آئن سٹائن کا نظریہ ایک بار پھر درست ثابت ہوا
آئن سٹائن نے اپنا عمومی نظریہ اضافت آج سے سو سال پہلے پیش کیا تھا – اسے ہزاروں دفعہ آزمایہ جا چکا ہے اور یہ ہر دفعہ کامیاب رہا ہے – اب تک کوئی ایک بھی مشاہدہ ایسا نہیں ہے جو اس نظریے کی پیش گوئی کے خلاف ہو – اس نظریے کی ایک پیش گوئی یہ بھی ہے کہ بہت زیادہ کششِ ثقل کے علاقے میں مادی اجسام سے نکلنے والی روشنی بھی کششِ ثقل کی وجہ سے اپنی توانائی کھونے لگے گی اور چونکہ فوٹانز کی توانائی ان کی فریکونسی سے ظاہر ہوتی ہے اس لیے فوٹانز کی فریکونسی کم ہونے لگے گی – اس مظہر کو Gravitational red shift کہا جاتا ہے – اب اس پیش گوئی کی مشاہداتی تصدیق بھی کر لی گئی ہے
ہماری زمین سے 26000 نوری سال کے فاصلے پر ہماری کہکشاں کا مرکز ہے جس مین بہت زیادہ کمیت کا supermassive بلیک ہول موجود ہے – اس بلیک ہول کے گرد بہت سے ستارے بہت نزدیک گردش کر رہے ہیں جنہیں عام دوربین سے دیکھنا ممکن نہیں کیونکہ ان کے اور ہمارے درمیان گرد و غبار کے گھنے بادل موجود ہیں – تاہم انفرا ریڈ دوربین سے ان ستاروں کی گردش کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے
جرمنی کی میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین نے اس بلیک ہول کے بالکل پاس سے گذرنے والے ایک ستارے کا انتہائی تفصیلی جائزہ لیا – اس ستارے سے خارج ہونے والی روشنی کے تجزیے سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ ستارہ بلیک ہول کے گرد ایک بیضوی مدار میں ہے – جوں جوں یہ ستارہ بلیک ہول کے پاس جاتا گیا ویسے ویسے اس کی روشنی کی ریڈ شفٹ میں اضافہ ہوتا گیا – بلیک ہول کے گرد گھوم کر جب یہ ستارہ بلیک ہول سے دور جانے لگا تو اس کی ریڈ شفٹ میں کمی ہونے لگی – یہ ریڈ شفٹ اس ریڈ شفٹ سے زیادہ تھی جو نیوٹن کے قوانین کی رو سے ہونی چاہیے (نیوٹن کے قوانین کے مطابق بیضوی مدار میں کوئی بھی جسم فوکل پوائنٹ کے جتنا نزدیک ہوتا جاتا ہے اتنی ہی اس کی رفتار میں تیزی آتی جاتی ہے اور اس وجہ سے اس کی روشنی میں ریڈ شفٹ پیدا ہو جاتی ہے) لیکن یہ ریڈ شفٹ عین وہی تھی جو آئن سٹائن کے نظریے کی رو سے ہونی چاہیے – یہ پہلا موقع ہے کہ بلیک ہول کے اتنے نزدیک موجود کسی فلکی جسم کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے اور اس شدید کششِ ثقل میں بھی آئن سٹائن کا نظریہ درست پایا گیا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔