آئن سٹائن کی فزکس اور ہمارے بچوں کا ٹیلنٹ
آج کلاس میں ایک بہت خوشگوار واقعہ پیش آیا۔ میں بورڈ پر ’’آئن سٹائن کلاک‘‘ ڈرا کرکے بتا رہا تھا کہ ٹائم ڈائیلیشن کیسے واقع ہوتا ہے اور روشنی کی شعاع کیونکر بیرونی آبزرور کے لیے لمبی ہوجاتی ہے جبکہ کلاک کے اندر موجود آبزرور کے لیے چھوٹی ہی رہتی ہے۔ بی اسی فزکس سیکنڈ کی بچیاں، چھوٹی بچیاں ہوتی ہیں۔ خیر! تو جب میں نے ٹائم ڈائیلیشن اچھی طرح سمجھا لیا اور بورڈ پر بنی ہوئی ٹرائی اینگل کے پاس کھڑا ایک بھاشن دے رہا تھا کہ
’’ہم سپیس ٹائم کے آئن سٹائنِک تصور کو سمجھنے سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ اس لیے کیونکہ آئن سٹائن کے زمان و مکاں کا ایک فلسفیانہ فہم ہے اور ایک وہ جو ریاضی کے اساتذہ ٹائم ڈائیلیشن، لینتھ کنٹریکشن اور ماس میں اِضافے کا نہایت ٹھیک ٹھیک طریقہ سکھاتے ہیں، وہ ہے۔ میتھ یا فزکس کی زبان میں کیلکولس کے ذریعے انہی تصورات کوہمارے بچے ایف ایس سی میں خوب اچھی طرح رٹّالگا کر آتے ہیں اور اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا کوئی بچہ نہیں ملے گا آپ کو، جو ریاضی کی اِن مساواتوں کو حل کرتے وقت یہ بھی جانتاہو کہ کہاں ٹائم ڈائیلیشن واقع ہورہاہے اور کیسے لینتھ کنٹریکشن پیش آ رہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم جان لیں کہ یہ ریاضی نہیں کیلکولس ہے۔ اِن مساواتوں کو اخذ کرنے کا کوئی مقصد نہیں اگر ان کی جیومیٹری کو حقیقی دنیا میں اَپلائی کرنے کی اہلیت ہم میں نہیں۔ اب میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ سب بچیاں بھی ایف ایس سی میں یہ مساواتیں کرکے آئی ہیں لیکن اگر میں کسی سے پوچھوں کہ ایک جڑواں بہن کا ٹائم کیوں کم گزرا اور دوسری کیوں بوڑھی ہوگئی؟ تو آپ میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو اپنی پڑھی ہوئی مساواتوں کو اپلائی کرکے مجھے سمجھا سکے.‘‘
میری تقریر ختم ہوئی۔ سب بچیاں خاموش بیٹھی میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں فاتحانہ مسکراہٹ سے کلاس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک آخری رو میں بیٹھی خدیجہ نے ہاتھ کھڑا کیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا،
’’جی بیٹا!‘‘
’’سر! کیا میں کرکے دکھاؤں؟‘‘
مجھے خوشگوار قسم کی حیرت کا دھچکا لگا۔ میں نے کہا،
’’ارے! کیوں نہیں! آئیے آئیے‘‘
خدیجہ آخری رو سے اُٹھ کر بورڈ کی جانب آئی اور میں خود آخری رو میں خدیجہ کی چیئر پر جاکر بیٹھ گیا۔
خدیجہ بورڈ کے پاس آئی۔ اس نے مجھ سے مارکر مانگا۔ میں نے بچیوں کی قطاروں کے ذریعے مارکر بورڈ تک پہنچوایا۔ خدیجہ نے میرا ’’ڈرا‘‘ (Draw) کیا ہوا سکیچ ڈَسٹر سے مٹایا اور نہایت بہادری، اعتماد، مناسب الفاظ کے اتنخاب اور پروقار طریقے سے کہا،
’’دیکھیے سر! یہ سِی ٹی (ct) ہے نا؟ اور یہ ڈی (d) ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سِی روشنی کی ولاسٹی ہے اور ٹی ٹائم ہے۔ اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ ڈی ڈسٹینس یعنی یہ والا والا فاصلہ ہے‘‘
اُس نے ڈرائنگ میں ایک جگہ انگلی رکھ کر بتایا۔
خیر! تو خدیجہ بولتی چلی گئی۔ میں اور پوری کلاس ہِکّا بَکّا دیکھ رہے تھے۔ اس چھوٹی سی بچی نے بورڈ پر آئن سٹائن کی سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی یوں سمجھائی کہ باون بچیوں کی کلاس میں ہرہر بچی کو ساتھ کے ساتھ سمجھ آتی گئی۔ میں تو صرف تصوراتی اور تخیلاتی مثالوں سے کام لے کر سمجھاتاہوں۔ خدیجہ نے تصوراتی اور تخیلاتی مثالوں کو نہایت خوبی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ساتھ کے ساتھ کیلکولس کی ہر ہر علامت بھی سمجھائی۔ ریاضی کی مساواتوں کو بھی استعمال کیا اور روشنی کی شعاع کی مختلف لمبائیاں کیوں کر ٹائم ڈائیلیشن کا باعث بن جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس چھوٹی سی، معصوم سی بچی نے اتنی گھمبیر اور پیچیدہ تھیوری کو یوں چُٹکیوں میں سمجھا دیا اور ساری الجھی ہوئی مساواتوں کو پل بھر میں سلجھا دیا کہ میں حیران رہ گیا۔ خدیجہ نے جب لیکچر ختم کیا تو کلاس تالیوں کی زور دار آواز سے گونچ اُٹھی تھی۔
میں نے بڑے بھرپور انداز میں خدیجہ کو داد دی۔ واپس پوڈیم پر آیا۔ خدیجہ اپنی چیئر پر واپس چلی گئی۔ میں نے کلاس کے سامنے خدیجہ کی تعریف کی۔ بہت سارا ماشااللہ پڑھا۔ تب میں نے خدیجہ سے پوچھا،
’’بیٹا! آپ کس سکول میں پڑھتی رہی ہیں؟ آپ نے پہلے تو کبھی نہیں بتایا کہ آپ ان تصورات کو اتنا بہتر طور پر جانتی ہیں۔ ہم تو آپ سے بہت ساری مدد لیا کرینگے۔ ماشااللہ آپ کے والدین بھی یقیناً آپ کی مدد کرتے ہونگے‘‘
یہ سنا تو خدیجہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
’’نہیں سر! پچھلی کلاس میں جب آپ نے ٹائیم ٹائیلیشن سمجھایا تھا تو میں نے گھر جاکر یوٹیوب کی بہت ساری ویڈیوز دیکھیں اور میں کوشش کرتی رہی کہ آخر سر کیسے کہتے ہیں کہ دو جڑواں بہنیں ہوں اور ایک روشنی کی رفتار کے دس فیصد سے سفر پر چلی جائے اور جب وہ ایک سال بعد واپس آئے گی تو اس کی دوسری بہن اَسّی سال کی ہوگی۔ میں نے سرکھپایا۔ خود ہی لگی رہی۔ اپنی ایف ایس سی والی کتابیں نکالیں۔ رَف کاپی پر بہت سارا وقت مشق کرتی رہی۔ آخر مجھے اچھی طرح سمجھ آگیا کہ دو مختلف آبزرورز(ناظر) ہوں تو آخر ٹائم ڈائیلیشن کیونکر واقع ہوجاتاہے۔ اور سر میں نے گریوٹیشنل ٹائم ڈائیلیشن کے بارے میں بھی پڑھا اور ٹوِن پیراڈاکس کے بارے میں بھی ۔ پھر میں نے ٹوِن پیراڈاکس کے سالیوشنز(Solutions) بھی پڑھے۔ اب میں اچھی طرح جان گئی ہوں کہ روشنی کی رفتار مستقل رہنے کی وجہ سے یہ ٹائم (Time)ہی ہے جس کو بدلنا پڑیگا ورنہ تو اِکویشنز حل ہی نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ میں نے ٹائم کو چھوٹا بڑا کرکے دیکھا تو ساری مساواتیں حل ہوگئیں۔ میں ٹھیک سمجھی ہوں نا سر؟‘‘
اب میں سپیچ لیس تھا۔ اتفاق سے عین اسی وقت کلاس کا وقت ختم ہوگیا اور اگلی ٹیچر کی جھلک مجھے دروازے کے شیشے سے دکھائی دے گئی۔ میں نے حسبِ دستور کلاس چھوڑدی۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“