اُس نے کہا تھا مجھے چھوڑنے یا لینے ائیر پورٹ مت آنا ۔۔ میں نے اس کی بات مان لی تھی لیکن میرا دل بجھ گیا تھا ۔۔۔ وہ جا رہا تھا ۔۔۔۔
میں اس کے سامنے تو نہیں لیکن اس کے جانے کے بعد مسلسل روئی ۔۔ گھُٹتی رہی ۔۔ اور گھُلتی رہی
لیکن آج ۔۔۔ اس کو جانا نہیں تھا ، آج تو اس نے آنا تھا ۔۔۔
لمحہ لمحہ میں اس کے آنے کی خوشی سے سارا گھر نہال ہوا جا رہا تھا ۔۔
میں نے اچھے سے بالوں کی کٹنگ کرائی ۔۔۔۔۔ پھر، اُن کو خوبصورت سا ڈائی کیا ۔۔ کہیں اس کو یہ نہ لگے کہ یہ میں ُاس کی غیر موجودگی میں کیسی بُڈھی ہو گئی ۔۔۔
میں نے اپنے بہترین کپڑے پہنے چوڑی بالی جیسی جن سجاوٹوں سے میں ایک مدت سے بے نیاز ہو چکی تھی بچوں سے چھپ چھپا کر ان کو بھی پہن لیا ۔۔ لیکن میری بیٹی مجھے بڑے پیار سے دیکھ رہی تھی اپنے ترتیل سے ہنس کر بولی
"ذرا امی کی طرف دیکھنا ۔۔ کتنی تیاریوں میں ہیں ۔۔۔ آج اِن کا بوائے فرینڈ آ رہا ہے نا "
وہ زور سے ہنسی
بہت پیاری لگ رہی ہو اماں ۔۔ ہمارے لیئے بھی ایسے ہی پیاری بن کر رہا کرو نا ۔۔۔۔ ترتیل نے فرمائش کی ۔۔۔
وہ بھی ہنس رہا تھا
"ہٹو پاگل کہیں کے" میں نے ہنستے ہوئے دونوں کو ڈانٹا تھا ۔۔
وہ مسلسل ہنس رہے تھے ۔۔۔ بول رہے تھے ۔۔۔ گھر میں انتظار کے ستارے جل بجھ رہے تھے ۔۔۔
ڈور بیل بجنے کا انتظار نہیں تھا ۔۔۔ گیٹ کھلا پڑا تھا اور پھر میں نے یکدم اس کا آنا محسوس کر لیا اور گھر کا اندرونی دروازہ کھول دیا ۔۔
وہ سورج کے جیسا جھلملاتا ہوا گیٹ کے اندر داخل ہورہا تھا ۔۔۔ اپنے آٹیچی کیس کو اس کے ویلز پر کھینچتا ہوا ۔۔۔ چند گز کا فاصلہ طویل ہوا جا رہا تھا ۔۔۔ لیکن پھر
وہ روشن چہرہ ۔۔۔ ہنستا ہوا گھر کے اندر آ چکا تھا ۔۔ سب سے پہلے وہ مُجھی سے گلے لگا ۔۔ میرے آنسو ہی نہیں تھمتے تھے ۔۔۔
"امی خوشی میں کون روتا ہے ۔۔۔ " اس نے میرے آنسو میرے ہی دوپٹے سے خشک کردیئے ۔۔
میرا پردیسی بیٹا جانے کتنے سالوں بعد گھر آیا تھا ۔۔۔
میں اسے اپنے بہن بھائی اور بھانجی فزا سے ہنستے باتیں کرتے ہوئے دیکھے چلی جا رہی تھی ۔۔۔
اماں بہت ساری چیزیں لایا ہوں آپ کے لیئے ۔۔۔ میرا تبریز بڑے مزے سے میرے پاس پلنگ پر بیٹھا کسی خوبصورت خواب جیسا لگ رہا تھا ۔۔
آج عید ہے ۔۔۔
پھر مجھے یقین آ گیا کہ آج ہی عید ہے ۔۔ کیوں کہ جب سے میرا چاند پردیسی ہو گیا تھا میرے لیئے تو عید کبھی عید کے دن بھی نہیں آئی تھی ۔۔
جتنے دن وہ ٹھہرا رہا ۔۔۔ عید ہمارے گھر سے کہیں نہیں گئی ۔۔۔
ہر دن عید کا دن تھا ۔۔
وہ کھانا نہیں بنانے دیتا تھا ۔۔
" اماں وہاں ایک دن بھی عیاشی نہیں کی ۔۔۔۔۔ میں نے سوچا تھا جب گھر جاؤں گا اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مل کر عیاشیاں کروں گا ۔۔ اس نے کچن کا راستہ بھلا دیا اورایک نا سنی ہم بہترین ہوٹلز میں کھانے کھاتے رہے ۔۔ گھر میں کچھ بنانا ہے تو آلو میتھی بناؤ اماں ۔۔ وہ کھاؤں گا ۔۔ یا میں خود کھانا بنا کر کھلاؤں گا ۔۔ اس نے سارے گھر والوں کو خوشیوں سے مالا مال کر دیا تھا ۔۔۔ ہم نے مل کر مزے مزے کے بہت سارے کھانے بنائے اور اس کی واپسی کے لیئے بھی خوب ساری شاپنگ کی تھی ۔ اس بار اس کی ننھی سی بیٹی زارا اور اس کی ماں کے لیئے بہت سے پیارے پیارے ڈریسز اور ضرورت کی چیزیں لیں
میرے گھر میں وہ سارے دن عید کے دن بن کر ہی آئے تھے ۔۔ جتنے دن بھی وہ پاکستان میں رہا ہر دن عید تھی ۔
لیکن پھر ۔۔۔
اس کی واپسی کا دن آ گیا تھا
بس
پھر ۔۔۔۔۔
عید واپس چلی گئی ۔۔۔
اور اب
نہ جانے کتنے سالوں کے بعد میرے گھر عید آئے ۔۔۔
جانے اس عید کا انتظار مجھ سے ہو گا بھی ۔۔۔ کہ نہیں ۔۔۔
آج پھر لوگ کہہ رہے ہیں کہ عید آئی ہے ۔۔۔ کہنے دو
اس برس تو پردیس میں عید کے دو دو چاند نکلے ہوں گے چھوٹا ترتیل بھی اپنی پڑھائی کے سلسلے میں ایمسٹرڈیم میں ہے ۔ میرے گھر میں تو ابھی تک عید کا ایک بھی چاند نہیں اُترا ۔