کئی سال سے بار بار میں نے عاجزانہ رائے دی کہ عیدالاضحیٰ کے تہوار کو اگر مسلمان نظم و ضبط اور انتظام کیساتھ منائیں تو کاروبار بھی Generate ہوگا ، غریبوں تک گوشت بھی پہنچ جائیگا اور گندگی بھی نہیں ہوگی اور بہت سا روزگار بھی پیدا ہوگا – یہ تھریڈ عیدالاضحی پر ہے ۔
قربانی کے موقع پر برصغیر کے جن تین ملکوں کے مسلمانوں (بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش) میں طوفان بدتمیزی پائ جاتی ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اب جب کرونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئ ہے تو اور بھی احتیاط لازم ہے ۔
عرض صرف اتنی ہے کہ اگر Food Industry کی صنعت سے وابستہ لوگ feasibility report مرتب کریں باقاعدہ سوچ بچار کے بعد اور مویشیوں کے تاجروں اور قصابان کو بھی onboard لیں اور چمڑے کی صنعت سے وابستہ لوگ اور حکومت بھی ساتھ ہو تو ایسا نظام آسکتا ہے جو بہت سود مند ہوگا
تمام بڑے شہروں میں شہر سے باہر “مویشیوں” کی منڈی لگائ جائے اور وہیں ساتھ ہی مذبح خانے بنائے جائیں اور وہیں بنکوں کی برانچیں قائم کی جائیں کہ مویشیوں کے تاجر وہیں آئیں وہیں کاروبار کریں اور جو قیمت ملے تو اسکو وہیں سے گھر کو منی آرڈر کریں
لوگ عید کے موقع پر انہی جگہوں پر آئیں ، جانور خریدیں وہیں ادائیگی کریں وہیں مذبح خانے میں ذبح کروائیں اور وہیں پیکنگ کروائیں (زرا سوچیں کتنا کاروبار اور روزگار پیدا ہوگا) – اور وہیں جانوروں کی آلائش و کھالوں سے متعلق صنعت کے لوگ بھی ہوں گند پھیلنے سے رک جائیگا
وہیں مویشیوں کے طبیب اور انکے چارے سے متعلق لوگ ہوں اور وہیں جو بیچارے دور دراز سے مویشیوں کے تاجر آتے ہوں انکے ٹہر نے کا انتظام ہو تو سوچیں تو ! کتنے لوگوں کا روزگار Generate ہوگا اور قربانی کے بعد صفائ ستھرائ میں بلدیہ کے اداروں کو کتنی آسانی ہوگی
جو مویشیوں کے تاجر حضرات دور دراز علاقوں سے آتے ہیں وہ تہوار کے بعد اکثر چوروں و ڈاکوؤں کے ہاتھ واپسی پر لٹ جاتے ہیں تو وہاں بینکوں کی موجودگی سے وہ اپنے گھروں کو رقوم منی آرڈر کرسکتے ہیں تاکہ ان بیچاروں پر رحم ہو وہ لٹ نہ جائیں
اکثر پاکستانی حضرات جو صدیوں سے دارالکفر (مغرب و امریکہ) میں مقیم ہیں مگر قربانی یہاں کرنا چاہتے ہیں تو وہ اگر چاہیں تو انہی منڈیوں میں قائم کمپنیز کو باہر سے رقم اور آرڈر دیں اور اپنی قربانی کے گوشت کو وہیں موجود اداروں کے زریعے تقسیم کروائیں ۔
اور پاکستان میں بھی کئ متمول صاحب حیثیت حضرات ایسے ہیں جو ضعیف ہیں یا انکے گھر میں خواتین ہیں اور قربانی بھی کرنا چاہتے ہیں اور کوئ جوان مرد انکے گھر میں نہیں جو یہ سب کرے تو ایسے لوگوں کو اس نظام سے فائدہ ہوگا ۔ ملازمین پر یہ کام نہ چھوڑا جاوے !
ایسی مویشی منڈیوں سے عید کے بعد بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ ایسی منڈیوں کے اطراف میں باقاعدہ قانونی سازی کے تحت آبادی یا رہائشی علاقے کبھی بھی قائم نہ کئے جائیں اور مویشیوں کیساتھ جو خوفناک بیماریاں آتی ہیں وہ اس قدم سے آبادی میں نہیں پھیلیں گی
زراعت و مویشیوں سے وابستہ دیہات کے لوگ مویشیوں کے متعلق زیادہ سمجھدار ہیں اور بہت ساری چیزوں سے immune ہوجاتے ہیں جبکہ شہروں میں مقیم لوگ اس معاملے میں Nil بٹا سناٹا ہیں اور بچوں کو جانورں کو گھمانے کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں جو بہت risky ہے
یعنی شہر کے خواتین و حضرات کی غیر سنجیدگی کی انتہا ہے کہ لڑکیاں ، خواتین اور بچے “سانڈ”، “بکروں” کو ہوا کھلانے نکل پڑتے ہیں جبکہ اس میں تجربہ چاہئیے ہوتا ہے اگر پلٹ کر سینگ ماردے یا لاتیں چلادے تو خدانخواستہ جان بھی جاسکتی ہے ۔ ہمارے یہاں ہر چیز مذاق ہے ۔
اگر آپ تمام قربانی کی سنت ابراہیمی ادا کرنا چاہتے ہیں ضرور کیجیئے ۔ It’s a free will اور آپکا حق ہے مگر نبی کریم (صلعم) نے ایک اور اہم اصول بتایا ہے وہ یاد رکھیں “صفائ آدھا ایمان ہے” (صحیح مسلم) ۔ اور اب زرا عیدالاضحی کے موقع پر جو ہم کرتے ہیں اس کو سوچیں
راستے میں رکاوٹ ڈالنا ہی بہت بڑا گناہ جس سے عام چلنے والے کو تکلیف ہو تو قربانی کی سنت ابراہیمی کو سر کا بوجھ سمجھ کر نہ اتاریں بلکہ جیسا اس سنت کا نبی کریم (صلعم) کا اوپر بتایا گیا اصول ہے ویسے کریں ۔ شاہراہوں پر آلائش ، خون اور گند کا پھینکنا؟؟
جن اہلحدیث / سلفی بزرگ سے میں نے قرآن و حدیث کو سمجھا میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے کہ دروازے کی چوکھٹ پر قربانی کا کیا جانا اور خون بہانا تو ان بزرگ نے مجھے سمجھایا کہ “جہل ہے ، گندگی ہے، ضعیف الاعتقادی ہے” ، میں نے پوچھا کیسے تو انہوں نے تفصیل سے بتایا
بزرگ نے مجھے سمجھایا “کہ تقسیم سے قبل مسلمانوں میں بالعموم اور دلی والوں میں بالخصوص یہ باطل عقیدہ پایا جاتا تھا کہ جانور سال بھر پالو اور عید یا کسی اور موقع پر قربان کردو تو جو بلائیں گھر پر آرہی ہوتی ہیں وہ گوشت کی تقسیم کیساتھ دوسرے گھر چلی جاتی ہیں ۔
اور انہی سلفی / اہلحدیث عالم نے مجھے یہ بھی قرآن و حدیث سے سمجھایا کہ اگر کوئ غیر مسلم مستحق ہے تو اسکو بلاجھجھک قربانی کا گوشت دیں اور اتنا دیں کہ کم از کم تین وقت کا کھانا سیر ہوکر وہ اور اسکے گھر والے کھا سکیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...