الله تعالٰی نے روزہ دار بندوں کو خوشی منانے کے لیے ایک مہینہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد پہلی شوال کو خوشیوں کے اظہار کی خاطر عید کا دن بنایا ہے۔ اس دن تمام مسلمان روزہ دار اللہ تعالی کے مہمان ہوتے ہیں۔ جنھیں اللہ تعالی اچھی سے اچھی چیزیں کھلاتے ہیں، اس دن کسی کو بھی روزہ رکھنے کی شریعت کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص روزہ رکھ لے تو نہ صرف یہ کہ اس کا روزہ ادا نہیں ہوگا۔ بلکہ الله تعالٰی کے حکم سے روگردانی اور اس کی مہمانی سے عملاً انکار کی وجہ سے نیکی برباد۔ اور گناہ لازم۔ کا مورد ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے کہ ہر قوم کے لیے ایک دن خوشی کا ہوتا ہے۔ الله تعالٰی نے سال میں عید اور بقرعید کا دن ہم مسلمانوں کے لیے خوشی منانے کے واسطے بنایا ہے۔
مگر الله تعالٰی کی جانب سے خوشی منانے کا ایسا فطری اور جائز طریقہ ہمیں عطا فرمایا ہے کہ اس میں نہ تو ڈھول باجا ہوتا ہے۔ نہ ناچ رنگ ہوتا ہے۔ نہ کسی کی دلآزاری۔ نہ کوئی حرام کام۔ بلکہ سب لوگ اس دن الله تعالٰی کی بڑائی بیان کرتے ہوئے اپنے سب سے اچھے لباس میں باوضو ہوکر خوشبو بکھیرتے ہوۓ صبح صبح نکلتے ہیں۔ جن کی تکبیر کی بھنبھناہٹ سے گلی کوچے اور راستے کے درو دیوار لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے قافلے کا ایک لمبا اور خوش نما سلسلہ ہے۔ جن سے الله تعالٰی کے فرشتے ہر موڑ اور ہر نکڑ پر مل رہے ہیں اور انھیں عید کی مبارک باد پیش کررہے ہیں۔
آج آسمان پر ان متقی اور جفاکش روزہ داروں کے لیے انعام کی تقسیم کا دن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور الله تعالٰی فرشتوں کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ میں نے اپنے غلاموں اور باندیوں کو ان کے روزوں اور تراویح کی وجہ سے بخش دیا۔ یہی اصل خوشی ہے جو عید کی روح اور اس کی جان ہے۔
“