آئن سٹائن کے تصورِ زمان و مکاں کی تفہیم کا سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹرینڈ رسل نے نظریۂ اضافیت سمجھانے سے پہلے کچھ باتیں ہماری بصیرت کے حوالے سے کی ہیں۔ ان باتوں میں رسل نے کچھ مثالوں سے کام لیا ہے جو خاصی دلچسپ ہیں۔ میں نے اس تحریر میں کہیں کہیں رسل سے سیکھی ہوئی باتیں دوبارہ سے لکھ دی ہیں۔ لیکن اس کی مثالوں کو دہراتے وقت نام اور مقامات بدل دیے ہیں تاکہ اردو پڑھنے والوں کے لیے ہم یہیں کے مقامی نام اور مقامات استعمال کریں۔
صرف اُس کی باتوں کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض کرتاہوں کہ برٹرینڈ رسل کہتاہے،
زمان ومکاں کے جدید تصورات کو سمجھنا اس لیے مشکل نہیں کہ ہم اس کے اہل نہیں ہیں بلکہ اس لیے مشکل ہے کہ ہم وہ نسل نہیں ہیں جنہیں یہ تصورات خودبخود سمجھ آجاتے۔ ہمارے بعد کی نسلیں اِن تصورات کو ازخود سمجھ لیا کرینگی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب کوپرنیکن انقلاب آیاتھا یعنی جب زمین کے انسانوں کو یہ پتہ چلا تھا کہ ہماری زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے اور یہ کہ یہ تو فقط ایک گولا ہے تو اس وقت کی نسلوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا ناممکن کے قریب مشکل تھا لیکن بعد کی نسلوں نے یہ بات آسانی سے ہضم کرلی۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ ہماری بصیرت دراصل کسی پرانے تصور کو بڑی مشکل سے ازسرنوتعمیر کرپاتی ہے۔ یہ کسی عمارت کے گرانے اور پھر تعمیر کرنے جیسی بات ہے۔
ابھی ہم جانتے ہیں کہ لاہور کہاں واقع ہے۔ ہمارا تمام تر تصورمکاں ہمارے ذہنوں میں طے شدہ ہے۔ ہمیں زمین کی پیمائش کرنے کے طریقے صدیوں سے آتے ہیں۔ہمارا تصورِ زمان و مکاں انہی پیمائشوں کی وجہ سے ہماری بصیرت کا حصہ بناہے۔بہت پرانے ادوار میں ہم قدموں کو گن گن کر پیمائش کرتے تھے لیکن بعد کے ادوار میں زمین کی پیمائش کے اور بھی بہت سے طریقے ایجادہوگئے۔ طریقے تو بدلتے رہے لیکن یہ بات کبھی نہ بدلی کہ کوئی شہر کہاں واقع ہے۔ سب کچھ چونکہ زمین پر تھا اور ہرکسی شئے کو دیکھنے اور اس کی پیمائش کرنے کے لیے ہم صرف اپنی آنکھیں اور حسِ لامسہ یعنی چھُونے کی حس کام میں لاتے تھے چنانچہ ہزاروں بلکہ لاکھوں سال میں ہم نے اپنے منطقی فہم میں ایسی فیکلٹیز پروان چڑھا لیں جو مکان یا زمانے کا کوئی اور تصور قبول ہی نہیں کرسکتیں۔
آج آپ کو فاصلوں کا پتہ ہے۔ اس لیے سب پتہ ہے۔ آج آپ کو معلوم ہے کہ ملتان کہاں ہے؟ ملتان راولپنڈی سے کتنا دُور ہے؟ ملتان سے بہاول پور کتنا دُور ہے۔ لاہور میں ریلوے اسٹیشن کہاں واقع ہے۔ اسلام آباد کا ائر پورٹ آپ کے گھر سے کتنا دُور ہے؟ فیض آباد سے کس کس شہر کوبسیں چلتی ہیں اور وہ کتنی کتنی دیر میں اپنی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچتی ہیں۔ آئن سٹائن کے اکتشافات سے پہلے خلامیں جانا اس لیے ممکن نہیں تھا کہ ہم زمین سے ستاروں کو دیکھتے اور ان سے متعلق مکانی فاصلوں کا جو حساب کتاب رکھتے وہ درست نہیں تھا۔کوئی ستارہ ہم سے کتنا دُور ہے یعنی اس ستارے تک درمیان میں کتناسارا مکان پھیلا ہے۔خلأ میں موجود مکانی پھیلاؤ کو بھی ہم زمین کی سطح پر موجود فاصلوں کے حساب سے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر آئن سٹائن سے پہلے کوئی خلاباز ، خلا میں جانے کی کوشش کرتا تووہ یقیناً کھو جاتا۔
زمین کی سطح پر موجود مکانی فاصلے اور ان پر صَرف ہونے والا ٹائم اور پھر ہماری اپنی رفتاریں،ہماری بسیں، ٹرینیں، جہاز، یہ سب ہمیں بتاتے ہیں کہ مکان کیا ہے اور زمانہ کیا ہے اور ان کی مدد سے سمجھ میں آنے والا زمانہ اور مکان ہم نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سال میں اپنے ذہنوں میں اُتار رکھاہے۔آپ روزانہ صبح سویرے ایک مخصوص گھرمیں بیدار ہوتے ہیں۔ وہاں سے کام پہ جاتے ہیں۔ کسی ٹرین یا بس میں بیٹھتے ہیں۔ وہ ٹرین سٹیشن یا بس سٹاپ روزانہ اُسی جگہ پر ہوتاہے، جہاں اسے آپ کل چھوڑ کر گئے تھے۔ آپ فیض آباد اڈے پر آتے ہیں، ملتان کا ٹکٹ لیتے ہیں اور بس میں بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ بس کتنی دیر میں ملتان پہنچے گی اور راستے میں کون کون سے شہر آئیں گے۔ فرض کریں ایسا نہ ہوتا۔ فرض کریں آپ کی طرح یہ سب چیزیں، یہ سب عمارتیں، یہ سارے شہر، یہ سڑکیں، یہ مکان اور یہ دفاتر ، یہ ریلوے سٹیشنز اور یہ بسوں کے اڈے ، یہ سب کے سب بھی چلتے؟ فرض کریں کہ آپ کے گھر چلے جانے کے بعد پیچھے سےبس سٹاپ بھی چل پڑتا۔ کسی اور طرف۔ آپ روزانہ صبح جاگتے تو آپ کا گھر کہیں اور ہوتا اور آپ کا دفتر کہیں اور۔ آپ روزانہ اُٹھتے ہی پہلے کسی ذریعے سےیہ معلوم کرتے کہ آج آپ کا ریلوے اسٹیشن کہاں واقع ہے؟ اور آپ کا دفتر یا آپ کی دکان کس بازار میں ہے؟آپ ملتان جانے سے پہلے روزانہ کا نیا نقشہ دیکھتے۔ آپ لاہور کو تلاش کرتے کہ وہ آج کس ملک کا حصہ ہے؟ اور یہ کہ پاکستان خطِ استوأ کے کس طرف واقع ہے؟ یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ خطِ استوأآج زمین کی کس موٹائی کے حساب سے کتنا لمبا ہے اور کن کن علاقوں سے گزر رہاہے؟ ذرا حساب تو لگائیں کہ اس طرح کے سوالات کا سامنا اگر ہم انسانوں کو روز ہوتا اور ہزاروں سال سے ہوتا تو ہمارے سوچنے کا انداز کیا ہوتا؟ تب ہمارا زمانہ کیسا ہوتا؟ تب ہمارا تصورِ مکان کیسا ہوتا؟
یہ سب ہماری حواس کی وجہ سے ہے۔ ہماری دیکھنے اور چھُونے کی حِس کی وجہ سے بطورِ خاص۔اگر ہم ایسے نہ ہوتے یعنی ہمارے حواس مختلف طرح کے ہوتے تو ہمارازمان و مکاں کو فکر کی گرفت میں لانے کا انداز اور ہمارے تمام تر تصورات بالکل ہی مختلف ہوتے۔مثلاً اگر آپ ایک الیکٹران جتنے چھوٹے ہیں۔ تو لاہور ریلوے سٹیشن آپ کے لیے ریلوے سٹیشن ہرگزنہیں ہے۔ فیصل مسجد کی دیواریں آپ کے لیے دیواریں نہیں ہیں۔بلکہ یہ سب چیزیں تو بہت ہی باریک ذرّات ہیں جن کے درمیان آپ اُڑتے پھررہے ہیں اور اس لیے ناممکن ہے کہ آپ فیصل مسجد کی دیوار کو فیصل مسجد کی دیوار کے طور پر منطقی فہم کی گرفت میں لاسکیں۔ ممکن ہے تو فقط یہ کہ آپ بھی ذرّے ہیں اور آپ کے آس پاس ہرچیز بھی ذرّات ہے۔ ان ذرّات کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ سب کے سب مسلسل کانپ یا تھرتھرا بھی رہے ہیں اور حرکت بھی کررہے ہیں۔ وہ اپنی جگہیں بار بار بدل رہے ہیں اور کوئی مقام ایسا نہیں جسے آپ کسی ذرّے کا مستقل مقام کہہ سکیں۔کچھ ذرّات آپ سے بڑے ضرور ہیں جیسا کہ پروٹان یا نیوٹران وغیرہ اور شاید اُس دنیا میں آپ اُن سے ڈرتے بھی ہیں لیکن وہ بھی مسلسل تھرتھرا رہے ہیں بلکہ شاید ناچ رہے ہیں۔ ساتھ کے ساتھ وہ سفر بھی کررہے ہیں۔ کوئی کسی طرف کو جارہاہے اور کوئی کسی طرف سے آرہاہے۔ آپ کے لیے کوئی مقام اور کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ سوچیں تو! یہ کیسی دنیا ہوگی؟ ایسی عجیب و غریب دنیا میں زمان و مکاں کا تصور بھی کتنا عجیب ہوگا۔اتنا عجیب کہ ہم ابھی اسے اپنی سوچ کی گرفت میں لابھی نہیں سکتے۔
اور اگر آپ بہت چھوٹے ہونے کی بجائے، بہت زیادہ بڑے ہوں تو؟ یعنی آپ ایک سورج جتنے بڑے ہوں تو آپ کو یہ کائنات کیسی دکھائی دے گی؟ یہ چاند ، سیّارے اور ستارے آپ کو ہزاروں سال گزارتے ہوئے محسوس نہیں ہونگے ۔ بلکہ آج ایک ستارے نے جنم لیا اور کل دوسرا مر گیا۔ یہ چاند اُگ آیا۔وہ سیّارہ ٹوٹ گیا۔ اس طرح کے حادثات آپ کے روزانہ کے واقعات کا حصہ ہوتے۔ کیونکہ آپ کو وقت یعنی زمانہ اور طرح سے ہوجاتا اور روز جیتے مرتے ستارے آپ کو روز جیتے مرتے انسانوں کی طرح محسوس ہوتے۔
زمانہ ہو یا مکان اس کی وہ نئی ساخت جو آئن سٹائن اپنے ساتھ لے کر آیا ہے، اسے سمجھنا بھی کچھ ایسا ہی کام ہے۔ ہزاروں سال سے تعمیر شدہ عمارت کو گرانے اور ایک بالکل نئی عمارت کو کھڑا کرنے کا کام۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔