل اختیار کر لی ۔ دھیرے دھیرے ہوا کے سیاہ ہونے کا عمل امیتازی طور پر نظر آنے لگا اور ایک ناقابل شناخت ہیولا بننے لگا ، ویسے ہی جیسے سردیوں کے دِنوں میں کمرے گرم کرنے والے ریڈی ایٹروں پر بھاپ کی جھمک لہرانے لگتی ہے ۔ جلد ہی یہ ہوا اور گاڑھی ہوئی اور تھکے ہارے گراوٹ کے شکار ایزنہیم کے سامنے ایک خوبصورت لڑکا آ کھڑا ہوا ۔ اس کی بھوری آنکھوں پر گہرے رنگ کی پلکیں تھیں ۔ اس نے اعتماد سے اِدھر اُدھر دیکھا جیسے ابھی خواب دیکھتا اٹھا ہو ؛ اس کے بڑے بال گھنگھریالے تھے اور اس نے سکول کا یونیفارم پہن رکھا تھا جس میں گہری سبز نیکر اور لمبی سرمئی جرابیں نمایاں تھیں ۔ وہ حیران اور شرمیلا تھا اور ناظرین کو سامنے پا کر بے چین بھی ، لیکن جب اس نے چلنا شروع کیا تو وہ بہتر طور پر حرکت کرنے لگا اور اس نے اپنا نام بتایا ؛ ایلِس ۔ اس لڑکے کی نفاست نے ناظرین کو مہبوت کر دیا ۔ وہ تب ہی ہوش میں آئے جب ایک عورت کو سٹیج پر بلایا گیا ۔ جب وہ ایلِس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے کے لئے جھکی تو اس کا ہاتھ خالی ہوا میں آر پار ہو گیا ۔ اس نے ایسے چیخ ماری جیسے کراہ رہی ہو ۔ وہ گھبرا کر جلدی سے سٹیج سے اتر گئی ۔ بعد میں اس نے بتایا کہ اسے ہوا ٹھنڈی لگی تھی ، بہت ہی ٹھنڈی ۔
ایلِس کا چرچا یوں ہوا کہ گریٹا اور فرینکل بھلا دئیے گئے ۔ اس غیر مرئی لڑکے کے بارے میں یہ کہا جانے لگا کہ یہ ایک شعبدے باز کا تخلیق کردہ سب سے زیادہ من موہنا فریب تھا ؛ روحانیت پسند کیمپ نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ لڑکا ، اُس لڑکے کی روح تھی جو 1787 ء میں ‘ ہیلگولینڈ ‘ میں مرا تھا ۔ ایلِس کی مقبولیت اس سطح کو چھونے لگی کہ اس سے پہلے کہ ایزنہیم ابھی ہوا کو سیاہ کرنا شروع ہی کرتا تو چیخوں ، سسکیوں اور آہوں کی آوازیں تنائو میں بیٹھے ناظرین کے گھٹے ہوئے گلوں سے نکلنا شروع ہوتیں اور تب تک جاری رہتیں جب تک خوبصورت لڑکا اپنی ہیئت اختیار نہ کر لیتا ۔ ایلِس روایتی جادوئی باتوں میں نہ پڑتا ، بس سادگی سے سٹیج پر پھرتا رہتا اور ان سوالوں کے جواب دیتا جو اس سے پوچھے جاتے یا وہ خود اپنے سوال ناظرین سے پوچھتا ۔ اس نے بتایا کہ اس کے والدین فوت ہو چکے تھے : وہ بہت ساری باتوں سے واقف نہ تھا اور جب اس سے یہ پوچھا جاتا کہ وہ اس ہال میں کیسے پہنچا تو وہ پریشان ہو جاتا ۔ بسا اوقات وہ سٹیج سے اتر کر گلیاری میں آ جاتا اور اپنے ہاتھ آگے کرکے ہوا کو پکڑنے کی کوشش کرتا ۔ آدھ گھنٹے بعد ایزنہیم اسے لہرا دیتا اور وہ مدہم ہوتے ہوتے غائب ہو جاتا ۔ جب یہ خوبصورت لڑکا غائب ہوتا تب بھی ناظرین کی چیخیں سننے میں آتیں ۔ اور پھر ایک گڑبڑ والی واردات ہوئی ؛ ایک جوان عورت اس وقت سٹیج پر لپکی جب ایلِس غائب ہو رہا تھا ، وہ اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کے ہاتھ ہوا میں ہی لہراتے رہے ۔ اس کے بعد اوہل پھر سے تھیئٹر میں نظر آنے لگا اور وہ ایزنہیم کے کرتب کو خاصی دلچسپی سے دیکھتا ۔
ایک روز ، جب وہ وہیں تھا تو ایزنہیم نے سارے ناظرین کو ایلِس کا ایک ساتھی بنا کر حیران کر دیا ۔ یہ ایک لڑکی تھی جو خود کو ‘ روزا ‘ کہتی تھی ۔ اس کے لمبے بال گھنے اور سیاہ تھے ۔ اس کی آنکھیں خوابیدہ تھیں اور اس کے گالوں کی ہڈیاں سلواکوں جیسی تھیں ؛ وہ آہستہ آہستہ سنجیدگی سے بولتی تھی اوراکثر رُک کر درست لفظ کے بارے میں سوچنے لگتی ۔ ایلِس اس سے شرماتا اور پہلے پہل تو وہ اس کی موجودگی میں بولنے سے بھی انکاری ہو گیا ۔ روزا کا کہنا تھا کہ وہ بارہ برس کی تھی ؛ وہ یہ بھی کہتی کہ اسے ماضی اور مستقبل کے راز معلوم تھے اور وہ اکثر یہ دعوٰی بھی کرتی کہ ناظرین میں سے کسی بھی ناظر کی موت کی پشین گوئی کر سکتی تھی ۔ ایک بار ایک پتلے گالوں والے نوجوان ، جو یقیناً ایک طالب علم تھا ، نے ہاتھ اٹھایا ۔ روزا سٹیج کے کنارے پر گئی اور اسے کافی دیر تک خلوص بھری سنجیدہ آنکھوں سے گھورتی رہی ؛ اور پھر جب ، اس نے نوجوان سے نظریں ہٹائیں تو بولی کہ اس لڑکے نے نومبر میں ، پہلے کھانستے ہوئے خون تھوکنا تھا اور آنے والی گرمیوں کے ختم ہونے سے پہلے تپ ِ دق کے ہاتھوں مر جانا تھا ۔ نوجوان کا رنگ زرد پڑ گیا ، وہ کانپنے لگا اور غصے میں آ کر احتجاج کرنے لگا ۔ پھر وہ اچانک بیٹھ گیا اوراس نے اپنا چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپ لیا ۔
روزا اور ایلِس جلد ہی پکے دوست بن گئے ۔ ایلِس کا بتدریج اپنے شرمیلے پن پر قابو پانا اور روزا کے ساتھ مضبوطی سے جڑنے کے عمل کو دیکھنا لوگوں کے دل میں گھر کر گیا ۔ جیسے ہی اس کا ظہور ہوتا ، وہ فوراً ہی محبت سے ، اپنی بڑی بڑی متلاشی آنکھوں کے ساتھ ، اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا جیسے روزا کو ڈھونڈ رہا ہو ۔ جیسے ہی ایزنہیم شدید تنائو سے دوبارہ گھورنے لگتا تو ایلِس خود سے کھیلنے لگتا لیکن کن اکھیوں سے ایزنہیم کے سامنے ہوا پر بھی نظر رکھتا ۔ جیسے جیسے وہاں ہوا تاریک ہوتی جاتی اس کا تنائو اور بے چینی بڑھتی جاتی اور جیسے ہی روزا اپنی خوابیدہ سیاہ آنکھوں اور بڑی ہڈیوں والی گالوں کے ساتھ وجود میں آتی تو اس کا چہرہ یوں کِھل اٹھتا جیسے کوئی بڑی تکلیف ختم ہو گئی ہو ۔ وہ دونوں ، اکثر آپس میں ہی کھیلتے رہتے جیسے وہ ناظرین کی موجودگی سے غافل ہوں ۔ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے خیالی راستوں پر چلتے ، اپنے بازوئوں کو آگے پیچھے لہراتے یا پھر نظر نہ آنے والے جھارے سے نظر نہ آنے والے پھولوں کو پانی دیتے ؛ ان کی اِن لطیف و نفیس حرکات کو ایک نے نہیں بلکہ کئی لوگوں نے دیکھا تھا ۔ ایسے کھیل کھیلتے ہوئے روزا ، شمالی علاقوں کی جرمن زبان کے کسی نامانوس لہجے میں اداسی بھرے خوبصورت گیت گاتی جو دل کو موہ لیتے ۔
یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ افواہ کب اور کیوں پھیلی کہ ایزنہیم کو گرفتار اور اس کے تھیئٹر کو بند کیا جانا تھا ۔ کچھ کا کہنا تھا کہ اوہل شروع سے ہی ایسا کرنا چاہتا تھا اور وہ ایک مناسب موقعے کی تلاش میں تھا ؛ دوسروں نے کچھ خاص واقعات کا ذکر کیا ۔ اس طرح کا ایک وقوعہ ، موسم گرما کے اوآخر میں ہوا تھا ، جب ناظرین میں فساد اٹھا تھا ؛ ایلِس اور روزا کو سامنے آئے کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ پہلے ایک تیز سرگوشی اور پھر غصے بھری ہش ، ہش سنائی دی اور پھر اچانک ایک عورت پہلے تو کھڑی ہوئی اور پھر تیزی اور شدت سے آگے جھکی کہ اس کے پیچھے کی گلیاری والی نشست سے ایک بچہ اوپر ابھرا ۔ یہ بچہ ، لگ بھگ چھ سال کا لڑکا تھا ، وہ راستے سے نیچے اترا اور سیڑھیاں چڑھ کر سٹیج پر جا کھڑا ہوا اور حاضرین کو مسکرا کر دیکھنے لگا ۔ لوگوں نے فوراً پہچان لیا کہ وہ ایلِس اور روزا جیسا ہی تھا ۔ یہ بچہ پھر دوبارہ نہ سامنے آیا لیکن ناظرین جب نشستوں پر بیٹھتے تو اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے اضطراب کے عالم میں دیکھتے ۔ شاید ، اسی طرح کے کشیدہ ماحول میں ، متوقع گرفتاری کی افواہ پھیلی اور پھر کبھی نہ دب پائی ۔ پولیس چیف اوہل کا روز اپنے باکس میں آ کر بیٹھنا بذات خود تنائو بھری سرگوشیوں کا سبب بن جاتا ۔ ایسا لگنا شروع ہو گیا تھا جیسے پولیس کے اِس چیف اور ایزنہیم کے درمیان ایک خفیہ جنگ چھڑ گئی ہو : کہا جاتا تھا کہ اوہل ایک ڈرامائی گرفتاری کا منصوبہ بنا رہا تھا جبکہ ایزنہیم عمدہ طریقے سے فرار ہونے کا سوچ رہا تھا ۔ ایزنہیم نے اپنے تئیں سرگوشیوں کو نظرانداز کیا اور ایلِس و روزا کی ناظرین کو حیران کرنے والی حرکات میں کوئی ترمیم نہ کی بلکہ ان طاقتوں ، جو اس کے خلاف اکٹھی ہو رہی تھیں ، کی مزاحمت کرتے ہوئے ، اس نے ایک شام ، ایک اور شکل کھڑی کر دی ، یہ ایک انتہائی بدصورت بُڑھیا تھی جس نے کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور جس نے نہ صرف ایلِس اور روزا کو ڈرا دیا بلکہ ناظرین کی بھی خوف سے بھری چیخیں نکلوا دیں ؛ پھر وہ ان کی نظروں کے سامنے پگھلی اور غائب ہو گئی ۔
ایزنہیم کی گرفتاری اور اس کے تھیئٹر کی ضبطگی کی سرکاری وجہ یہ بیان کی گئی کہ وہ امن عامہ کو خراب کر رہا تھا ؛ پولیس کی رپورٹوں ، جو وہ ایک سال سے مرتب کر رہے تھے ، میں نقص ِ امن کے سو سے زائد واقعات درج تھے ۔ لیکن اوہل کی ذاتی دستاویزات ایک اور ہی گہری وجہ کو آشکار کرتی تھی ۔ پولیس کا چیف ایک ذہین اور گہرے مطالعے والا شخص تھا ۔ وہ خودد بھی ایک ‘ امچیور’ شعبدے باز تھا اور وہ اس وقت غیر ضروری طور پر کسی قسم کی پریشانی محسوس نہیں کرتا تھا ، جب بھی کبھی ایزنہیم کی فریب نظریوں پر لوگوں کا انتہا پسندانہ رد عمل سامنے آتا ۔ وہ ، گو ، ان سب واقعات کو پوری فرض شناسی سے درج کرتا اور خود سے سوال بھی کرتا کہ کیا یہ ‘ چکمے ‘ عوام کی حفاظت اور اس کے آداب سے لگا کھاتے تھے یا نہیں ؟ ایسا نہیں تھا ، اوہل کو کچھ اور ہی پریشانی تھی ، کچھ ایسی پریشانی جس کے لیے اسے نام تلاش کرنے میں بھی دشواری کا سامنا تھا ۔ ” حدیں پار کرنا ” یہ اس کی نوٹ بکس میں کئی بار لکھا نظر آیا لیکن وہ اس پر بھی مطمئن نہ تھا کہ یہ پورے معانی ادا نہیں کر رہا تھا ، لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ایزنہیم کو ‘ امتیازات ‘ کا سختی سے کار بند رہنا چاہیے تھا ۔ آرٹ اور زندگی ایک ایسا ہی ‘ امتیاز ‘ بناتی تھی جبکہ فریب نظری اور حقیقت ایک اور طرح کا ‘ امتیاز ‘ تھا ۔ ایزنہیم جان بوجھ کر حدیں پار کر رہا تھا اور اشیاء کی اساس کو بگاڑ رہا تھا ۔ اوہل ، اصل میں ایزنہیم کو اس بات کے لیے مورد ِ الزام ٹھہرا رہا تھا کہ وہ کائنات کی بنیادوں کو ہلا رہا تھا ، ‘ حقیقت ‘ کی بیغ کنی کر رہا تھا اور ایسا کرتے ہوئے کچھ ایسا کر رہا تھا جو کہیں زیادہ بُرا تھا یعنی وہ بادشاہت کو تہس نہس کر رہا تھا ۔ سلطنت اور بادشاہت کہاں رہے گی اگر ایک بار ‘ حدود ‘ کا تعین کرنے کا تصور دھندلا گیا اور غیر یقینی بن گیا ؟
14 فروری ، 1902 ء کی رات ۔ ۔ ۔ ۔ جو ایک سرد رات تھی اور آسمان بھی صاف تھا ، تب فیشن ایبل خواتین تھوڈی تک اونچے کالے سکارف پہنے اور اپنی کہنیوں تک بازوئوں کو ، بھاری فر کے بنے اونی پوشوں میں ، چھپائے چہل قدمی کر رہی تھیں ، گھوڑوں کی نعلوں کی تیز اور نوکیلی آواز سڑکوں پر گونجی ۔ ۔ ۔ یونیفام میں ملبوس بارہ پولیس والوں نے ‘ ایزنہیمہس ‘ کے ناظرین کے درمیان اپنی نشستیں سنبھالیں ۔ ایزنہیم کو فریب نظری کے مظاہرے کے دوران گرفتار کرنے کے فیصلہ پر بعد ازاں تنازع بھی کھڑا ہوا ؛ لیکن اس طرح کی عوامی گرفتاری کا مقصد ایزنہیم کے چاہنے والوں اور شاید دوسرے شعبدے بازوں کو تنبیہ کرنا بھی تھا ۔ جیسے ہی روزا نے وجود پایا ، اوہل اپنے باکس سے باہر نکلا ۔ کچھ لمحوں بعد ہی وہ ایک طرف کے دروازے سے نکل کر سٹیج پر آیا اور شہر ِ ویانا اور ‘ ہز امپیریل میجسٹی ‘ کے نام پر ایزنہیم کی گرفتاری کا اعلان کیا ۔ پولیس کے بارہ افسر گلیاری میں آ کھڑے ہوئے اور اس کے حکم کا انتظار کرنے لگے ۔ ایزنہیم نے اوہل کو تھکاوٹ بھرے انداز سے دیکھا لیکن کوئی حرکت نہ کی ۔ ایلِس اور روزا ، جو سٹیج کے کنارے پر کھڑے تھے ، نے خوفزدہ ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا ؛ پیارے لڑکے نے سر ہلایا اور اس کے منہ سے نکلا ” نہیں ” ، اس کی آواز فرشتوں جیسی تھی ، روزا نے خود کو سمیٹا اور ہلکی آواز میں ایک گیت گانا شروع کر دیا جس میں ایسی آہ و زاری تھی جیسے کسی نے اسے نچوڑ کر رکھ دیا ہو ۔ اوہل ، جو ایزنہیم سے دس فٹ کے فاصلے پر کھڑا تھا تاکہ استاد بِنا سہارے خود کھڑا ہو ، نے جب یہ دیکھا کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل رہے تھے کیونکہ ناظرین میں سے بھی ” نہیں ” کی آوازیں ابھرنے لگی تھیں ۔ وہ تیزی سے ، بیٹھے ہوئے ایزنہیم کی طرف بڑھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا لیکن اس کا ہاتھ شعبدہ باز کے کندھے کو گرفت میں نہ لے سکا اور لگتا تھا جیسے وہ الجھ کر رہ گیا ہو ۔ اس نے غصے میں آ کر ایزنہیم کو پیٹنا شروع کر دیا لیکن وہ اطمینان سے بیٹھا رہا اور اس پر بے معانی مار کے اس حملے کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ آخر چیف نے اپنی تلوار نکالی اور ایزنہیم پر وار کیا ، ایزنہیم وار سے بچتے ہوئے پُروقار انداز میں کھڑا ہوا اور ایلِس اور روزا کی طرف مُڑا ، ان کی نظروں میں التجا تھی ؛ وہ لہرانے لگے اور مدہم ہونا شروع ہو گئے ۔ ایزنہیم پھر حاضرین کی طرف مُڑا ، اداسی سے اور ہولے سے ، ان کے آگے جھک گیا ۔ ناظرین کے کچھ حصوں سے تالیاں بجیں اور ان کی آواز اونچی اور بے قابو ہوتی گئی ، ایسے میں پردے لہرائے اور چھ پولیس کے اہلکار سٹیج پر سامنے آئے اور ایزنہیم کو دبوچنے کی کوشش کرنے لگے ۔ ایزنہیم نے انہیں افسردگی سے یوں دیکھا کہ ایک اہلکار کو اپنے دل پر ایک سایہ گزرتا ہوا محسوس ہوا ۔ پھر ناظرین میں اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی جب انہوں نے استاد کو اپنے آپ میں مجتمع کرتے ہوئے کسی آخری ‘ چکمے ‘ کی تیاری کرتے دیکھا ؛ اس کا چہرہ ، توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے تن گیا ، اس کے ماتھے پر، مشہور رگ تن گئی ، اس کی نظر نہ آنے والی آنکھوں میں اتنی تاریکی تھی جتنی کہ موسم خزاں کی سیاہ راتوں میں ہوتی ہے اور جن میں درختوں کی شاخیں چِر چِر کرتی ہیں ۔ کپکپاہٹ کی ایک لہر اس کے بازوئوں میں دوڑتی نظر آئی جو اس کی ٹانگوں میں منتقل ہونے لگی ۔ جیسے ہی ایزنہیم نے خود کو اپنی آخری ، ناسمجھ آنے والی حرکت کے لیے تیار کیا ، ناظرین کے سانس دھونکی کی طرح چلنے لگے : اس نے اپنی گھوری کے کالے شعلے کو جھکایا اور خود میں ہی منتقل کرنے لگا ۔ اس نے اپنی وحشیانہ مرکوز توجہ سے اپنی ہستی کے دھاگے خود ہی ادھیڑنے شروع کر دئیے ۔ لہراتے ہوئے ، آہستگی سے مدہم ہوتے ہوئے ، وہ بِنا ہلے وہیں تاریکی کا حصہ بن گیا ۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے ، ایزنہیم کے چہرے پر ، جب وہ اُن کی آنکھوں کے سامنے تحلیل ہو رہا تھا ، خوشی کا ایک احساس دیکھا تھا جبکہ دوسروں کا کہنا تھا کہ آخر میں ، اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا تھا اور اس کے منہ سے ، خالی پن سے بھری ، ایک سرد چیخ نکلی تھی ۔ جب یہ سب ختم ہو گیا اور ناظرین کھڑے ہو گئے تو اوہل نے پہلی قطار میں کھڑے ایک نوجوان کو گرفتار کر لیا جس سے وقتی طور پر نظم و ضبط قائم ہو گیا ۔ بادامی رنگا سٹیج خالی تھا جس پر ایک لکڑی کی کرسی اور تنائو زدہ پولیس کے یونیفام پہنے اہلکاروں کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔
رات گئے پولیس نے ایزنہیم کے اپارٹمنٹ ، جس سے دور دریائے ڈینوب کا منظر نظر آتا تھا ، پر چھاپہ مارا اور اسے اتھل پتھل کر دیا لیکن ایزنہیم وہاں نہیں تھا ۔ ناکام گرفتاری ایک لحاظ سے کامیاب بھی تھی ؛ ایزنہیم دوبارہ کبھی دکھائی نہ دیا ۔ شیطان کی فیکٹری میں مکّری آئینے ، خفیہ خانوں والی شاندار الماریاں ، ذہانت سے بنائی گئی افقی الماریاں اور نظر کو دھوکہ دینے والے بکسے اور ایسا ہی بہت سا سامان تو ملا لیکن ایزنہیم کی مشہور فریب نظریوں سے متعلقہ کوئی سراغ ہاتھ نہ آیا ، ایک بھی اشارہ ، بلکہ کچھ بھی نہ ملا ۔ کچھ کا کہنا تھا کہ ایزنہیم نے نئی صدی کے پہلے دن سے ہی ایک ‘ فریب کار ‘ ایزنہیم بنا رکھا تھا ؛ دوسروں کا کہنا تھا کہ وہ خود ہی فریب نظری کے کارنامے دِکھا دِکھا کر ‘ فریب کار ‘ ہو گیا تھا ۔ کچھ تو یہ بھی کہتے کہ چیف اوہل ، خود بھی نظر کا ایک فریب تھا جسے آخری مظاہرے کے لیے بہت مہارت اور احتیاط سے کھڑا کیا گیا تھا ۔ بحث مباحثہ اس بات پر شروع ہوا کہ کیا یہ سب عدسوں اور آئینوں کی مدد سے کیا گیا تھا یا یہ کہ برلیٹسلوا کے اس یہودی نے اپنی روح شیطان کو بیچ دی تھی تاکہ اس سے کالے جادو کا تحفہ پا سکے ۔ سب البتہ اس بات پر متفق تھے کہ یہ در آتے نئے ‘ وقتوں ‘ کی نشانی تھی ؛ اور جب لوگوں کی یادداشتیں مدہم ہوئیں تو کافی پینے ، ڈاکٹروں کے پاس جانے اور جنگ کی افواہوں جیسی روزمرہ کی دنیا لوٹ آئی ۔ البتہ ، جو ایزنہیم کے وفادار تھے ، انہیں معلوم تھا کہ ان کا استاد ، تاریخ کے اس دور ، جو ٹوٹ بھوٹ کا شکار تھا ، سے بحفاظت نکل کرپُراسراریت اور خوابوں کی لافانی دنیا میں چلا گیا تھا ۔
کرونا ؛ سماجی رابطے ، بس دور دور سے
علامت ، تفسیر ، عامیانہ پن اور فلم سازی
( Symbols , Literalisation , Plebeianism & Film Making )
آپ پہلے حصے میں یورپ میں شعبدے بازی کی تاریخ سے قدرے واقف ہوئے اور پھر آپ نے دوسرے حصے میں ‘ سٹیون مِلہوسر ‘ ( Steven Millhauser ) کا 1989 ء میں لکھا افسانہ ‘ شعبدے باز ‘ ایزنہیم ‘ (Eisenheim the Illusionist ) پڑھا ۔ اس حصے میں ہم اُس فلم اور افسانے کے حوالے سے بات کریں گے جو اسی افسانے کو سامنے رکھ کر بنائی گئی تھی ۔
ویسے تو ‘ دی اِلویثنیسٹ ‘ (The Illusionist ) کے نام سے دو فلمیں سامنے آئی تھیں ۔ 2010 ء میں برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ بنائی گئی اس نام کی فلم ایک کارٹون (animated) فلم تھی اور یہ 79 منٹ کی فلم تھی ، اسے فرانسیسی سوانگی (mime) ، ہدایت کار ، اداکار اور سکرپٹ رائٹر جیکوئس ٹاٹی ( Jacques Tati ) نے 1956 ء میں لکھا تھا اور یہ غالباً ایک خط تھا جو جیکوئس نے اپنی بیٹی کے نام لکھا تھا ۔ فرانسیسی ہدایت کار سِلوین شومیٹ (Sylvain Chomet ) نے جیکوئس کے اِسی سکرپٹ کو ، جو پہلے کبھی استعمال نہیں کیا گیا تھا ، کو فلم کی شکل دی اور یہ خیال رکھا کہ سکرپٹ کی اصلی شکل اور روح برقرار رہے ؛ اس کا کہنا تھا ؛
” یہ ‘ رومانس ‘ نہیں ہے ۔ اور اس میں ایک باپ اور بیٹی کا وہ انمول تعلق دکھایا گیا ہے جو جیکوئس اصل میں دکھانا چاہتا تھا ۔ ”
سِلوین شومیٹ ، شاید ، اس سے پہلے 2006 ء میں ہالی ووڈ میں بنی فلم ‘ دی اِلویثنیسٹ ‘ (The Illusionist ) دیکھ چکا ہو گا جو ‘ سٹیون مِلہوسر ‘ کے افسانے سے اخذ کی گئی تھی اوراس فلم کے پروڈیوسروں ، سکرپٹ رائٹر و ہداہت کار نیل برجر(Neil Burger ) نے اس افسانے کی جڑ ماری تھی اور اسے ایک رومانوی فلم بنا کر پیش کیا اور افسانے کے اصل ‘ سَت ‘ ( essence ) کو پس ِ پشت ڈال دیا تھا ۔ سِلوین شومیٹ نے یہ غلطی نہ کی اور جیکوئس کے سکرپٹ میں باپ بیٹی کے محبت بھرے رشتے کو اسی تقدس سے پیش کیا جو جیکوئس کے ذہن اور الفاظ میں تھا ۔
‘ نیل برجر ‘ کی بنائی فلم ‘ دی اِلویثنیسٹ ‘ (The Illusionist ) ، اس کے برعکس ، ایک ایسا گڑھا ہے ، جس میں گر کر’ علامت ‘ ایک ایسی تفسیر میں بدل جاتی ہے جو اسے عامیانہ سطح پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے اور اس کا اصل مطلب ہی کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔ یہ بات کرنے سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ ایک بُری فلم ہے ۔ ۔ ۔ نہیں ، لیکن یہ بھی ہے کہ اس کا میکانکی پلاٹ اور منظر کشی کا ہلکا محلول ، ہالی ووڈ کے فلم میکروں کی اس غلط فہمی کی ، ایک دلچسپ تصویر پیش کرتی ہے کہ فلم بین وہی دیکھنا چاہتے ہیں جو مانوس ہو اور جس میں انہیں اپنے دماغ پر کچھ زیادہ زور نہ ڈالنا پڑے اور یہ کہ فلم ، انہیں زیادہ گہرائی سے سمجھنے کے لیے نہ للکارے ۔
جیسا کہ آپ نے دوسرے حصے میں ‘ سٹیون مِلہوسر ‘ کا افسانہ پڑھا : یہ ایزنہیم کے کیرئیر کی کہانی سناتا ہے ؛ ایزنہیم ایک ایسا شعبدے باز ہے جو 1890 کی دہائی میں ویانا میں شعبدے بازی دکھا رہا ہے ۔ اس افسانے میں روایتی پلاٹ نہیں ہے ، یہ البتہ ، ایزنہیم کی ایک فرضی تاریخ پیش کرتا ہے ؛ اس کی زندگی کے اوائلی دن ، جن میں وہ گھر و چھوٹی نجی محفلوں میں مہارت سے پہلے سے پیش کیے گئے کرتبوں کی نقل کرتا ہے ، اپنے کیرئیر کے وسط میں نئی فریب نظریاں اور چکمے تخلیق کرتے ہوئے اپنے آخری دور میں ایک ایسا شعبدے باز بن جاتا ہے جو اپنے کمالات کے ایسے مظاہرے کرتا ہے جن میں وہ ‘ حقیقت ‘ اور مہارت بھرے ‘ چَکموں ‘ کے درمیان حد ِفاصل کو دھندلا دیتا ہے ۔ سٹیون مِلہوسر ، اپنے ‘ صیغہ غائب ‘ کے راوی کے منہ سے جو بیانیہ پیش کرتا ہے ، وہ ، قاری کو کسی بھی طرح یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایزنہیم تک براہ راست رسائی حاصل کر سکے ۔ ہمیں اس کے ماضی کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ، سوائے اس روایت کے ، کہ لڑکپن میں وہ ایک بار ایک شعبدے باز سے ملا تھا ۔ راوی کبھی بھی قاری سے براہ راست مخاطب نہیں ہوتا اور اس کی فریب نظریوں کی نوعیت کبھی کھل کر سامنے نہیں آتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ، یعنی قاری اس کے ناظرین میں شامل ہیں اور ہم کبھی بھی اس قابل نہیں ہوتے کہ پردے کے پیچھے چھانک سکیں اور دیکھ سکیں کہ وہاں ، اصل میں کیا ہو رہا ہے ۔
اس کے برعکس، ہدایت کار ‘ برجر ‘ نے ایزنہیم کو اپنی طرف سے جو وضع قطع دی ہے ، اور جسے فلم میں ایک روایتی اداکار ‘ ایڈورڈ نورٹن (Edward Norton ) نے فلم میں نبھایا ہے ، کو ایک کہانی سے ایسے رنگا ہے کہ ایزنہیم کے ماضی کی ایک کھلی اور واضح تصویر ، فلم بین کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اور فلم دیکھنے والا ، اس سے فلم کے آغاز سے ہی ہمدردی رکھنے لگتا ہے ؛ ایک غریب ‘ الماری ساز ‘ کے بیٹے کے طور پر وہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے ایک مقامی کی بیٹی ‘ سوفی ‘ کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ ہمیں پولیس انسپکٹر اوہل ( اداکار پال گیامتی) کی ایک فلیش بیک کے ذریعے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایزنہیم اور سوفی تب تک ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں جب تک کہ سوفی کو ایزنہیم سے زبردستی الگ نہیں کر دیا جاتا ؛ وہ بعد ازاں ایک فرضی ولی عہد شہزادے ‘ لیوپولڈ ‘ کی منگیتر بن جاتی ہے ۔ سالوں بعد ایک ناقابل یقین اتفاق ہوتا ہے اور جوان سوفی ، جس کا کردار اداکارہ جیسیکا بیل نے ادا کیا ہے ، ایزنہیم کے ایک شو میں ، ایک ایسی ناظر بنتی ہے جس نے ایزنہیم کی فریب نظری کے مظاہرے میں خود کو بطور رضاکار پیش کیا ہوتا ہے جبکہ لیوپولڈ بھی ناظرین میں موجود ہے ۔ ایزنہیم اور سوفی کا معاشقہ ایک بار پھر بھڑک اٹھتا ہے اور سکرین رائٹر و ہدایتکار ‘ برجر’ کو نظر ہی نہیں آتا کہ پلاٹ کس سمت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
فلم ‘ دی اِلویثنیسٹ ‘ ( The Illusionist ) میں دکھائی گئی محبت کی تکون ( ایزنہیم ، سوفی اور لیوپولڈ ) نہ صرف گھسی پٹی اور کلیشے زدہ ہے ۔ یہ فلم افسانے کے اس اہم اور زوردار حصے کو بھی کھا جاتی ہے جس میں ایزنہیم اپنے حریف شعبدے بازوں کو ہرا کر ایک ذہین شعبدے باز پاسور کے مد مقابل کھڑا ہوتا ہے اور پاسور کی فریب نظریوں کے آخری مظاہرے میں یہ حقیقت کھول کر رکھ دیتا ہے کہ وہ شروع سے ہی پاسور کے حلیے میں ، خود ہی موجود رہا تھا ۔ اس کے بعد ایزنہیم سال بھر کے لیے غائب رہتا ہے اور اسے 1900 ء کا سال ایک فریب کی مانند لگتا ہے ۔ اب وہ اپنے کیرئیر کے آخری لیکن بہت مختصراور بہت ہی ہیجان انگیز حصے کے ساتھ 1901 ء میں سامنے آتا ہے ۔
ایزنہیم کے حریفوں والے حصے کو خارج کرکے فلم جادوگری کے ان بہت سی فریب نظریوں اور چَکموں کو بھی نہیں دکھا پاتی جو مِلہوسر کے افسانے میں قاری کو جکڑے رکھتے ہیں ۔ ایک شعبدے باز کے بارے میں ایک فلم دیکھتے ہوئے فلم بین یقیناً یہ چاہتا ہے کہ وہ اس میں شعبدے باز کی زیادہ سے زیادہ فریب نظریاں اور چکمے دیکھ سکے لیکن فلم میں چند ہی اوروہ بھی مختصر سی فریب نظریاں اور چکمے دکھائے گئے ہیں ۔ فلم بنانے والوں نے سی جی آئی (CGI) مطلب کمپیوٹر جنریٹڈ امیجری ، استعمال کی ہے اور ہم سے یہ توقع کی ہے کہ ہم اسے میکانکی چَکمے سمجھیں ۔ اس سے بھی برا یہ ہے کہ فلم ، افسانے میں ، فریب نظری اور حقیقت ، پر کھڑے گئے ابہام کو فلم میں بالکل بھی نہ دکھا سکی ۔ یہی وجہ بنی کہ سکرپٹ لکھنے والا اور ہدایت کار نیل برجر ، افسانے کی ادبی حیثیت کو گرفت میں نہ لے سکا اور اسے صحیح طور پر فلماء نہ سکا اور وہ کچھ دکھا دیا جو افسانے کے قاری کے تخیل کے تاریک گوشوں میں ہی موجود رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے فلم میں وہ خفیف ابہام قائم نہ ہو سکا جو افسانے میں حقیقت اور فریب نظری پر قائم رہتا ہے ۔ ‘ برجر ‘ کا ایسا کرنا کچھ ایسے ہی ہے جیسے سلولائیڈ کے فیتے ، جسے ابھی فلمانے کے لیے برتا ہی نہیں گیا ہو ، روشنی کے سامنے ننگا کر دیا جائے ۔
ملہوسر نے اپنے افسانے میں ‘ صدی کے خاتمے (fin de siècle ) کے حوالے سے جو باتیں کیں ہیں وہ ڈھکی چھپی نہیں ہیں لیکن فلم میکر اس کو بھی فلم میں درست طور پر استعمال نہیں کر سکے اور ملہوسر نے وقت کی جس وجودی سرکشی کو افسانے میں دکھانا چاہا ہے وہ ان کی پکڑ میں نہ آ سکی گو ان کے پاس وہ سب کچھ تھا جو آخر میں لیوپولڈ کی خودکشی کرنے والے مناظر سے جڑا تھا ۔ لیوپولڈ جو واضح طور پر جانتا ہے کہ ایزنہیم اس کے لیے ایک خطرہ ہے ۔ برجر اس کی موت کو باآسانی بادشاہت کے زوال سے جوڑ سکتا تھا لیکن فلم میں یہ سوائے اس بات کے کچھ اور نہیں دکھا پایا کہ ولی عہد کے مرنے پر ایزنہیم اور سوفی فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
برجر نے ملہوسر کے تخیل کو اس طرح سمجھا ہی نہیں جس طرح ملہوسر نے کھلے طور پر افسانے کے آخر میں بیان کیا تھا ؛
” ۔ ۔ ۔ اوہل کو کچھ اور ہی پریشانی تھی ، کچھ ایسی پریشانی جس کے لیے اسے نام تلاش کرنے میں بھی دشواری کا سامنا تھا ۔ ” حدیں پار کرنا ” یہ اس کی نوٹ بکس میں کئی بار لکھا نظر آیا لیکن وہ اس پر بھی مطمئن نہ تھا کہ یہ پورے معانی ادا نہیں کر رہا تھا ، لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ایزنہیم کو ‘ امتیازات ‘ کا سختی سے کار بند رہنا چاہیے تھا ۔ آرٹ اور زندگی ایک ایسا ہی ‘ امتیاز ‘ بناتی تھی جبکہ فریب نظری اور حقیقت ایک اور طرح کا ‘ امتیاز ‘ تھا ۔ ایزنہیم جان بوجھ کر حدیں پار کر رہا تھا اور اشیاء کی اساس کو بگاڑ رہا تھا ۔ اوہل ، اصل میں ایزنہیم کو اس بات کے لیے مورد ِ الزام ٹھہرا رہا تھا کہ وہ کائنات کی بنیادوں کو ہلا رہا تھا ، ‘ حقیقت ‘ کی بیغ کنی کر رہا تھا اور ایسا کرتے ہوئے کچھ ایسا کر رہا تھا جو کہیں زیادہ بُرا تھا یعنی وہ بادشاہت کو تہس نہس کر رہا تھا ۔ سلطنت اور بادشاہت کہاں رہے گی اگر ایک بار ‘ حدود ‘ کا تعین کرنے کا تصور دھندلا گیا اور غیر یقینی بن گیا ؟ ۔ ۔ ۔ ”
سرکشی کے تاریک دائرے میں رہتے ہوئے ، ملہوسر کا ایزنہیم حقیقت اور فریب نظری میں تفریق کی جڑوں میں بیٹھتا ہے ۔ صدی کے آخری سالوں میں وہ جس طرح پرانے اور نئے زمانے کی ، ٹھوس اشکال اور تجریدی اشکال کی درمیانی باریک پرت کو بس میں کرتا ہے ۔ تبھی وہ ایسی فریب نظریاں اور چکمے پیش کرپاتا ہے جو انیسویں صدی کی میکانکی جدیدیت سے بھی کہیں پرے نکل جاتی ہیں ۔ یہ وہ وقت ہے جب یورپی سلطنتوں کے آخری زمانے میں بے یقینی موجود ہے اور ان کی ‘ حقیقت ‘ خود خطرے میں پڑی ہے ۔ اس کے برعکس فلم کے آخری مناظر میں اوہل پریہ حقیقت کھلتی دکھائی گئی ہے کہ ایزنہیم کی پراسرار گمشدگی اور سوفی کی موت ہی ایزنہیم کی آخری فریب نظری کا چکمہ تھا اور وہ فرار ہو جاتے ہیں ۔ یہاں برجر اس طریقے سے فلم بند کرتا ہے جیسے اسے یہ سب اس کی چھٹی حس نے بتایا ہو اور اس ٹوئسٹ ( twist ) میں سطحی پن آ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور فلم بین کے لیے یہ جانکاری کچھ ہی دیر میں یوں ہوا میں بخارات بن کر اڑ جاتی ہے جیسے یہ از خود ایک شعبدے باز کا چکمہ ہو ۔ ۔ ۔ نیل برجر کا ایک بھدا چکمہ ۔
فٹ نوٹ ؛
سن 2006 ء میں نیل برجر کی ‘ The Illusionist ‘ کے علاوہ دو اور فلمیں ‘ دی پریسٹیج ‘ ( The Prestige ) اور ‘ سکُوپ ‘ ( Scoop ) بھی سامنے آئیں تھیں جن میں سٹیج پر دکھائی جانے والی شعبدے بازی کو دکھایا گیا تھا ۔
‘ دی پریسٹیج ‘ کرسٹوفر نولین ( Christopher Nolan ) نے بنائی تھی ۔ یہ کرسٹوفر پریسٹ ( Christopher Priest ) کے 1995 ء میں لکھے گئے ناول سے ماخوذ تھی اور اس کا سکرپٹ ‘ نولین ‘ نے اپنے بھائی جوناتھن کے ساتھ مل کر لکھا تھا ۔ یہ فلم ناول کے خاصی قریب تھی ۔ یہ دو حریف شعبدے بازوں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں ہولناک اور جان لیوا نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ فلم اپنے زیادہ پیچدہ پلاٹ کی وجہ سے ‘ The Illusionist ‘ جیسا بزنس تو نہ کر سکی لیکن یہ سٹیج پر دکھائے جانے والی شعبدے بازی کے اعتبار سے ‘ The Illusionist ‘ سے کہیں بہتر تھی ۔
‘ سکُوپ ‘ ہدایت کار ‘ ووڈی ایلن ‘ (Woody Allen ) نے خود ہی لکھی اور اپنی ہدایت کاری میں بنائی ۔ یہ ایک مزاحیہ فلم تھی جس میں اس نے جادوگری کی دونوں قسموں ( ایک ، ایسی جادو گری جو فریب نظری اور ‘ مکّر یا چَکموں ‘ (tricks) سے جڑی ہوتی ہے ، دوسرے ، ایسی جادوگری ، جس کا تعلق مافوق الفطرت معاملات سے ہے ۔ ) کو برتتے ہوئے ایک ایسا شعبدے باز دکھایا ہے جو شعبدے بازی کے کرتب دکھانے کے ساتھ ساتھ صحافت کی ایک طالبہ کی پہلی تفتیش ، جس کے اشارے اسے ایک مرے ہوئے رپورٹر کی روح سے ملتے ہیں ، میں مددگار بھی بنتا ہے اور اس کی تفتیش کو مکمل کرواتا ہوا کار کے حادثے میں مر جاتا ہے ۔ یہ ووڈی ایلن کے کمزور ترین سکرپٹوں اور کمزور ترین فلموں میں شمار ہوتی ہے جس میں اس نے جیک دی ریپر ، سرکسی مسخرہ پن ، تفتیشی صحافت اور ہر دو طرح کی جادوگریوں کا ملغوبہ بنا ڈالا ۔ ووڈی ایلن نے اپنے نام کی وجہ سے باکس آفس پر پیسے تو کما لیے لیکن یہ فلم اس کے سینے کے لیے تمغہ بننے کی بجائے ایک بھدے داغ کی طرح سامنے آئی ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...