عید کی خوشیاں ۔
آج بیگم صاحبہ مسلمان کرنے کے لیے عید کی نماز پر لے گئیں ۔ وہاں اپنے mayor سے ملاقات ہو گئ ۔ اُس نے ہم سب سے بہت مشکل سوال پوچھ لیا ۔ اس نے کہا کہ آپ کا چاند والا معاملہ بہت عجیب ہے ۔ کل شام تک میرا اسٹاف کنفرم نہیں تھا کہ عید جمعہ کو ہے یا ہفتہ کو ۔ مزید پو چھنے لگے چاند کا دیکھا جانا ضروری ہے یا سائنسی حساب سے ثابت ہو جانا ۔ جیسے کہ میرا moon app اس وقت چاند کی عمر دو دن بتا رہا ہے ۔ ہم میں سے کسی نے بھی گورے کو ناراض کرنا مناسب نہیں سمجھا لہٰزا ہنس دیے ۔ کیونکہ دلائل دینے میں تو پتہ نہیں کتنے دن لگ جاتے ۔ اُس کے فورا بعد اس نے کہا کہ آجکل آپ لوگوں کے لیے امریکہ میں کچھ مشکلات ہیں ۔ جن کا مجھے بخوبی علم ہے ۔ میں ، میرا دفتر اور میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے ۔ Mayor نے ایک سادہ سی T پہننی ہوئ تھی ۔ پارک میں جہاں عید کی نماز پڑھائ جا رہی تھی بہت ٹھنڈی سردیوں جیسی ہوا چل رہی تھی ۔ بہت خوبصورت منظر ۔ اتنے سارے لوگ ہر عمر کہ اکٹھے ۔ پیار اور محبت کے جزبات میں مگن ۔ تو پھر یہ نفرتیں اور لیڈری کہاں سے آ گئ؟
آجکل میں ایک بہت دلچسپ ناول پڑھ رہا ہوں ۔ بل کلنٹن اور جیف پیٹرسن نے لکھا ہے ۔
The President is missing
کل میں ایک یمن میں دہشتگردوں کی کہانی پڑھ رہا تھا کہ اُن میں جو زیادہ خطرناک ہوتا ہے وہ پانچ بچے دو سال سے بارہ سال کہ شیلڈ کے طور پر استمعال کرتا ہے ۔ امریکی صدر حملہ کی اجازت دینے سے ہچکچاتا ہے ۔ کہ ان بچوں کا کیا قصور ہے اور چھوٹی بچی کا نام سلمی ہے جس کا مطلب ہی lady Love ہے ۔ اس کے مشیر نہیں مانتے کہ یہی موقع ہے اس کو مارنے کا اور وہ بھی تو ہماری سویلین آبادی کو مارتے ہیں ۔ صدر نے کہا تو ہم بھی ایسا کریں ؟ مشیر نے پھر کہا کرنا پڑے گا ۔ صدر نے کہا کہ میں رب کو کیا جواب دوں گا کہ میرے ایک آرڈر سے پانچ بے گناہ معصوم بچوں کی جانیں چلی گئیں ؟ آخر صدر صاحب کو آرڈر دینا پڑا اور دل میں سوچا آپریشن کامیاب نہ ہی ہو ۔ صبح چیف آف سٹاف سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ وہ سب راکھ کا ڈھیر ہو گئے ۔ یہ وحشت و بربریت دونوں طرف سے کب ختم ہو گی ؟۔
نئ بندوق تو دو سیکنڈ میں پانچ راؤنڈ فائر کرتی ہے ۔ اور دو منٹ میں پیچ کس سے ری لوڈ ہو کر پھر تیار ۔
پاکستانی لیڈر عید اپنوں میں منانا ہی نہیں پسند کرتے ۔ اوئے گنجے کے نعرے نہ پڑیں اور پھر مشکل ہو جاتا ہے لوگوں کو بھوکا مارنا ۔ عید کا باقی اسلامی تہواروں اور عبادات کی طرح ، ہماری کالی کرتوتوں نے مقصد ہی ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔ بس ایک رسم ہے ۔ میں نے اپنے بیٹے سے پوچھا تم نے والدہ کے ساتھ عید کیوں نہیں منائ ، اس نے کہا میں نے پرسوں منا لی تھی ۔ گلے ملنا تھا ، پیار کرنا تھا ، کر لیا ، انہوں نے ہی مجھے ایرپورٹ پر فلوریڈا کے لیے چھوڑا ۔ میری والدہ جب حیات تھیں ، عید اُن کے ساتھ گزارنا نہ صرف فرض تھا ، ایک عبادت تھی ، ایک سلسلہ تھا ۔
کل میں نے لاہور ایک لڑکی سے پُوچھا تم مہندی لگاؤ گی اُس نے کہا مجھے دوسرے کہ ہاتھوں میں مہندی بہت اچھی لگتی ہے ۔ میں ویسے ہی ٹھیک ہوں ۔ کون چھین کہ لے گیا ہماری خوشیاں ؟ کیوں ہم بجھ گئے ہیں ، اداس ہیں ، غمگین ہیں ؟
آج درختوں کا رقص دیکھ کر مجھے اپنے ہونے کا دلکش سہارا مل گیا ۔ نیو جرسی کو garden state کہتے ہیں ۔ میں کوئ چھ مہینے ریاست واشنگٹن میں رہا جسے evergreen state کہا جاتا ہے ۔ میں اس قدر سبزہ اور سردی میں ان درختوں کا حصہ بنا بہت پسند کرتا ہوں ۔ مر جاتا ہوں اس ہریالی کی محبت اور عشق میں ۔ دل بہل جاتا ہے ۔ روح منور ہو جاتی ہے ۔
میری بیٹی کے سسرال نے کسی پارک میں ہی عید مِلن بار بی کیو رکھا ہے ۔ عید مِلن بھی ہو جائے گا اور درختوں سے پیار بھی ۔ کاش بلی کو بھی ساتھ لے جاتا ، وہ اندر ہی اپنی اداکاریوں میں مگن رہتی ہے ۔ یہی میری عید ہے ۔ یہی میری کائنات ہے ۔ آپ سب کو بھی بہت بہت عید مبارک ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔