…………………عیدی ………………
رب ہنر کی بے پایاں عنایات خسروانہ ہیں کہ گردش زمانہ میں ہنوز اس فقیر رہگزر کو ….عیدی ….ملنے کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے ……..کتاب ہماری مشترکہ محبت ہے جو فیس بک کے دور میں بھی ….زہنی قربت کا سبب بن رہی ہے …..ماہ صیام کی ستایسویں شب بیداری کا ظاہری انعام طلوع آفتاب کی کرنوں نے کتابوں کے ارمغان کی صورت میں ملا ……تشکر کی رسید حاضر ہے …..الحمد للہ
ایک تحفہ دلنواز ……..لانڈھی نمبر 5 کراچی سے …………غایبانہ حبیب مکرم ….محمد احمد ترازی….نے ڈاک سے مرحمت فرمایا
برعظیم کی ملی تحریکات کے تناظر میں ایک تجزیاتی مطالعہ …….
محمد سلیمان اشرف بہاری اور دو قومی نظریہ
………………………………
پاکستان میں دو طرح کی ادبی تحقیق سے ہمارا واسطہ ہے ….ایک سندی تحقیق اور دوسری غیر سندی یا آزاد تحقیق ……
آزاد تحقیق کرنے والے جن لو گوں نے پتہ ماری کی ہے اور اپنے شوق اورلگن سے کام کیا ہے .ان کے کام مثالی ہیں …..محمد احمد ترازی کی مزکورہ کتاب …..از دل خیزد بردل ریزد ….بن چکی ہے……..ایک آزاد تحقیق کی مثالیہ کتاب ….
سید محمد سلیمان اشرفی بہاری ….علی گٹرھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کےسربراہ کے طور پر آپ کی خدمات جاودانی ہیں ……اس نابغہ روزگار جید صاحب بصیرت نے ….دو قومی نظریہ …..کے زریعے مسلمانان ہند کو شعور وآگہی کا پیغام دینے اور ان میں جداگانہ مسلم تشخص کے احساس کو اجاگر کرنے کے لیے ….تاریخ ساز کردار ادا کیا جب برعظیم کے بٹرے بٹرے سیاسی رھنما (بشمول میرے قاید اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ) اور نامور علماء …..گاندھی کے رنگ میں رنگے ہندو مسلم اتحاد اور متحدہ قومیت کے گیت گا رہے تھے ………….اس ہیجانی اور طوفانی دور میں …سید زادے نے منارہ نور بن کر صراط مستقیم کو منزل مقصود بتایا ………………..
محمد احمد ترازی …..نے زمانوں کی دھند سے اپنی آزادانہ تحقیق سے لہو کے چراغ روشن کیے ہیں جب جامعات کے بزرجمہروں کی زبان , بت طناز کی طرح دغا دے چکی ہے اور ایک چپ کا چاقو ہر کسی کے حلق میں پیوست ہے ……یہ پالتو اور فالتو قلم گھسیٹے ادبی برہمن ………محمد احمد ترازی کی اس تحقیقی کاوش پر غور کریں تو ان کا دل ( اگر ضمیر کن فکاں زندہ ہیں ) تو اپنی جامعات میں مزکورہ مصنف کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی سند فضیلت دینے کو اپنی اپنی جامعات کے لیے باعث تفاخر سمجھیں گے ……..یہ دکھ کے لہجے میں لپٹی ہوی خوش بیانی لیے ایک گمنام طالب علم کی بے ساختہ راے ہے ………..
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ….علامہ جمیل احمد نعیمی ….ڈاکٹر شاہد حسن رضوی …..پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل شفیق ….اور پروفیسر دلاور خان کے علاوہ …میرے کرم فرما جبار مرزا کی وقیع تاثرات و آراء سے مزین …..جازب نظر …دیدہ زیب تحقیقی کتاب ….دارالنعمان پبلشرز .لاہور نے عکس ونوادرات کے ساتھ 446 صفحات میں پیش کی ہے ……….
میرے اختیار میں ہوتا تو بے نام اندیشوں کا زنگار کھرچ ڈالنے کے لیے تحقیق کے شناوران کو بالخصوص اور ہر نوجوان کو بالعموم تحفہ درویش پیش کرتا ………….دل کی اتھاہ گہرایوں سے اس شہکار تحقیقی کتاب پر ……اپنے غایبانہ کتاب دوست محمد احمد ترازی ……کو ہدیہ دل پیش کرتا ہوں ……
………………………………………………..
دوسری کتاب …..اسلام آباد سے میرے رحیم یار خان کے طالب علم کم اور دوست زیادہ …..پروفیسر ڈاکٹر نزر خلیق (…..اردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی کی روایت …..کے موضوع پر معرکہ خیز پی .ایچ .ڈی ……) نے بھجوای ہے …… 12 کے قریب ان کی کتابیں زیر اشاعت ابھی خواب گزیدہ ہیں …..
154 صفحات پر 200 روپے میں اب …..رسالے کو کتابی شکل میں لاے ہیں اور ……..
ابتہاج …..جریدے کی شکل میں لانے کا مزدہ جان فزا سنا رہے ہیں …..ان کے مطابق …..مجھے نہ تو اداروں کی گرانٹ کی ضرورت ہے اور نہ ان کی مجبوریوں کا سامنا ہے .اس لیے میں تو وہ پیش کروں گا جو معیار کے مطابق ہو ………
تحقیق کا اسلوب سادہ , برجستہ اور تخیل سے پاک ہوتا ہے ………..
ابتہاج……..کی تحقیقی کتابی سلسلے کا یہ پہلا شمارہ میی اور جون کا 5,6 نمبر ہے ……مندرجات قابل مطالعہ ہیں اور تحقیق کے نیے دریچوں کی دستک دیتے ہیں ….مجھے یقین ہے کہ ارباب دانش ان کی پزیرای فرمایں گے اور تازہ کار محققین …..خلیق سروسز (لمٹیڈ )مسعود پلازہ , خیابان سرسید ,راولپنڈی سے رابطہ استوار کریں گے اور چراغ سے چراغ جل اٹھیں گے …
……………………………………………………..
اخبار اردو …..
ماہنامہ ہے فی پرچہ 30 روپے میں ادارہ فروغ قومی زبان ..قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن حکومت پاکستان …اسلام آباد سے باقاعدہ شایع ہوتا ہے ……..اگرچہ سرکاری سرپرستی حاصل ہے مگر درباری کی مجبوری کم کم نظر آتی ہے ….. جون کے اس شمارے میں ….دفاتر میں اردو اور روشنی کے سفیر , کتاب کی تقریب رونمای کے علاوہ متعدد ادبی تقاریب ..تازہ کتب ورسایل پر تبصرے …سادہ اور رنگین 45 صفحات میں ادب کی رفتار پیما کا جایزہ اپنی جگہ خوش آییند ہے …….
مجھے اس عیدی ملنے پر خوشی ہوی اور مزید خوشی کی بشارت متوقع ہے ……..الحمد للہ
.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“