یونیورس .. جس کی شروعات تقریبن 13 ارب سال پہلے ایک بڑے دھماکے یعنی بگ بینگ سے ھوئی .. جہاں آج یونیورس میں اربوں گیلکسیز ہیں اور ان ہی گیلیکسیز میں ہماری گیلیکسی یعنی ملکی وے ہے جو تقریبن 200 سے 400 ملین ستاروں اور انٹر اسٹیلر میڈیمinterstellar medium سے بھری ہوئی ہے ..
ملکی وی کہکشان میں ہمارا ستارہ یعنی سورج بھی گھوم رہا ہے جس کے گرد 8 سیارے (گرہ) گردش کر رہے ہیں ان میں سے ایک سیارہ ہماری زمیں بھی ہے .. جہان زندگی ہر جگہ بسی ہوئی ہے.. سمندر خشکی اور فضا میں ہر جگہ زندگی کے انس موجود ہیں. یہاں پہ زندگی کا سفر صدیوں سے رواں دواں ہے.. سماج سنسکرتی رشتے اور احساسات جیسے طرح طرح کے رشتوں سے سجی اس دنیا کو چلا رہی ہے.
حرکت .Motion……
حرکت ایک ایسا لفظ جو بہت سے راز اور قوانین اپنے اندر چہپائے ہوئے ہے وہ حرکت یا رفتار چاہے کسی بھی روپ میں کیوں نہ ہو زمیں پہ حرکت کرتے کسی آبجیکٹ کے روپ میں ہو یا کائنات میں حرکت کرتے ستارے اور پلانیٹ کے روپ میں ہو یا پھر روشنی کی صورت میں ہو یا وقت کے روپ میں.. حرکت یا رفتار کو جاننے کی کوشش صدیوں پہلے شروع ہوگئی اور بہت سے راز کھلنے لگے.. آج سے 2 ھزار سال سے بھی پہلے ایک یونانی فلاسفر ارسطو نے بتایا کہ حرکت یا رفتار کو بنائے رکھنے کے لئے طاقت ضروری ہے۔یعنی جب کسی چیز پہ طاقت لگے گی وہ تب ہی حرکت کریگی. ارسطو نے کہا کہ زمین کائنات کے مرکز میں موجود ہے . سورج اور سبھی فلکی اجسام زمین کے گرد گھومتے ہیں . حالانکہ ارسطو کے یہ خیالات غلط تھے لیکن اس نے لوگوں کے اندر کائنات کو جاننے کی دلچسپی پیدا کردی تھی اس کے بعد نکولسکوپر Nicolas Copernicus نے ارسطو کے خیالات کو غلط ثابت کردیا اور بتایا کے سب ہی گرہ سورج کے گرد گول مدار میں گھومتے ہیں . تھوڑے عرصے بعد جوھن کیلپر(Johannes kepler) نے بتایا کہ سب ہی گرہ سورج کے گرد گول مدار میں نہیں بلکہ بیضوی مدار میں گھومتے ہیں .. سوالوں کو جواب اور جوابوں کو نئے سوال دیتے ہوئے فزکس کا یہ سفر جاری رہا.. اور سترھویں صدی میں فزکس کی دنیا میں ایک انقلاب آیا اور دنیا حرکت کے قوانیں کو ایک نئے نام سے جاننے لگی.. وہ تھےسر آئزک نیوٹن .. نیوٹن نے اپنی کتاب principia methmaticaکے ذریعے بتایا کہ کوئی بھی آبجیکٹ حرکت اور ساکن حالت میں تب تک رہ سکتا ہے جب تک اس پہ کوئی باہر کی قوت نہ لگائی جائے. باہر کی قوت اس آبجیکٹ کی رفتار کو بڑھا بھی سکتی ہے اور گھٹا بھی سکتی ہے.. اب حرکت اور اس کے قوانین کے ساتھ ایک اور سوال بھی اٹھا کہ حرکت یا رفتار کا تعین کیسے کیا جائے ؟؟ مثال کہ طور پہ دو ٹرینیں ایک ہی سمت میں 100km/h کی رفتار سے جا رہی ہوں تو ان ٹرینوں میں بیٹھے مسافروں کو دوسری ٹرین رکی ہوئی نظر آئیگی.. جبکہ پلیٹ فارم پہ کھڑے مسافر کو وہ ٹرین 100km/h کی رفتار سے چلتی نظر آئیگی.. اب سوال یہ تھا کہ ٹرین کی رفتار کو کس آدمی کے حساب سے مانا جائے؟ .. ٹرین میں بیٹھے مسافر کے حساب سے یا پلیٹ فارم پہ کھڑے مسافر کے حساب سے؟؟ جواب تھا دونوں ہی اپنی اپنی جگھ سہی ہیں کسی آبجیکٹ کی رفتار کی پیمائش …. پیمائش کرنے والے کی پوزیشن پہ ڈپینڈ کرتی ہے کہ آیا وہ ساکن حالت میں کھڑے ہو کے پیمائش کر رہا ہے. یا حرکت یعنی motion state میں… یا پھر ایسے سمجھیں کہ زمیں پہ جو پہاڑ موجود ہیں وہ زمین کے حساب سے ساکن حالت میں ہیں مگر زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو یہ پہاڑ بھی زمین کے ساتھ سورج کے گرد گھوم رہے ہیں . جس جگہ سے کسی بھی آبجیکٹ کی رفتار معلوم کی جائے اس جگھ کو frame of reference کا نام دیا گیا جب یہ مانا گیا کہ رفتار absolute نہیں بلکہ relative ہوتی ہے . تو اس کے ساتھ ایک اور سوال جڑ گیا کیا فزکس کے سب ہی قوا نین رفتار کی طرح relative ہونگے؟؟ سترھویں صدی میں گلیلیو Galileo نے فزکس کی relativity کا پہلا جواب دیا کہ حرکت یا ساکن اسٹیٹ میں یعنی uniform motion میں فزکس کے قوانین نہیں بدلینگے گلیلیو اور نیوٹن کے زمانے سے classical theory of relativity نے انیسویں صدی کے آخر تک فزکس کی دنیا میں اپنا رعب جمائے رکھا پر تب تک جب Maxwell نامی سائنسدان نے اپنی الیکٹرو میگنیٹ تھیوری کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ ایک ایسی رفتار بھی ہے جو absolute ہے اور وہ ہے روشنی کی رفتار. اب سوال یہ اٹھا کہ آواز اور اس قسم کی دوسری لہروں کی طرح روشنی کس میڈیم سے گذرتی ہے؟؟ تو نیوٹن نے ایک میڈیم کا تصور کیا جس کو ایتھر either کا نام دیا گیا پر ایتھر کو سچ ماننے کا مطلب تھا زمین کے ساتھ اس کی رفتار سے گھومتے ایتھر کی سمت میں روشنی کی رفتار اور دوسری سمت میں روشنی کی رفتار میں فرق آنا چاہئے ، پر ایسا نہیں ہوا ماکل سن اور مورلے Michelson and Morley نامی سائنسدانوں نے ایک تجربہ کیا جسے مائیکل سن مورلے ایکسپرمنٹ Michelson and Morley experiment کے نام سے جانا جاتا ہے انہوں نے نتیجہ نکالا کہ روشنی کی رفتار دو مختلف سمعتوں میں ایک ہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایتھر نامی کوئی میڈیم موجود نہیں ہے . یعنی روشنی کی رفتار کسی میڈیم کے relative نہیں بلکہ absolute ہے اور ہر سمت میں ایک جیسی ہے . انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی شروعات کا وقت سائنسدانوں کی ہلچل کا وقت تھا. نیوٹن کا ماننا تھا کہ زماں و مکاں space timeکسی frame of reference پہ ڈپینڈ نہیں کرتے ہیں. نیوٹن کے مطابق یہ دونوں invariant quantity ہیں یعنی انھیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن روشنی کی رفتار constant کی پہیلی نے ایک سائنسدان کے دماغ میں ایسی ہلچل مچائی کہ اس سے پیدا ہوئی اس کی سوچ نے نیوٹن کے قوانین کو ہلا کہ رکھ دیا اس سائنسدان کا نام تھا البرٹ آئن اسٹائن . 1905 میں جرمنی میں آئن اسٹائن کے 4 ریسرچ پیپر چھپے جن میں سے ایک تھا electrodynamics of The moving bodyجو بعد میں special theory of relativity کے نام سے جانا گیا. آئن اسٹائن کی relativity میں دو قسم کے تصورات تھے ایک relativity of space اور دوسرا relativity of time. آئن اسٹائن نے بتایا کہ زمان و مکاں (space and time) دونو variant ہیں انہوں نے اپنی ریاضی کی کلکیولیشنز کے ذریعے ثابت کیا کہ کسی جسم کی لمبائی دو مشاہدہ کرنے والوں کے پاس مختلف ہو سکتی ہے . آئن اسٹائن کے اس concept کو length contraction کے نام سے جانا جاتا ہے . اسے سمجھنے کے لئے مان لیجئے کہ کوئی دو مشاہدہ کرنے والے ہیں پہلا چلتی گاڑی میں ہے اور دوسرا سڑک کے کنارے کھڑا ہے جب گاڑی روشنی کی رفتار کے ساتھ وہاں سے گذرے گی تو 5 میٹر کی وہ گاڑی سکڑ کر آدھے میٹر سے بھی کم ہوجائیگی ! لیکن گاڑی میں بیٹھے آدمی کو اس چیز کا کبھی احساس نہیں ہوگا کہ گاڑی کے ساتھ ساتھ اس کا جسم بھی سکڑ کہ بہت کم ہوگیا ہے.. اس کے مطابق سڑک پہ کھڑا آدمی اور اس کے آس پاس کی چیزیں سکڑ گئی ہیں .. آئن اسٹائن کے مطابق یہ length contraction دونو مشاہدہ کرنے والوں کے frame of reference پہ ڈپینڈ کرتی ہے آئن اسٹائن کی special theory of relativity کا دوسرا concept تھا time dilation یعنی دو مشاہدہ کرنے والوں کی گھڑیوں کا ٹائم بھی الگ الگ ہو سکتا ہے! آئن اسٹائن کے مطابق کسی چیز یا frame of reference کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوجائے تو اس object یا frame of reference کا ٹائم سست ہوجائے گا زماں و مکاں space and time کے اس variation کو ہم اپنی عام زندگی میں محسوس نہیں کر پاتے کیونکہ ہماری رفتار روشنی کی رفتار کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جوکہ 300000km/secondہے , آئن اسٹائن نے اپنی special theory of relativity میں برسوں سے موجود زمان و مکاں space and time کا absolute ہونے کے تصور کو غلط ثابت کر تو دیا لیکن کہتے ہیں نہ سائنس کے 3 طریقہ کار ہوتے ہیں
1.principle
2.exprement
3.result
اب مشکل یہ تھی کہ ٹائم کی variation کو تجرباتی طور پہ کیسے آزمایا جائے؟؟ آئن اسٹائن کے اس ریاضیاتی حل شدہ پرنسپل پہ 1977 میں ناسا نے ایک تجربہ کیا. انہوں نے سیٹلائٹ پہ کچھ گھڑیاں چھوڑیں . ان گھڑیوں کو چھوڑتے وقت ان کا ٹائم زمین کے ٹائم سے میچ کردیا گیا . ان گھڑیوں کو زمیں کے گرد سیٹلائٹ کے ساتھ کچھ چکر لگانے کے بعد واپس زمیں پہ لایا گیا اور ان کا ٹائم دیکھا گیا تو نتیجے چونکا دینے والے تھے. ان گھڑیوں کا ٹائم زمیں کی گھڑیوں کے ٹائم سے آھستہ چلا رہا تھا اور یہ آئناسٹائن کی relativity کی وجہ سے ہی تھا.
آئن اسٹائن ایک ایسے سائنسدان تھے جو اپنی قابلیت کو تصور میں جنم دیتے تھے اور اسے ریاضی کے فارمولے اور کچھ equations کے ذریعے ثابت کرتے تھے. جنہیں بعد میں سائنسدان تجرباتی طور پہ سہی پاتے تھے..
اور اس ہی خوبی کی وجہ سے آئن اسٹائن دوسرے سائنسدانوں سے مختلف مانے جاتے تھے . 1905 کے آس پاس جب آئن اسٹائن نے special theory of relativity کا پیپر لکھا. اس وقت وہ Swiss Patent کی آفس میں کلرک کے طور پہ کام کر رہے تھے یہ ہی وہ وقت تھا جب انھوں نے relativity کی اسپیشل تھوری کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور انھوکی چیز دی جو ایک چھوٹے سے فارمولے کی صورت میں ان کے نام کے ساتھ ھمیشہ کے لئے جڑ گیا. اور وہ فارمولا تھا E=mc^2 اسکا مطلب تھا کہ مادہ توانائی میں اور توانائی مادہ میں بدل سکتی ہے آئن اسٹائن نے بتایا کہ مادہ بھی Relative ہے! کسی بھی آبجیکٹ کی رفتار بڑھانے سے اسکا mass بھی بڑھ جائے گا
E=mc^2
اس ہی ایکیویشن کی بدولت دنیا ایٹومک انرجی کو جان پائی ، جس سے بعد میں سائنسدانوں نے ایٹم بم بنائے ،
آئن اسٹائن نے تو یہ ثابت کر دیا کہ (space time) زماں و مکاں absolute نہیں ہیں ۔ لیکن اب ان کے سامنے ایک اور سوال تھا کہ نیوٹن کے مطابق دو آبجیکٹس کے بیچ کا gravitational field کشش ثقل stationary ہوتا ہے ، اور یہ بات زمیں اور سورج پر بھی لاگو ہے
اگر یہ تصور کیا جائے کہ سورج اک دم فنا ہوجائے تو زمین فورن اپنی مدار چہوڑ کے خلا میں گم ہوجائے گی ۔ کیونکہ سورج کے ساتھ اس کی کشش ثقل ختم ہونے کا اثر زمیں پہ ایک دم ہوگا۔،، پر ہمیں زمین پر اس بات کا پتہ 8 منٹ بعد لگے گا کیونکہ سورج کی روشنی کو زمیں تک پہنچنے میں 8 منٹ لگتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج کی کشش ثقل کے اثر کا پتہ زمیں پر سورج کی روشنی پہنچنے سے پہلے لگ جائے گا۔ اور یہ بات relativity کی special theory پہ پوری نہیں اترتی ۔ کیونکہ special theory of relativity کے مطابق کوئی بھی physical interaction روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی ،،
اب آئن اسٹائن کے سامنے جو سوال تھا وہ special theory of relativity اور نیوٹن کے gravitational laws کے بیچھ میں کھڑا تھا، لیکن کھتے ہیں نہ کہ سائنس کی غلط وضاحتیں ہی سہی نظریات کا راستہ دکھاتی ہیں۔
اگر یہ غلط ہے تو پہر سچ کیا ہے؟؟
اس گتھی کو سلجہانے کے لئے سائنسدانوں میں ہلچل پہر سے شروع ہوئی اور دس سال بعد یعنی 1919 میں جو نتیجے سامنے آئے وہ بہت حیراں کن تھے،
آئن اسٹائن نےیہ دعوا کیا تھا کہ زماں و مکاں (space time) میں کسی بھاری جسم کی موجودگی کی وجھ سے (curvature) یعنی خم پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجھ سے کشش ثقل پیدا ہوتی ہے۔ آئن اسٹائن نے بتایا کہ کشش ثقل زماں و مکاں (space time) کی geometry پر اثر انداز ہوتی ہے جس سے دو آبجیکٹس کے بیچ کا کم سے کم فاصلہ ایک سیدھی لکیر کی بجائے curvedیعنی مڑا ہوا ہوگا ۔
آئن اسٹائن کی (curved space theory) کو ایسے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جب کسی ہوائی جہاز کو پاکستاں سے امریکا جانا ہوتا ہے تو اس کا راستہ سیدھا نہیں بلکہ curved یعنی مڑا ہوا ہوتا ہے اور اس ہی curved path کی وجھ سے ہوائی جہاز پاکستان سے آمریکا کا کم سے کم فاصلہ طے کرتا ہے ، کیونکہ زمیں گول ہے اور اس پر جو geometry چلتی ہے وہ curved ہے ۔
آئن اسٹائن نے بتایا کہ روشنی تو سیدہی ہی چلتی ہے پر کسی آبجیکٹ کی کشش ثقل کی وجھ سے خلا میں جو curve پیدا ہوتا ہے اس سے گذرنے کے بعد روشنی بھی مڑ جاتی ہے ،، کشش ثقل کی وجھ سے روشنی کے مڑنے کا دعوا اور اس سے یہ ثابت کرنا کہ خلا میں موڑ ہے آئن اسٹائن کی دوسری تھیوری General theory of relativity تھی جس نے کشش ثقل gravity کو سمجہنے اور پرکھنے کا نظریہ ہی بدل دیا
آئن اسٹائن کی اس General theory of relativity نے نیوٹن کے gravitational laws کو بھی شکست دے دی ، آئن اسٹائن نے کہا کے time خلا space سے مکمل طور پہ الگ اور independent نہ ہوکر ایک combined object کی صورت میں ہے جسے space time (زماں و مکاں) کہتے ہیں۔
آئن اسٹائن کے اس space time کے گھماؤ کو ایسے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک چادر لیں جس کے چاروں کونوں کو کسی جگھ باندھ لیں جس سے وہ چادر کنچ کے سیدھی ہوجائے ۔ اب اس کے اوپر ایک فٹ بال رکھیں تو اس سیدھی چادر میں ایک curve یعنی گڑہا یا گھماؤ بن جائے گا اب اک اور چھوٹی کرکٹ کی بال اس چادر پہ رکھیں تو بڑی بال سے چادر میں پیدا ہوئے curve میں چہوٹی بال گرنے لگے گی اور اس بڑی بال سے ٹکرا کہ رک جائے گی ، اب اگر اس چادر کو space time مان لیں اور فٹ بال کو زمیں تصور کریں تو اس زمیں کی وجھ سے space time میں جو curve پیدا ہوگا اس کو کشش ثفل gravity کہتے ہیں جس کی وجہ سے چیزیں زمیں کی طرف گرتی ہیں،،
آئن اسٹائن کی space time تھیوری کے مطابق ہر آبجیکٹ اپنے ہجم کے مطابق space time میں curve پیدا کرتا ہے ،، آبجیکٹ جتنا بڑا ہوگا space time میں curve بھی اتنا بڑا پیدا کریگا جس کی وجھ سے اس کی کشش ثقل بھی زیادہ ہوگی،،
اس لئے زمیں کے مقابلے جو ہجم کے تناسب سے بڑے پلانیٹ ہیں ان کی کشش ثقل بھی زمیں سے زیادہ ہوتی ہے ،
آئن اسٹائن نے روشنی کے مڑنے اور space time میں curve کو ثابت کر کے نیوٹن کو غلط ثابت تو کر دیا مگر بات یہ تھی کے اس کا تجربہ (experiment) کیسے کیا جائے 1919 میں کچھ برٹش سائنسداں سورج گرھن کے ٹائم پہ کچھ تصاویر لے رہے تھے تو انھے ایک ایسے ستارے کی تصویر نظر آئی جس کی پوزیشن حقیقت میں سورج کے پیچہے چھپی ہوئی تھی ۔ اور ایسا اس لئے ہوا کیونکہ اس ستارے سے نکلنے والی روشنی نے سورج کی کشش ثقل کی وجھ سے مڑی اور اس کی تصویر اس ستارے کی اصل پوزیشن سے الگ ہٹ کر نظر آئی،،
کمال کی بات تھی کہ آئن اسٹائن کے تصوراتی نظریہ اور mathematical calculation ایک بار پہر سچ ثابت ہوئی اور آئن استائن کو راتوں رات مشہور کردیا،
آئن اسٹائن کے اس نظریہ نے کائنات کے بہت سے راز فاش کئے جس کی وجھ سے بیلک ہول black holes جیسی تصورات نے جنم لیا، جہاں پہ کشش ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ روشنی بھی وہاں سے فرار نہیں ہو سکتی ،
آئن اسٹائن کی space time theory کے بنیاد پہ سائنسدانوں نے time travel کا تصور کیا ۔ کہ کیا ہم مستقبل میں جا سکتے ہیں؟؟
stephen hawking
حالیہ دور کے مشہور سائنسدان ہیں ، بک بینگ تھوری اور بلیک ہولز جیسی اصلاحات کو سمجھانے والے stephen hawking نے time travel کے لئے اک ایسے track کا تصور کیا جو زمیں کے گرد بنا ہو اور اس track پہ چلنے والی سپر فاسٹ ٹریں کی اسپیڈ 300000 km/sec یعنی روشنی کی رفتار کے برابر ہو تو وہ ٹریں زمیں کے گرد چکر لگانا شروع کردیگی جو ایک سیکنڈ میں زمیں کے گرد 7 چکر مکمل کریگی ، جس میں بیٹھے مسافر مستقبل میں تو جا سکتے ہیں لیکن لوٹ نہیں سکتے ، یعنی
one way ticket to the feature ،،
جب ٹریں کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر پھنچ جائےگی تو ٹریں میں بیٹھے مسافروں کا ٹائم بہت ہی سست ہوجائے گا، حتہ کے ان مسافروں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور ان کے جسم میں خلیوں کے اندر کا کیمکل ری ایکشن بھی بہت ہی سست ہوجائے گا ، اور ٹریں میں بیٹھے مسافر کے مطابق زمیں کا ٹائم بہت تیزی سے گذرتا محسوس ہوگا اتنا تیز کے ٹریں کے پل زمیں کے سالوں میں بدل جائینگے ،
جب وہ ٹریں رکے گی تو ان مسافروں کے کچھ گھنٹے کے سفر کے دوران زمیں پر 100 سال سے بھی زیادہ عرصہ گذر چکا ہوگا اور وہ مسافر خود کو مستقبل میں پائیگے،،
شروعات سے لیکر آج تک فزکس کے اس سفر پر نظر ڈالی جائے تو یہ دیکھنے میں آئیگا کہ جتنے بھی سائنسدان تھے ، ان میں سے کچھ سائنسدانوں کے نظریات کچھ غلط ثابت ہوئے کچھ سہی ثابت ہوئے لیکن ایک بات تھی جو سب میں مشترکہ تھی ۔ایک قانون جو سب نے اپنایا وہ قانون ہے nature اور اس کے قوانین کو جاننا یا جاننے کی کوشش کرنا ۔ اور جب تک اس قانوں کو fallow کیا جاتا رہے گا فزکس کا یہ سفر یوں ہی جاری رہے گا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...