آئن سٹائن کا تصور ِ زماں یہ ہے کہ ’’وقت‘‘ مکان کی بُعدِ رابع یعنی چوتھی ڈائمینشن ہے۔وقت ، مکان کی تین ابعاد میں سے ہرایک کےساتھ اس طرح جُڑا ہوا ہے جیسے کسی جولاہے نے اِن دھاگوں کی بُنائی کرکے ایک جال بنادیاہو۔ہم جانتے ہیں کہ مکان کے تین ابعاد ہیں، جنہیں ہم ’’ایکس ، وائی، زیڈ‘‘ سے ظاہر کرنے کے عادی ہیں۔ان میں سے ہرایک خط اردو میں ’’محور‘‘ اور انگریزی میں ’’ایکسز‘‘ کہلاتاہے۔ اِن تین خطوط سے چھ جہات کا ظہورہوتاہے، جنہیں فارسی میں ’’شش جہات‘‘ کہا جاتاہے۔یہ چھ جہات ایسے ہیں،
دائیں بائیں
اُوپر نیچے
آگے پیچھے
ان میں سے ہرلائن کے ساتھ ’’ٹائم‘‘ کا خط جوڑا بلکہ بُنا جاسکتاہے۔فرض کریں ایک نقطہ(گیندنما) دائیں بائیں یعنی صرف ایک لائن پر حرکت کررہاہے، جیسے چیونٹی کسی دھاگے پر چلتی ہے تو ہم کہیں گے ، ’’ ایک خط، ایکس ایکسز(محور) کا اور ایک خط ٹائم کا مل کر جال کی ایک تہہ کو بُن رہے ہیں۔ یہ حرکت سپیس کی سنگل ڈائمنشن اور ٹائم کی سنگل ڈائمینشن میں ممکن ہوئی ہے۔بعینہ اسی طرح سپیس کی تینوں ڈائمینشنز کے ساتھ ٹائم کا رشتہ جُڑاہوا ہے۔ چنانچہ آئن سٹائن کا بُنا ہوا جال بہت گھنا ہے۔
یہ جال فورتھ ڈائمینشنل ہے۔ اس میں تین ڈائمنشنز مکان کی اور چوتھی ڈائمنشن زمانے کی شامل ہے۔اِسی بُنائی کی وجہ سے آئن سٹائن نے زمان و مکان کے نئے رشتے کو ’’سپیسٹائم فیبرک‘‘ کا نام دیا۔اوریوں گویا زمانہ، مکان سے الگ نہیں۔ آئن سٹائن کے جدید ’’زمانے‘‘ کے مطابق ’’کب‘‘ اور ’’کہاں‘‘ دو الگ الگ الفاظ نہیں۔ بلکہ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ پکے جُڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں شعرأ اور ادیبوں کے پاس خالق ِ کائنات کے لیے ایک ہی استعارہ ہوا کرتاتھا یعنی ’’کُوزہ گر‘‘، جسے ہم زیادہ سادہ زبان میں ’’کمہار‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ آئن سٹائن کے سپیسٹائم فیبرک نے شاعروں کے لیے ایک اور استعارہ ایجاد کردیا، یعنی اب اردو کے شعرأ اور ادیب چاہیں تو خدا کے لیے جولاہے کا استعارہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔کیونکہ اب سپیسٹائم ایک فیبرک ہے۔آئن سٹائن نے زمانے کو مکان کی بُعدِ رابع کہا تو ’’زمانے کے عاشق‘‘ علامہ اقبال نے اپنے خطبات ’’دی ریکنسٹرکشن آف ریلجس تھاٹ اِن اسلام‘‘ میں اِس خیال کی مخالفت کی۔ اقبال نے لکھا،
’’لیکن اِس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم سہ بُعدی ہستیاں جس چیز کو زمانے سے تعبیر کرتی ہیں وہ دراصل مکان ہی کا ایک بُعد ہے۔جسے ہم کماحقہُ محسوس نہیں کرسکتے۔لیکن جو فی الحقیقت اقلیدسی مکان کے ابعادِ ثلاثہ سے، جن کو ہم ٹھیک ٹھیک محسوس کرلیتے ہیں، قطعاً مختلف نہیں۔بالفاظِ دگر زمانہ کوئی تخلیقی حرکت نہیں، نہ مستقبل کے حوادث تازہ حوادث، بلکہ شروع ہی سے متعین اور کسی نامعلوم مکان میں موجود‘‘۔(تشکیل ِ جدید(
علامہ اقبال نے اِس خدشے کا اظہار کیاکہ آئن سٹائن کے نظریہ سے زمانے کی خلاقیت ختم ہوجاتی ہے ۔ اپنے وقت میں علامہ اقبال نے بالکل ٹھیک خدشے کااظہارکیا لیکن بعد کی فزکس نے ’’لامتناہی ٹائم لائنز‘‘ کا نظریہ پیش کرکے گویا زمانے کے جبر کو ایک طرح سے دوبارہ توڑدیا۔تاہم یہ مضمون ’’لامتناہی ٹائم لائنز‘‘ کے بیان کا متحمل نہیں ہے۔
بیسویں صدی کاعلمی آغاز آئن سٹائن کی سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی سے ہوتاہے۔۱۹۰۵ میں آئن سٹائن نے اپنا خصوصی نظریۂ اضافیت، جسے انگریزی میں سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کہتے ہیں پیش کیا تو شروع شروع میں کسی نے اِس خصوصی نظریے کی خصوصیت کو نہ سمجھا اور آئن سٹائن کا زمان و مکاں وقتی طورپر نظرانداز کردیا گیا۔لیکن فزکس اور ریاضی کے خاص خاص لوگوں کو پھربھی آئن سٹائن کے اکتشافات میں کچھ عجیب و غریب سی کشش محسوس ہورہی تھی۔آئن سٹائن کا خصوصی نظریۂ اضافیت ایک سودس سالہ جدید فزکس میں سب سے پہلے وارد ہوا اور تاحال سب سے مشکل تصور تسلیم کیا جاتاہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اس نظریہ میں زمان و مکاں کو موضوع بنایا گیا ہے اور زمان و مکاں کا کوئی بھی تصور ہو اُسے عقل کی گرفت میں لانا ہمیشہ مشکل رہا ہےکجا کہ آئن سٹائن کا نہایت منفرد ’’تصورِ زمان و مکاں‘‘ جس کی حقیقت ناظر تک محدود ہوکر پیچیدہ تر صورت اختیار کرگئی ہے۔زمان ومکاں میں دو چیزیں ہیں ایک زماں یعنی ٹائم اور دوسرا مکان یعنی سپیس۔ ہم اِس مضمون میں صرف زمانے پربات کرینگے۔
زمان (ٹائم) کیا ہے؟
جب ’’زمان‘‘ کی بات آتی ہے تو سینٹ آگسٹین (Saint Augustine) کا ذکر کیے بغیر رہا نہیں جاتا۔انہوں نے کہا تھا،
“What then time is? If no one asks me I know if I wish to explain it to him who asks I know not”
ترجمہ: ۔’’پھر وقت کیا ہے؟ اگر کوئی مجھ سے نہ پوچھے تو مجھے پتہ ہے کہ وقت کیا ہے ۔ اور اگر کسی کے پوچھنے پر مجھے سمجھانا پڑجائے تو میں نہیں جانتا، کہ یہ کیا ہے‘‘
آئیے وقت کی بات کو نہایت سادہ سطح سے چھیڑتے ہیں۔ہم سب گھڑیوں سے واقف ہیں۔ آج تو ہم اہل زمین ایک مشترکہ گھڑی کو معیار مان کر وقت کا حساب کتاب رکھتے ہیں لیکن ابھی ڈیڑھ صدی پہلے تک ہر ملک کا اپنا الگ ٹائم ہوا کرتا تھا۔ شروع شروع میں جب ٹرین ایجاد ہوئی تو بڑے حادثات ہوئے اور بڑے مسائل پیدا ہوگئے۔ مثال کے طور پرپیرس سے لندن جانے والی ٹرین پیرس کے وقت کو معیار مان کر چلتی لیکن لندن کے وقت کو معیار مان کر رُکتی ۔پیرس اور لندن کے اوقات کے درمیان کو ئی باہمی سمجھوتا نہ ہونے کی وجہ سے حادثات پیش آتے اور مسافروں کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔پیرس اورلندن فقط مثال کے طور پر لیے گئے ہیں ۔ مدعا یہ ہے کہ دور دراز ممالک کے درمیان ٹرین کا سفر شروع ہوا تو اہل ِ زمین کا مشترکہ ’’ٹائم‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسا مسئلہ سامنے آیا جسے حل کرنا وقت کے سائنسدانوں کی ذمہ داری بن گئی۔یوں ایک ’’معیاری وقت ‘‘(Standard Time) ایجاد کیاگیا جو سورج کی ایک مکمل گردش سے پیدا ہونے والے دن کو پینڈولم کے برابر وقفوں کے درمیان تقسیم کرکے ایک سائنٹفک معیار پرمرتب کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ’’وقت‘‘ کو زیادہ سے زیادہ معیاری بنانے کے لیے باریک سے باریک وقفوں کی تقسیم ہوتی رہی اور آج سیزیم کے ایٹم کے ارتعاش کو باریک سے باریک وقفۂ زمان شمار کیا جاتاہے۔ یہ دنیا کی پہلی درست ترین گھڑی ہے۔سیزیم ایٹامک کلاک ایک سیکنڈ کا نوارب انیس کروڑ چھبیس لاکھ اکتیس ہزار سات سو سترواں (9292631770th)حصہ بتاتا ہے۔وقت کے اتنے مختصر وقفے میں کیا کچھ ممکن ہے۔ شاید ہم انسانوں کے لیے یہ بہت چھوٹاہے لیکن اگر ہم ایک الیکٹران ہوں تو یہ ہمیں ایک بہت بڑا وقفہ محسوس ہوگا۔
وقت کے بارے میں عموماً کہا جاتاہے کہ ’’وقت گزررہاہے‘‘۔آئن سٹائن کی فزکس کے اعتبار سے یہ درست خبر نہیں ہے۔ وقت نہیں گزرتا ، بلکہ اشیا ٔ وقت میں سے گزرتی ہیں۔چونکہ اشیا ٔ وقت میں سے گزرتی ہیں چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ اشیا ٔ آگے کی طرف جانے کی بجائے پیچھے کی طرف سفر کریں۔کیا ہم ماضی میں بھی سفر کرسکتے ہیں؟کوئی آبجیکٹ وقت میں صرف مستقبل کی طرف ہی ہمہ وقت گامزن نہیں ہوتا بلکہ ٹھیک اُسی رفتار سے وہ ماضی میں بھی سفر کررہا ہوتاہے۔ وقت میں آبجیکٹس کا سفر سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے منطقی فہم کو قدرے ترقی دینا ہوگی ۔ یہ ہمارےسامنے میز پر رکھی ہوئی کتاب بظاہر ساکت ہے۔ لیکن یہ وقت میں سے گزر رہی ہے، ماضی اور مستقبل دونوں میں سے۔ ہاں یہاں پہلے ایک اور بات سمجھ لی جائے تو مزید آسانی ہوجائے گی۔
ایک ہوتاہے آبجیکٹس(اشیا ٔ) پر سے وقت کا گزرنا
ایک ہوتاہے آبجیکٹس (اشیا ٔ)کا وقت میں سے گزرنا
یہ دونوں الگ الگ اور مختلف باتیں ہیں۔ پہلا خیال کہ وقت اشیا ٔپر سے گزر کرتاہے کلاسیکی ٹائم تھیوری ہے۔ دوسرا خیال کہ اشیا ٔوقت میں سے گزرتی ہیں ماڈرن تھیوری ہے۔ پہلی تھیوری کے مطابق اشیا ٔمکان ِ مطلق میں معلق ہیں اور وقت ان پر سے ایسے گزرتاہے جیسے ندی کی تہہ میں پڑے کسی پتھر پر سے ندی کا پانی گزرتا ہے۔ یعنی وقت ایک دریا یا ندی کی طرح سے بہتا ہے۔لیکن آئن سٹائن کے نظریۂ وقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ وقت میں سے اشیا ٔگزر کرتی ہیں۔ جیسے کسی راہداری میں سے کسی راہی کا گزرنا۔ وقت کی ایک ٹائم لائن، ایک راہداری ہے۔ آئن سٹائن کے بعد کی فزکس کو دیکھا جائے تو ٹائم لائنز کی کوئی انتہا ٔنہیں۔ ہر ٹائم لائن شروع سے آخر تک ماضی اور مستقبل کے درمیان بچھی ہوئی سڑک کی طرح سے ہے۔ کوئی آبجیکٹ وقت میں صرف مستقبل کی طرف ہی ہمہ وقت گامزن نہیں ہوتا بلکہ ٹھیک اُسی رفتار سے اور اسی لمحے میں وہ ماضی میں بھی سفر کررہا ہوتاہے۔ میز پر رکھی کتاب، جو ہرلمحہ، ہرسیکنڈ کے ساتھ مستقبل میں داخل ہورہی ہے، یہ ہر لمحہ اور ہرسیکنڈ کے ساتھ ماضی میں بھی اسی رفتار کے ساتھ داخل ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے سامنے موجود ہر آبجیکٹ لمحہ ٔ موجود یعنی پریزینٹ میں محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ لمحہ ٔ موجود یا پریزنٹ وہ مقام ہے جو ماضی اور مستقبل کے عین درمیان واقع ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ کوئی حرکت کرتی ہوئی چیز ہمیں محض اس وقت دکھائی دیتی ہے جب وہ ہمارے نکتۂ نگاہ سے سپیس میں حرکت کرتی ہے۔کھلی آنکھوں سے ہم حرکت کا صرف ایک حصہ دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی آبجیکٹ دو طرح کی حرکت کرتاہے۔ ایک یہ کہ وہ ٹائم میں سے گزرتا ہے اور دوسری یہ کہ وہ سپیس میں سفر کرتاہے۔ کسی آبجیکٹ کے، ٹائم میں سے گزرنے کی حرکت کو حواس ِ خمسہ سے محسوس نہیں کیا جاسکتا جبکہ اُس کے سپیس میں حرکت کرنے کو ننگی آنکھ سے دیکھا جاسکتاہے۔کیونکہ ہم سب زمین پر رہتے ہیں اور یہ گویا ایک بس(Bus) ہے جس میں ہم سب سوار ہیں۔ یعنی جب ایک ہی بس میں سب لوگ بیٹھے ہوں تو ہماری رفتار ایک دوسرے کے لیے زیرو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زمین پر ایک دوسرے کے لیے ٹائم کی رفتار نہیں دیکھ پاتے۔جب بس میں کوئی شخص اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس میں چلنے لگے تو سب مسافر اس کی حرکت دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم زمین پر حرکت کرتی چیزوں کی سپیس میں حرکت تو دیکھ سکتے ہیں لیکن ٹائم میں حرکت کے اعتبار سے ہم سب ایک بس میں سوار ہیں۔
دراصل رفتار کسی آبجیکٹ کی لازمی صفت ہے۔دنیا کا کوئی آبجیکٹ ایسا نہیں جوحرکت نہ کررہاہو۔چونکہ عام اشیأ کی رفتاریں ایک دوسرے کے لیے اضافی ہیں اور یہ صرف روشنی ہے جو ہرطرح کے آبجیکٹس سے ایک مستقل رفتار کے ساتھ سفرکرتی ہے۔چنانچہ فرض کیا جاتاہے کہ ہر شئے روشنی کی رفتار سے وقت میں سفر کررہی ہے۔ایسی اشیأ بھی جو ہمیں اپنے آس پاس رُکی ہوئی محسوس ہوتی ہیں روشنی کی رفتار سے سفر کررہی ہیں۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے لیکن چونکہ اشیأ کی رفتاریں ناظر مقرر کرتاہے اس لیے ہم ایسا فرض کرتے ہیں جس سے ریاضی کی مساواتوں میں مسائل پیدا نہیں ہوتے۔
مثلاً آپ کے سامنے میز پر جو اشیا ٔ پڑی ہیں۔ یہ آپ کے نکتۂ نگاہ سے سپیس میں رُکی ہوئی ہیں ۔ اب چونکہ ہم پہلے کہہ چکےہیں کہ ہرشئے روشنی کی رفتار پر ہے تو پھر ایسی اشیأ جو ہمارے نکتۂ نگاہ سے رُکی ہوئی ہیں اُن کی روشنی کی رفتار کہاں گئی؟ دراصل وہ اشیأ وقت میں روشنی کی رفتار سے محو ِ سفر ہیں۔ چنانچہ جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں حرکت کرتاہوا دکھائی دے تو اس کا مطلب ہے کہ اب وہ وقت میں روشنی کی رفتار سے کچھ کم رفتار میں حرکت کررہا ہےکیونکہ اُس نے اپنی رفتار کا کچھ حصہ سپیس میں صرف کردیاہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک ایسی کار فرض کریں جو ’’صرف سپیس میں، یعنی ایکس ایکسز پر‘‘ روشنی کی رفتار یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ سے حرکت کررہی ہے۔ایسی کار کے لیے ٹائم بالکل بھی نہ گزرے گا۔ ٹائم کے گراف پر وہ زیرو ہوگی۔ (نیچے تصویر ملاحظہ کریں(
ایک رکی ہوئی کار جوہمارے نکتۂ نگاہ سے بالکل بھی حرکت نہیں کررہی وہ اپنی پوری رفتار ٹائم کے گراف پر خرچ کردیتی ہے۔اور اپنی رفتار کا ذرا سا حصہ بھی سپیس میں صرف نہیں کرتی۔چنانچہ سپیس کے خط پر اُس کی حرکت زیرو جبکہ ٹائم کے خط پر روشنی کی پوری رفتار کے ساتھ جاری رہتی ہے۔جیسا کہ اِس تصویر میں دکھایا گیاہے۔
لیکن اگر وہی آبجیکٹ کھلی آنکھوں سے حرکت کرتاہوا دکھائی دینے لگے تو اس کا مطلب ہے کہ اب وہ ٹائم کے ساتھ ساتھ سپیس کے خط پر بھی متحرک ہوگیا۔اور سپسٹائم کے گراف پر درمیان میں کہیں نظر آتاہے۔ یوں وہ اپنی لازمی رفتار یعنی روشنی کی رفتار کا کچھ حصہ سپیس کے ساتھ شیئر کرنے لگتاہے۔ اور وقت میں اس کے گزرنے کا عمل اُسی تناسب سے سست پڑجاتاہے۔اِس تصویر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اب روشنی کی رفتار سے چلنے والی کار نہ ہی سپیس میں اور نہ ہی ٹائم میں زیادہ آگے تک جاسکی ہے بلکہ ،چونکہ اُس نے اپنی رفتار دونوں، یعنی ٹائم اور سپیس میں برابر شیئر کردی اس لیے دونوں میں ،گراف پر اس کی حرکت پچھلی دو تصویروں کی نسبت کم ہے۔ یعنی گراف پر پچھلی تصویروں میں یہ کار سات آٹھ نقاط آگے تک گئی ہے لیکن اِس تصویر میں فقط نقطہ چار اور پانچ تک گئی ہے۔
فلہذا کار کی فطری رفتار یعنی روشنی کی رفتار اب ٹائم کے خط پر پہلے سے قدرے کم صرف ہورہی ہے نہ کہ پہلے کی طرح پوری کی پوری کیونکہ اس میں سے کچھ رفتار اب سپیس کے خط پر استعمال ہورہی ہے۔اگر کوئی آبجیکٹ کھلی آنکھ کو بہت زیادہ تیزی سے حرکت کرتاہوا دکھائی دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سپیس کے خط پر اپنی فطری رفتار کا قدرے زیادہ حصہ خرچ کررہا ہے۔ اگر کوئی آبجیکٹ سپیس کے خط پر اپنی فطری رفتار یعنی روشنی کی تمام تر رفتار خرچ کردے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اب وہ ٹائم کے خط پر زیرو رفتار کے ساتھ حرکت کررہا ہے۔ یعنی اُس نے اپنی تمام تر فطری رفتار سپیس میں استعمال کردی ہے اور ٹائم میں اب اس کی رفتار باقی نہیں رہی۔یعنی اس کا وقت رک گیا ہے۔یہ سب ہم نے اِن تین تصویروں میں دیکھا۔
اس پورے خیال میں سب سے اہم فطری رفتار ہے۔ کائنات کا ہر آبجیکٹ رفتار کا حامل ہے۔ کوئی آبجیکٹ روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار کا حامل نہیں ہوسکتا۔یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ جب یہ کہا جاتاہے کہ ہر رُکا ہوا آبجیکٹ دراصل روشنی کی رفتار سے وقت میں سفر کررہا ہے تو بعض لوگوں کا خیال اُس اصول کی طرف چلا جاتاہے کہ روشنی کی رفتار سے کائنات میں کوئی شئے سفر نہیں کرسکتی اور یہ کہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ ہم جان لیں کہ ہماری اشیا ٔ کو صرف ’’خلا یعنی سپیس میں ‘‘روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، وقت میں سفر کرنے کے لیے نہیں۔وقت میں تو بوسیدہ عمارتیں بھی سفر کررہی ہوتی ہیں جو کہ بظاہر رکی ہوئی ہیں۔اور فزکس کے ماہرین اپنی ریاضی درست کرنے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ ہررکی ہوئی شئے وقت میں روشنی کی رفتار سے محوِ سفر ہے۔
ایک سوال کہ ہم کسی رکے ہوئے آبجیکٹ کو جب روشنی کی رفتار سے حرکت کرتاہوا نہیں دیکھ سکتے تو یہ دعویٰ کہ ہر رکا ہوا آبجیکٹ روشنی کی رفتار پر ہے کیا معنی رکھتاہے؟ اس کے معانی یہ ہیں کہ وہ آبجیکٹ صرف وقت (ٹائم) میں روشنی کی رفتار سے سفر کررہا ہے۔ اگر ہم یوں ذہن بنا لیں کہ یہ رفتار آبجیکٹس کی فطری رفتار ہے جو اشیا ٔ کے اندر ہوتی ہے، اور یہ کہ اس رفتار کے بغیر دنیا میں کوئی آبجیکٹ نہیں ہوسکتا۔اور یہ کہ یہ محض فرض کی گئی ہے، کیونکہ فی الحقیقت تو ایسے آبجیکٹ کا وجود نہیں ہوسکتا جو عین روشنی کی رفتار پر چل رہا ہو۔ دراصل ہر آبجیکٹ دوسرے آبجیکٹس کے حوالے سے دیکھا جائے تو اُن کی آپس کی ، ریلیٹو موشن کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ تمام کے تمام آبجیکٹس حرکت کررہے ہیں تو کوئی کم اور کوئی زیادہ رفتار پر ہوسکتاہے۔ فطری رفتار محض فرض کی گئی رفتار ہے۔
خیر! تو ہم جان چکے کہ جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں حرکت کرتاہوا دکھائی دیتاہے تو وہ اپنی فطری رفتا ر جو کہ روشنی کی رفتار ہے، کا کچھ حصہ سپیس میں شیئر کردیتاہے اور اس وجہ سے ٹائم میں اس کا شیئر پہلے سے کم ہوجاتاہے۔ یعنی وہ وقت میں سے کم گزرتا ہے۔ بالفاظ ِ دگر حرکت کرتے ہوئے اجسام کا وقت رکے ہوئے اجسام کی نسبت آہستہ گزرتاہے۔اور یوں حرکت کرنے سے اشیا ٔ کی عمر میں برکت پیدا ہوجاتی ہے۔ یعنی راز کی بات یہی فلسفیانہ نکتہ ہے کہ ’’روشنی کی رفتار اشیا ٔکی صفت ہے جوان میں لازمی موجودہوتی ہے‘‘ ۔ جب کوئی شئے سپیس میں تیز ہوجاتی ہے تو اس کا وقت گزرنے کی رفتار آہستہ ہوجاتی ہے۔ فزکس کی زبان میں اِسے ٹائم ڈائیلیشن کہتے ہیں ۔
ٹائم ڈائیلیشن سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کے تین بڑے مظاہر میں سے ایک ہے،
۱۔ ٹائم ڈائیلیشن (وقت کی لچک(
۲۔ لینتھ کنٹریکشن (فاصلوں کا سُکڑنا(
۳۔ ماس انکریمنٹ (ماس کا بڑھ جانا(
لینتھ کٹریکشن اور ماس اِنکریمنٹ یعنی فاصلوں کا سکڑنا یا مقدار ِ مادہ کا بڑھ جانااس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم فی الحال صرف ’’آئن سٹائن کے ٹائم‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹائم ڈائیلیشن آئن سٹائن کے تصورِ زماں کا خاصہ ہے۔ٹائم ڈائیلیشن اس وقت ہوتا ہے جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں روشنی کی رفتار کے قریب ترین رفتار سے سفر کرتاہے۔تب اُس آبجیکٹ کا وقت آہستہ گزرتاہے اور زمین پر موجود اشیا ٔ کا وقت جلدی سے گزررہا ہوتاہے۔مثلاً،
فرض کریں ایک باپ ہے جس کی عمر بائیس سال ہے اور ایک بیٹاہے جس کی عمر ایک سال ہے۔ اب اگر باپ کو ہم خلا کے سفر پر روانہ کردیں یا زمین پر ہی کسی طرح اس کی حرکت کی رفتار بڑھادینے کا بندوبست کرلیں اور وہ روشنی کی رفتارکے قریب قریب سفر کرے۔ تو ایک سال بعد جب وہ واپس آئے گا تو اس کی عمر بائیس سال سے تیئس سال ہوچکی ہوگی جبکہ اس کے بیٹے کی عمر ہوسکتاہے اسّی سال ہوچکی ہو۔اس طرح گویا آئن سٹائن کے تصورِ زماں نے کئی بڑے بڑے استخراجی نتائج پر گہری چوٹ کی۔ باپ ہمیشہ عمر میں بیٹے سے بڑا ہوتاہے، یہ ایک استخراج تھا۔ استخراج کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ یہ کبھی غلط نہیں ہوسکتالیکن آئن سٹائن کے تصورِ زماں نے اِس سمیت بے شمار دیگر استخراجی نتائج (ڈیڈکٹو کانکلیوژنز) کو اضافیت کی شمشیر سے شہید کردیا۔
زیادہ رفتار پر واقعی ٹائم ڈائلیشن وقوع پذیر ہوتاہے، اس حقیقت کو متعدد تجربوں سے ثابت کیا جاچکاہے۔جن میں خلائی شٹل میں جانے والے خلابازوں کی عُمروں سے لے کر ہیڈران کولائیڈرز میں مادے کے چھوٹے ذرّات کی رفتاروں اور ٹائم تک کے بے شمار تجربات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فی الواقعہ اُونچے درجے کی رفتاروں پر وقت آہستہ گزرنے لگتاہے۔ایک خاص تجربہ جو اِسی مظہر کو دیکھنے کے لیے پرفارم کیا گیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک تیز رفتار جیٹ طیّارے نے کرۂ زمین کے گرد برق رفتاری سے چکر کاٹا۔ اس طیارے میں بھی ایک سیزیم کلاک نصب تھی اور ایک سیزیم کلاک زمین پر بھی نصب تھی۔ جب طیارہ چکر لگا کر لوٹا تو دونوں گھڑیوں میں فرق تھا۔ طیّارے کے کلاک نے آہستہ رفتار کے ساتھ ٹِک ٹِک کی تھی یعنی طیارے میں موجود پائلٹ کا وقت اہلِ زمین کی نسبت کم گزرا تھا۔
یہ مضمون آئن سٹائن کے تصورِ زماں کے صرف ایک پہلو کو محیط ہے۔ گریوٹی اور ٹائم کا کیا تعلق ہے؟ سپیس ٹائم آپس میں بُنے کیسے جاتے ہیں؟ یا آئن سٹائن کے زمانے میں ناظر کا کیا کردار ہے؟ اس پر گفتگو ہم اِسی عنوان ، ’’آئن سٹائن کا تصورِ زماں‘‘ کے تحت، اگلے مضمون میں کرینگے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“