عید سے ایک رات پہلے: الحمدللہ رات 8بجے مبلغ پچیس ہزار کا بکرا خریدا، سب بچوں اور بیگم نے اِس نئے مہمان کے ساتھ سیلفیاں بنوائیں اور ٹی وی چینل کو واٹس ایپ کیں، دعا ہے کہ یہ تصویر جلد ٹی وی پر آن ائیر ہوجائے۔رات 9 بجے بکرے بیگم کو بیوٹی پارلر لے کر گیا، رش بہت تھا اس لیے ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے باوجود ناکام واپس آنا پڑا، رات ڈیڑھ بجے دوبارہ جاناپڑے گا۔10 بجے اپنے ‘ بچوں کے اور بیگم کے کپڑے استری کیے۔ارادہ تھا کہ کل عید کے دن کاٹن کا نیا سوٹ پہنوں گا لیکن مائع نہ لگی ہونے کی وجہ سے مایوسی رہی ‘ ویسے بھی بیگم کا اصرار تھا کہ مجھے سسرال سے ملا ہوا کھدر کا سوٹ پہننا چاہیے، بہت سمجھایا کہ موسم شدید گرم ہے ‘ کھدر کا سوٹ پہننے سے پِت نکل سکتی ہے تاہم بیگم کی طرف سے دو کرارے جملے سننے کے بعد یہی سوٹ استری کیا۔11 بجے قصائی کو فون کیا اور 12 بجے دوپہرپہنچنے کی تاکید کی، پھوپھی حمیداں نے فون پر بکرے کی مبارکباد دی اور بکرے کی آوا ز سننے کی فرمائش کی، مجبوراً سوئے ہوئے بکرے کی ران میں زورسے چٹکی کاٹی، بکرے کی آواز سن کر پھوپھی نے خدشہ ظاہر کیا کہ بکرے کی آواز میں غراہٹ کا پہلو نمایاں ہے لہذا تصدیق کرلی جائے کہ یہ واقعی بکرا ہے یا بھیڑیے کو رنگ کیا ہوا ہے۔احتیاطا بکرے کو سوئی چبھوئی گئی، اب کی بار جو آواز نکلی اس سے پھوپھی کو اطمینان نصیب ہوا۔ساڑھے گیارہ بجے سسرال سے بڑی سالی کا فون آیا ،بیگم سے بات ہوئی ، فون ختم ہوتے ہی بیگم نے 17 منٹ کی لڑائی فرمائی اور طعنہ دیا کہ باجی رشیدہ کے شوہر 19 ہزار کاہٹا کٹا بکرا لائے ہیں اور ایک آپ ہیں کہ پچیس ہزار کا سنگل پسلی بکرا خرید لائے ہیں، اس موقع پر باجی رشیدہ کے شوہر کی عقلمندی کو سراہا گیا اور دلائل سے ثابت کیا گیا کہ میں ایک ڈنگر ہوں۔ٹھیک بارہ بجے جیسے ہی بچے سونے کے لیے لیٹے انہیںیاد آیا کہ وہ تو بھوکے ہیں۔گھرمیں چونکہ ٹینڈے گوشت، دال ماش، انڈے ڈبل روٹی اوردال چاول موجود تھے لہذا بازار سے شوارمے لانے پڑے۔ اللہ کا شکر ہے چاند رات کی وجہ سے بازار کھلا ہوا تھا۔ساڑھے بارہ بجے بیگم نے لسٹ بنانی شروع کی کہ کس کس کے گھر گوشت بھجوانا ہے، پچھلی دفعہ جن کے گھرہماری طرف سے گوشت گیا تھا لیکن ان کی طرف سے نہیں آیا تھا وہ گھر لسٹ میں شامل نہیں کیے گئے، لسٹ میں ہر مستحق کو شامل کیا گیا مثلاً سالے ‘ سالیاں‘ ساس سُسر‘ بیگم کی خالہ‘ بیگم کی چاچی‘ بیگم کی مامی‘ بیگم کی تائی وغیرہ۔۔۔!!! رات ایک بجے انکشاف ہوا کہ کل کے لیے چائے کی پتی ختم ہے، طے پایا کہ صبح سویرے سب سے پہلے بیگم کے پتی ،چائے کی پتی لائیں گے۔اسی دوران چھت کے پنکھے صاف کیے ، فریج دھویا اورمنہ دھویا۔ڈیڑھ بجے بیگم کو دوبارہ بیوٹی پارلرلے کر گیا، اب کی بار قسمت نے یاوری کی اور کام بن گیا، سوا گھنٹے تک بیوٹی پارلر کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھ کر موبائل میں سانپ والی گیم کھیلی اور لگ بھگ پونے تین بجے گھر واپسی ہوئی۔گھر آتے ہی بیگم نے غصے سے ڈانٹا کہ اب سو بھی جائیں صبح عید کی نماز بھی پڑھنی ہے۔
عید کا دن : صبح چھ بجے انتہائی مزے کی نیند آئی‘ جونہی آنکھیں بند ہوئیں موبائل کا الارم بجنے لگا‘ نیند کے عالم میں موبائل بند کرنے کی کوشش کی تو اچانک ٹھاہ کی آواز آئی، معلوم ہوا کہ موبائل گر گیا ہے، بجلی کی سی تیزی سے بستر سے چھلانگ لگائی اور جلدی سے موبائل اٹھا کر دھڑکتے دل سے اس کا جائزہ لیا‘ الحمدللہ ، گلاس پروٹیکٹر کی وجہ سے موبائل ٹوٹنے سے محفوظ رہا۔6 بج کر 15 منٹ پر بچوں کو زبردستی نماز کے لیے اٹھایا اور خود تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گیا، بچے وضو کرکے واپس آئے تو واپسی پر انہوں نے مجھے زبردستی نیند سے اٹھایا۔ساڑھے چھ بجے نئے کپڑے پہن کر عید کی نماز کے لیے روانہ ہوئے، آدھے راستے میں پتا چلا کہ ساتھ کوئی چادر لانا بھول گئے ہیں، واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے، جلدی میں کوئی چادر نہ ملی تو ڈائننگ ٹیبل کی پلاسٹک شیٹ ہی کھینچ لی۔6 بجکر 45 منٹ پر مسجد پہنچے، مولوی صاحب جمہوریت کے نقصان پر لرزہ خیز بیان ارشاد فرما رہے تھے، ہم سب نے جوتیاں اتار لیں۔۔۔اور نہایت حفاظت سے ایک طرف رکھ دیں۔7 بجے نماز شروع ہوئی، اگلے نمازی کی نقل مارکے پڑھی اور پورا دھیان رکھا کہ ہر تکبیر پر تھوڑا انتظار کیاجائے تاکہ غلطی کا احتمال نہ رہے۔7 بج کر 15 منٹ پر بچوں اور ہمسائیوں سے عید ملی، گرمی کی وجہ سے تین دفعہ عید ملنے کی بجائے تھوڑے فاصلے سے ایک ہی دفعہ گلے لگنے کا اشارہ کیا۔پسینہ صاف کیا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے، 7 بج کر 45 منٹ پر گھر کے قریب پہنچے ہی تھے کہ یاد آیا کہ عید کی نماز کے بعد دوسرے راستے سے گھر واپس آنے کا زیادہ ثواب ملتا ہے، سو فوری طور پر دوبارہ مسجد پہنچے اورگھر آنے کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا جو لگ بھگ 2 کلومیٹر لمبا پڑا، گرتے پڑتے گھر پہنچے اور آتے ہی عید کے کپڑے اتار کر کچھا بنیان پہن کر سکون محسوس کیا۔9 بجے چائے کی پتی خریدی، ناشتہ کیا اور کمرسیدھی کرنے کے لیے بستر پرلیٹ گیا۔آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ12 بج چکے ہیں اور قصائی آچکا ہے، جلدی سے منہ پر چھینٹے مارے اور بکرے کو رسی سے کھول کر قصائی کے آگے پیش کیا۔ڈیڑھ بجے تک قصائی نے گوشت بنایا اور پیسے لے کر روانہ ہوا۔بیگم کے ساتھ مل کر گوشت کے حصے کیے، غریب رشتے داروں کے لیے خاص طور پر بڑا حصہ رکھا گیا جس میں اوجڑی اور آندریں شامل تھیں۔ پائے اور رانیں برے وقت کے لیے سنبھال لی گئیں۔ 2 بجے سُسر صاحب کا فون آیا کہ کھال ن لیگ کو دی جائے، تاہم جب انہیں بتایا گیا کہ وہ کھال لیتے نہیں اتارتے ہیں تو آگے سے فون بند ہوگیا۔ بیگم کا خیال تھا کہ شوکت خانم کو کھال دینی چاہیے تاکہ یہ پیسہ آگے آف شور کمپنیوں میں انوسٹ ہوسکے ، کراچی سے ماموں کا فون آیا کہ کھال ایم کیو ایم کو بھجوا دیں ،تاہم ایم کیو ایم کو فون کیاتو پتا چلا کہ اس بار وہ بھوکے مر جائیں گے لیکن کھالیں ہرگزنہیں لیں گے‘ مجبوراً مقامی مسجد میں کھال جمع کرانی پڑی۔4 بجے دوبارہ عید کے کپڑے پہنے اورگوشت بانٹنے کا سلسلہ شروع کیا جو رات آٹھ بجے تک جاری رہا، اس دوران گھر کے دروازے پر گوشت مانگنے والوں کی لائن لگی رہی جنہیں یہ کہہ کر ٹرخایا جاتا رہا کہ گوشت ختم ہوگیا ہے۔رات آٹھ بجے پورا بدن درد کر رہا تھا، ایسے میں بچوں نے فرمائش کی کہ انہیں گاڑی پر سیر کرائی جائے۔بیگم سے التجا کی تو کہنے لگیں ، کوئی حرج نہیں، عید کا دن ہے آج تو انجوائے کرناچاہیے۔ مجبوری تھی لہذا زبردستی انجوائے کرنے کے لیے بیگم اور بچوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوا۔ راستے میں بدترین ٹریفک جام تھی، 10 بجے جھولوں والے پارک میں پہنچے، بچوں نے ڈاجنگ کار پر بیٹھنے کی فرمائش کی، ایک گھنٹہ گرمی اور حبس میں قطار میں کھڑا رہ کر باری آئی، بچے اور بیگم اس دوران کون آئس کریم کھاتے رہے۔ رات 12 بجے واپسی ہوئی، سر میں شدید درد تھی، جسم ٹوٹ رہا تھا، دانت برش کرتے کرتے ہی نیند آگئی۔۔۔وہ تو جب اچانک ٹونٹی سے ٹکرایا تو زوردار چیخ بلند ہوئی اور ہوش آیا۔۔۔سر پہ ٹکور کی اور بستر پر لیٹ گیا۔۔۔اسی دوران فون کی گھنٹی بجی اور سکرین پر بیگم کی خالہ کا میسج لکھا آیا’’کیا آپ لوگ گھر پر ہی ہیں؟‘ ‘۔۔۔پورے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی‘ جواب دینے کی بجائے اپنا فون بند کیا۔۔۔اورچپکے سے بیگم کا فون بھی آف کردیا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“