آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت صرف طبیعات کے لیے نہیں
ہماری شکایت یہ ہے کہ دنیا امن کی جگہ کیوں نہیں؟ ہماری خواہش یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سیارہ ہو، جہاں لوگ امن و سکون سے اپنی اپنی زندگی بسر کریں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس امن کا حصول کیسے ممکن ہو؟
جواب نہایت سادہ ہے مگر عمل درآمد پیچیدہ
جواب یہ ہے کہ اس کائنات کے بنیادی اصول کو سمجھا جائے۔ یہ کائنات مطلقیت کے اصول کی بجائے تقریباﹰ کے اصول پر قائم ہے۔ اس کائنات میں ایسی ایک بھی چیز نہیں، جو سو فیصد درست ہو یا حتمی ہو۔ کسی ایک ہی سانچے سے بنے ہوئے دو ایک سے برتن بھی سو فیصد ایک سے نہیں۔ کسی خان دان کے ایک ہی جینوم کے حامل تمام افراد مختلف ہیں۔ کسی ایک ہی شخص کی دو آنکھیں سو فیصد ایک سی نہیں ہوتیں۔ غرض آپ کسی بھی شے کا تصور کیجیے تو آپ سو فیصد یقین سے یہ نہیں کہہ پائیں گے کہ یہ سو فیصد کسی اور شے جیسی ہے۔
خود کسی ایک سی صورت حال میں ہمارا اپنا عمل مختلف مواقع پر مختلف طرز کا ہوتا ہے اور ہم روزانہ ایک سے راستے سے گزرتے ہیں تب بھی مختلف مناظر ہمارے مشاہدے کا حصہ بنتے ہیں۔
ایک ایسی کائنات میں جہاں کوئی ایک بھی چیز حتمی طور پر مطلق نہیں وہاں ہم کسی بھی شے کو مکمل درست یا مکمل غلط کیسے کہہ سکتے ہیں؟
کوئی سچ مکمل سچ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور کوئی جھوٹ سو فیصد جھوٹ کس بنا پر ممکن ہے؟
مسئلہ شروع اس وقت ہوتا ہے، جب کوئی شخص اپنے کسی بھی نکتہ ہائے نظر یا نظریے کو سو فیصد درست تسلیم کرتے ہوئے دوسرے شخص کو بھی ہو بہو ویسا ہی بنانا چاہے۔ یہ کائنات کے اپنے تخلیقی فلسفے کی خلاف ورزی اور تنازعات کا باعث ہے۔
کوئی بھی تنازعہ صرف اور صرف اس وقت جنم دیتا ہے، جب کوئی ایک فریق سو فیصد ٹھیک کا نعرہ لگا کر دوسرے کو سو فیصد غلط قرار دے دیتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ ہو سکتا ہے وہ سو فیصد درست نہ ہو اور دوسرا سو فیصد غلط نہ ہو۔ آپ کا سچ آپ کا مکمل سچ ہو بھی جائے، تو ضروری نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے شخص کے لیے بھی اتنا ہی سچ ہو۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کوئی بچہ آپ سے یہ کہہ دے کہ چاند ستاروں سے بڑا ہے، تو یقیناﹰ وہ بچہ جھوٹ نہیں بول رہا، مگر اس کا یہ سچ آپ کے لیے سچ نہیں ہے، کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ ستارے چاند سے بے انتہا بڑے ہیں۔
تو اپنے آس پاس جہاں کہیں بھی کوئی تنازع دیکھیے، وہاں آپ ضرور دیکھیں گے کہ کم از کم کوئی ایک فریق خود کو سو فیصد درست سمجھے ہوئے ہے۔
یہ دنیا کہیں بہتر جگہ ہوتی اگر ہم نکتہ ہائے نگاہ اور نظریات کو سوالات سے ماورا نہ ہونے دیتے۔ مستقل سوالات اٹھاتے رہتے اور اس کائنات کو ہر نئے دن گئے دن سے زیادہ بہتر انداز سے سمجھتے اور اپنی اصلاح کرتے رہتے۔
جس روز ہم اپنے موقف یا نظریے یا نکتہ ہائے نظر کے بارے میں صرف یہ سوال اٹھا لیں گے کہ ہو سکتا ہے میں سو فیصد درست نہ ہوں، یا ہو سکتا ہے کہ دوسرا سو فیصد غلط نہ کہہ رہا ہو، ہمارے بہت سے جھگڑے یوں ہی ختم ہو جائیں گے۔
دوسروں کے لیے کوئی بھی راستہ تفویض کرنے سے قبل اگر اپنے راستے کی درستی پر سوال اٹھا لیا جائے، تو جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔
دوسرے کے باہر کو اپنے جیسے بنانے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے اندر اتر کر خود اپنے لیے علم و تحقیق اور جستجو کے راستے استوار کیے جائیں اور اپنی درستی یا نادرستی کو جانچا جائے۔ ہو سکتا ہے آپ کسی بچے کہ طرح چاند کو ستاروں سے بڑا ثابت کرنے کی ضد پر اڑے ہوں اور آپ کی ضد اتنی شدید ہو کہ کوئی دوسرا آپ کو یہ تک نہ بتا پائے کہ ستارے چاند سے لاکھوں کروڑوں گنا بڑے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“