احسان دانش ایک دبستان علم و ادب کا نام ہے۔ وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں۔ اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو، عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو اور معیار ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ہر جگہ اس لافانی ادیب کے افکار کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔
عالمی ادبیات کے عظیم شاعر،ادیب اور انشا پرداز حضرت احسان دانشؒ نے ۱۹۸۲ء میں عدم کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔اردو ادب کا یہ آفتاب جو ۱۸۹۲ء میں کاندھلہ، ضلع مظفر نگر (یو۔ پی) بھارت میں طلوع ہوا ۔ اور ۱۹۸۲ء کو وہ عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا ۔ اردو تنقید ،تحقیق اور تخلیق ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتہ اجل کے ہاتھوں زمین بوس ہو گئی۔لاہور میانی صاحب کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو ادب کے اس خورشید جہاں تاب کو نگل لیا، جو سات عشروں تک علم و ادب سے وابستہ افراد کے سروں پر سایہ فگن تھا۔ اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو ،عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو اور معیار ِ ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ،ہر جگہ اس لافانی ادیب کے افکار کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔تفہیم ادب کا کوئی بھی عکس ہو اس کے خدو خال دل و نگاہ کو مسخر کر لیتے ہیں۔ احسان دانش ؒ ایک دبستان ِ علم و ادب کا نام ہے وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں۔
احسان دانش کا پورا نام احسان الحق اور تخلص احسان، ادبی حلقوں میں احسان دانش کے نام سے معروف ہوئے۔ آپ کے والد قاضی دانش علی ایک درویش منش اور بلند کردار انسان تھے ۔احسان دانش نے کاندھلہ ضلع مظفر نگر میں اپنے نانا ابو علی شاہ کے یہاں پرورش پائی جو ایک غریب سپاہی تھے۔ ان کے انتقال پر ان کے والد قاضی دانش علی باغپت سے سکونت ترک کے کاندھلہ آ گئے ۔جب احسا ن نے ذرا ہوش سنبھالا تو ان کے والد نہر جمن شرقی میں کھدائی کروانے والے ٹھیکیاروں کے یہاں مزدوروںکے جماعت دار تھے اور جب کبھی جماعت داری نہ ملتی تو خود ’’ٹوکری پھاوڑے‘‘ لے کر کام کرتے۔وہ جس مکان کے بالائی حصے میں رہتے تھے آئے دن چھت میں سانپ رینگتے دکھائی دیتے ۔گھر میںکوئی لکڑی ،لوہے یا جست کا بکس نہ تھا اس لیے نئے اور دھلے ہوئے کپڑے ایک مٹکے میں بھرے رہتے اور عید تہوار کے موقع پر احسان کی والدہ وہی مَلے دَلے کپڑے سلوٹیں کھول کھول کر اسے پہنایا کرتی ۔غربت کے باعث ان کی والدہ محلے کی دوسری صاحب حیثیت عورتوں سے سینے کے لیے کپڑے اور پیسنے کے لیے اناج منگوا لیا کرتی تھیں۔دن بھر کپڑے سینا اور علی الصبح سے ہی چکی کی جاں گداز مشقت ان کا معمول سا بن گیا تھا۔یہ چکی ان کے سرہانے پڑی رہتی ۔جب کبھی ان کے گھر سالن نہ پکتا تو ان کی والدہ پانی میں بھگو کر روٹی کھلاتیں اور ساتھ ہی خود بھی کھاتیں۔
احسان دانش کو اردو ادب میں ایک انتہائی معتبر بزرگ انشا پردازی اور شاعر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی انشا پردازی کے بڑے دل کش نمونے ملتے ہیں وہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر کے استعمال میں بھی الفاظ کے انتخاب میں بے مثال قرینہ رکھتے تھے۔ان کی نثر میں بھی شعریت محسوس ہوتی ہے۔ وہ ایک مزدور شاعرکے طور پر جانے جاتے ہیں ۔وہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے لگے تھے۔’’جہان دانش‘‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے جو محض ایک سوانح ہی نہیں بل کہ اس پورے عہد کی دل چسپ اور حقیقت سے لبریز ہے جو ہمیں ایک تاریخی کتاب سے بڑھ کر ناول لگی ہے ۔احسان دانش کی آپ بیتی ’’جہان دانش‘‘ ۱۹۷۳ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔احسان دانش جب اپنے سمت ماضی کا دریچہ کھولتے ہیں تو ان کے سامنے حادثات کے سینکڑوں آئینے وا ہوتے نظر آتے ہیں ْ’’جہان دانش‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’ ہر چند کہ آپ بیتی لکھنا آسان کام نہیں ،اس کے لیے تندرست تصور ،جیالہ حافظہ اور تازہ دم قوتِ تخلیق درکار ہے ۔جو ہر شخص کا حصہ نہیں ،آپ بیتی لکھنے والا انسان ،ناول نویس یا افسانہ نگار کی طرح ادب تخلیق نہیں کرتا بل کہ ان کے جادۂ فکر سے ہٹ کر گزری ہوئی صداقتوں کو عصر حاضر میں اس طرح رفو کرتا ہے کہ سیون دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
احسان دانش جہاں اپنی کم علمی ،مزدوری اور نہایت کم تر ذرائع آمدنی کا برملا اظہار کرتے ہیں وہیں پر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ لوگ بھی دنیا میں چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوتے ہیں، وہ مایوس بالکل نہ ہوں بل کہ محنت اور مشقت کو اپنا شعار بنائیں۔ احسان دانش کی تعلیم کے متعلق ان کے والدین کے عزائم تو پہاڑوں سے بھی بلند و بالا تھے مگر افلاس کے موسم پر ارادے کی بنیاد بے اعتباری کی نذر ہو کر تہس نہس ہو جاتی ہے۔ ناسازگار ماحول ان کے آڑے آتا رہا۔ والد کی مالی حالت ناگفتہ بہ تھی۔احسان کو پہلے پہل قرآن خوانی کے لیے سید حافط محمد مصطفی کے سپرد کیا گیا جس سے بہت جلد احسان نماز روزے کے قابل ہو گئے تھے۔ فارسی بھی انھی سے سیکھی پھر اسے تحصیلی سکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں وہ چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے حالات کے باعث مزید تعلیم حاصل نہ کر پائے۔ چوتھی جماعت میں کامیابی کے بعد احسان اپنے ایک عزیز منشی محمود علی کے پاس جو کاندھلے میں محرر ضلع داری کرتے تھے ۔’’پتر ولی‘‘ سیکھنے لگے ۔احسان تمام دن ڈاک کے رجسٹروں میں آنے جانے والی چٹھیوں کی نقلیں کیا کرتے اور شام کو گھر آ جاتے ۔رفتہ رفتہ انھیں پنسال لکھنا ،شجر ے ملانااور آب و صنائع کا اندراج آ گیا۔مگر وہاں کوئی جگہ نہ نکل سکی اور گھر کی ضروریات کے تقاضوں نے دفتر چھوڑنے پر مجبور کردیا اور قاضی محمد ذکی کی صحبت میں شعر کہنے لگے۔
احسان دانش کوئی جاگیردار اور نواب نہ تھے بل کہ ایک عام سے شخص تھے جنھوں نے ایک غریب گرانے میں آنکھ کھولی اور پھر مفلسی اور غریبی کے ماحول میں پروان چڑھے۔انھوں نے نہر کے ٹھیکیداروں کے ساتھ مزدوری کی ،گرمیوں میں گیہوں کے کھیتوں میں فصل کی کٹائی کی،اینٹیں ڈھوئیں، گارا ڈھویا،رنگ گھوڑے کے ساز بنائے ،بکری پالی،بیوپاری کی ملازمت کی، مہاجن کی نوکری کی،دفتر کے چوکیدار بنے،نہر کے ٹھیکیداروں کی تنگ نظری سے تنگ آ کر شہر میں آ کر معماروں کے ساتھ مزدوری شروع کی اور ایک مثالی مزدور کے طور پر سامنے آئے۔لکھائی چھلائی کاکام کیا اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال کے دروازے پر سیمنٹ سے بنے ہوئے P۔U حرف میں احسان کا گرم خون شامل ہے لیکن ان حالات کے پیش نظر بھی احسان کے اندر ایک فنکار ہمیشہ اپنی آنکھیں کھولے چھپا رہا اور جب بھی موقع ملا باہر نکلنے کو بے تاب رہا اور زرا سی بھی دیر نہیںکی ،مگر ایک بات طے ہے کہ دولت کی کمی ہونے کے باوجود بھی احسان دانش کے پاس خود داری اور غیرت مندی کی دولت کبھی ختم نہ ہوئی بل کہ بڑھتی گئی۔
احسان کو امرتسرسے بز م شورش کا دعوت نامہ موصول ہوا جب آپ وہاں پہنچے تو ٹاؤن ہال کے باہر مشاعرے میں پہلے تو ان کی ہیئت کذائی سے انھیں شاعر ہی تسلیم نہ کیا گیا اور ہال کے اندر جانے سے روک دیا گیا ۔کسی کو بھی ان کے شاعر ہونے کا یقین نہ آیا اور سب نے مختلف انداز میں ایک ہی جواب دیا کہ یہ ہمیں بیوقوف بناتا ہے۔احسان جب شاعروں والے دروازے کی طرف گئے تو ایک نے دوسرے کو مخاطب کر کے کہا:
’’آپ سے ملاقات کیجئے ،آپ مشاعروں کی شرکت کے لیے اترے ہیں۔‘‘
پھر ڈاکٹر شفاعت علی کی مداخلت پر انھیں ہال میں جانے کی اجازت مل گئی۔ وجہ یہ تھی کہ احسان دانش کی کھدر کی شیروانی راستے میں لاریوں کی اڑتی گرد اور دھواں سے بھورے رنگ میں تبدیل ہو گئی تھی۔اب کہ ہال میں لوگوں کی پارٹیاں آ رہی تھیں اور لباس کی نمائش بھی باعث افتخار تھی۔ سٹیج سیکرٹری نے ناک بھوں چڑھا کر جب بادل ناخواستہ انھیں دعوت کلام دی تو حاضرین مشاعرہ نے ہوٹنگ شروع کر دی۔ترنم کے ساتھ مطلع سر زد ہونا تھا کہ حاضرین پر ایک سکتے کا عالم طاری ہو گیا اور دوسرے شعر پر داد و تحسین کے پھول برسنے لگے۔احسان دانش نے غزل ختم کی اور مقطع پڑھ کر وہیں زمین پر جا بیٹھے مجمع نے مکرر مکر رکے شور سے خلا کو بھر دیا تھا۔ سونے اور چاندی کے تمغوں اور بیس روپے نقد انعام کے علاوہ احسان دانش کو اس مشاعرے میں بزم شورش کی طرف سے ’’شاعر فطرت‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔
احسان دانش ایک طوائف شمعی سے عشق کرتے تھے ۔دونوں لڑکپن کے شناسا تھے۔دونوں کو ہی شعرو شاعری سے لگاؤ تھا۔شمعی بھی کبھی کبھی شعر کہہ لیتی تھی ۔یہ معاملہ محبت بھی بہت عجیب ہے۔ احسان کے والد کو جب شمعی اور احسان کے معاشقے کا علم ہوا تو انھوں نے کہا:
’’کہ فرض محال اگر وہ غلط راہ پر بھی ہے تو اس کا انجام اس کے ساتھ ہے ۔کسی کی بھی جوانی ہو ،دوسروں کے تجربوںپر کب تک اعتبار کرتی ہے؟ ٹھوکر کھا کر سنبھلنا ،سنبھل کر ٹھوکر کھا نے سے بہتر ہے۔‘‘
شمعی نے احسان دانش کے نام اپنے آخری خط میں یہ لکھ دیا تھا کہ:
’’ اسے اطمینان ہے کہ اب وہ فاحشہ نہیں اور دنیا کی تمام لذات سے تائب ہو چکی ہے۔‘‘
احسان دانش کے والد کا شت کاری کے بڑے حامی تھے انھوں نے ایک بنیے کی زمین میں بٹائی پر گیہوں بوئی،جب وہ کھیت سے گھاس نکالنے جاتے تو فراغت کے وقت اس کی والدہ بھی احسان کو وہیںبھیج دیتیں کہ جا کے اپنے ابا کے ساتھ گھاس اکھاڑو۔جب احسان دانش کے باپ محسوس کرتے کہ وہ تھکے ہوئے ہیںتو وہ انھیں زبر دستی گھر بھیج دیتے اور شام تک جو گھاس نکلتی اٹھا لاتے اور یہ گھاس گھر پر ہی اونے پونے دام پر بک جاتی۔
احسان دانش تاجروں اور سرمایہ دار طبقے کی بے انصافیوں کی مستقل مزاجی کی راہ میں کبھی حائل نہ ہوئے۔وہ ایک با ہمت اور باحوصلہ انسان تھے۔وہ کوٹ عبداللہ شاہ ،مزنگ لاہور کے جس مکان میں رہتے تھے وہ اس قدر بلندی پر تھاکہ وہاں سے قریب قریب تمام لاہور کا بالائی حصہ نظر آتا تھا۔جب ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء کی رات کو جب پاکستان عملی وجود میں آیا تو اس رات احسان دانش اپنے مکان کی چھت پر کھڑے فسادات کے سلسلے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔اس تقسیم کے ہنگامے میں سب سے زیادہ بے قدری کتابوں کی ہوئی ،اتنی کوئی چیز ذلیل نہیں ہوئی ،خود احسان دانش کی کتابیں اس کے کلمہ گو بھائی لوٹ کر لے گئے۔
احسان دانش کا مطالعہ خاصا وسیع معلوم ہوتا ہے ان کے سوچنے کا انداز تعمیری ہے جس سے ان کے قلم میں کاٹ ہے ۔ انھوں نے فطرت کی رنگینیوں اور رعنائیوں کو بڑے قریب سے دیکھا۔احسان دانش مزنگ لاہور میں گیلانی بک ڈپو میں بیس روپے ماہانہ پر ملازمت کرنے کے علاوہ لاہور کی ہیرا منڈی میں معاشی مجبوریوں میں طوائفوں کے خطوط لکھنے کے لیے ایک منشی کی حیثیت سے بیٹھا کرتے تھے لیکن وہ دل سے طوائفوں کی دی ہوئی اس آمدنی کو ناگوار محسوس کرتے تھے۔
احسان دانش کی تصانیف اور تالیفات میں بیس شعری مجموعے ہیں۔ انتیس مطبوعہ نثری ادب اور پانچ غیر مطبوعہ نثری ادب کے علاوہ پانچویں جماعت تک کے لیے ریاضی کی دس کتابیں شامل ہیں۔وہ ایک فقیر صفت ،سادہ اور علم دوست انسان تھے۔ان کا سب سے پہلا مجموعہ’’حدیث ادب‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔دوسرے شعری مجموعوں میں چراغاں ، آتش خاموش،جادۂ نو،شیرازہ،گورستان اور میراث مومن شامل ہیں۔ان کی خود نوشت سوانح ’’جہان دانش‘‘کے نام سے منصہ شہود پر آئی۔احسان دانش کی شاعری درج ذیل خوبیوں سے مالا مال ہے۔
جدید رنگ اردو:
احسان دانش کی غزل میں جدید و قدیم دونوں رنگ ملتے ہیں ۔سیاسی سماجی شعور بھی ہے اور جدید مسائل کی عکاسی بھی لیکن احسان دانش کے ہاں جدید رنگ اردو کے دوسرے شعرا کی نسبت زیادہ گہرا ہے۔
؎اس مشینی دور میں درکار ہیں پتھر کے جسم
کار خانوں کے دھوئیں میں حل ہوا جاتا ہوں میں
ڈوبے ہوئے ہیں دھند میں جنگل کے خدو خال
کوئی کس طرف سے تو سورج نکالیئے
عوام اور اصلاح انسانیت کا سبق:
احسان دانش نے اپنی غزل کے ذریعے بھی جا بجا عزم ،عمل ،اخلاق ،اصلاح انسانیت ،تعمیر اتحاد اور جدو جہد کا سبق دیا ہے۔
مذہب آئین سفر ہے اسے منزل نہ کر
اس کا مقصد نہیں مزاج شرافت کے سوا
کوئی اس دور میں وپ آئینے تقسیم کرے
جن میں باطن بھی نظر آتا ہو ظاہر کی طرح
جب آبلہ پا جوش میں کانٹوں پہ چلے ہیں
خاموش سلام آئے ہیں منزل کی طرف سے
عوامی شاعر:
احسان دانش کی شاعری عوامی شاعری کی اس روایت کی تجدید و ارتقا ہے جس کا اولین نقش نظیر اکبر آبادی کی شاعری تھی لیکن نظیر کی طرح احسان دانش صرف تماشائی نہیں بل کہ ان کی نظموں میں دل سوزی اور درد مندی کے گہرے نقش موجود ہیں ۔ حضرت احسان دانش کی شاعری مزدور اور کسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے نیز جاگیردار اور صنعت کار کے مظالم کا شعور بھی ہے۔
تصور غم:
احسان دانش کی شاعری زندہ دلی اور شگفتگی کی آئینہ دار نہیں بل کہ آہوں اور آنسوؤں سے لبریز ہے ۔اردو نظم میں احسان دانش کو وہ مقام حاصل ہے جو پریم چند کو اردو ناول میں ۔دکھی انسانیت کے مسائل کو نظم میں سمونے کے لیے انھوں نے انیسؔ کی جادو بیانی سے کام لے کر فکرو فن دونوں اعتبار سے اردو شاعری کو نئی رفعتوں سے آشنا کیا ہے۔
انقلابی شاعر:
احسان دانش بنیادی طور پر انقلابی شاعر ہے۔ان کی شاعری کا موضوع وہ مفلوک الحال طبقہ ہے جو ننگا اور بھوکا ہے جو جھونپڑی میں زندگی کی تلخیوں سے دوچار ہوتے ہوئے زندہ رہنے کی دھن میں سسک رہا ہے اور بے رحم سماج کے ہاتھوں زندہ درگور ہے۔احسان دانش ایسے تباہ حال اور پسے ہوئے لوگوں کے طبقے سے اس قدر قریب رہے ہیں کہ ان کے دھڑکتے دلوں کی آواز خوب سن سکتے ہیں۔
واقعات و مناظر کا ہو بہو پیش کرنا آپ کا امتیازی پیرایۂ بیان ہے ۔یہ تصویر کشی کے خدو خا ل بھی وہ ایک فنکارکی طرح کرتے ہیں اور تصویر کے خدو خال اس طرح نمایاں کرتے ہیں کہ ضرورت و خواہش کے مطابق اثر کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔اکثر اس اثر کو تیز کرنے کے لیے احسان دانش ایک بہت دل کش ،تمہید یا پس منظر دے کر مفلسی کی کوئی دل سوز تصویر پیش کرتے ہیں یا امیروں کی شان و شوکت کے مقابلے میں غریبوںکی بے کسی اور حرماں نصیبی دکھاتے ہیں یا کبھی فطرت کی مسرت بخش آغوش میں کسی مصیبت زدہ کو اس طرح دکھاتے ہیں کہ تمام کائنات رونے پر مجبور ہو جائے۔
رومان پروری:
حضرت احسان دانش نے دیگر موجودہ شعرا کی طرح رومانی نظمیں بھی کافی کہی ہیں ۔حسن و عشق کی دنیا میں ان کا انداز عجب والہانہ ہوتا ہے۔ شاعرانہ کیف و اثر میںڈوبے ہوئے اشعار ان کی رومانی نظموں میں بہت ملتے ہیں۔انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن ان غزلوں میں تغزل کم ہے ،ردیف ،قافیہ کی قید میں عاشقانہ نظمیں معلوم ہوتی ہیں۔کچھ گیت بھی لکھے ہیں لیکن وہی پرانی روش ہے۔امتیازی شان نہیں تا ہم ان کی غزلوں میں جذبات کی آئینہ داری اور جدید دور کی تلخیوں کا کرب موجود ہے۔
ترنم:
ترنم حضرت احسان دانش کے کلام کی جان ہے ۔حضرت احسان کو لطیف و نادر تشبیہات و استعارات کے استعمال پر بھی قدرت حاصل ہے اور بعض اچھوتی تشبیہات تو انھوں نے ایسی تلاش کی ہیں کہ دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے ۔احسان دانش کی زبان بڑی شگفتہ اور پاکیزہ ہے ۔وہ سیدھے سادھے مگر دل کش اور مانوس الفاظ استعمال کرتے ہیں جس سے زبان میں سلاست و صفائی پیدا ہو گئی ہے۔ان کے یہاں فارسیت کا غلبہ نہیں بل کہ انھوں نے فارسی تراکیب کا بڑا معتدل اور بر محل استعمال کر کے زبان کو بوجھل ہونے سے بچایا ہے۔
انسانی اقدار کا آئینہ:
بہر صورت احسان دانش کی شاعری زندگی اور اس کے شعور سے مالا مال ہے وہ اردو شاعری کی پوری روایت سے بھی کماحقہ آگاہ ہیں اور جدید فکرو شعور سے بھی آشنا ہے۔ان کا شمار بر صغیر کے چوٹی کے شعرا میں ہوتا ہے وہ کسی ہنگامی صورت حال یا مصلحت کو پیش نظر رکھ کر شاعری نہیں کرتے بل کہ ان کی شاعری ٹھوس انسانی اقدار کا آئینہ اور عوامی ادب کا جزو ہے۔انھوں نے کوئی نعرہ لگایا نہ کسی ہنگامی تحریک میں شامل ہو ئے۔وہ اپنے حیاتی و فکر ی جوہر سے آگے بڑھتے ہیں ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی زندگی اور انداز فکر دونوں ہم آہنگ ہیں۔اسی لیے ان کی تمام شاعری خلوص سے پُر ہے اور یہ ادب کی توانائی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
قلندری اور خود مختاری:
احسان دانش کے مزاج کی قلندری اور طبیعت کی خود مختاری امیروں کی قصیدہ خوانی اور رئیسوں کی مدح سرائی پہ کبھی مائل نہ ہوئی۔ان کی شاعری میں اخلاقی قدروں اور مشرقی روایات کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔دینی اور ملی احساس کے پردے میں وطن پرستی کے جذبات بھی جھلکتے ہیں ۔ان کے یہاں حمدو نعت کے مضامین بھی بڑے دل کش اور دلربا ہیں۔حسین عقیدت کا رنگ پر تاثیر اور پُر کیف ہے۔
؎آ جاؤ گے حالات کی زد پر جو کسی دن
ہوجائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
آب و گل میں مدتوں آرائشیں ہوتی رہیں
تب کہیں اک آدمی کونین کو حاصل ہوا
الفاظ و تراکیب:
حضرت احسان دانش کے کلام میں الفاظ اور تراکیب کی خوبصورتی اور دل کشی ایک خاص حیثیت رکھتی ہیں ۔ منظر نگاری کے باب میں لہجے کی سچائی اور بیان کی شگفتگی کا امتزاج حسن فطرت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ درج ذیل اشعار میں تراکیب اور منظر نگاری دیکھیں:
ناچتی پھرتی ہے شبنم کے ستاروں پر نسیم
چھا گئی ہے باغ پر پھولوں کی جاں پرور شمیم
سرخ مئے برسا رہا تھا شام کا رنگین شباب
جھلک رہا تھا دور کھیتوں کے کنارے آفتاب
آ چکی تھیں گا گریں پھر کر حسین پنہاریاں
اٹھ رہا تھا گاؤں کے کچے مکانوں سے دھواں
راستوں میں ظلمتوں کے سانپ بل کھانے لگے
مست چرواہے چراگاہوں سے گھر آنے لگے
احسان دانش کی شاعری میں محنت کش طبقے کی حالت نوحہئ غم سے عبارت اور نغمہئ شادی سے بے گانہ سہی، لیکن ان کی الم انگیز زندگی اپنے دامن میں کچھ ایسی خصوصیات بھی چھپائے ہوئے ہے جو اونچے طبقوں کی زندگی میں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ احسان جن مزدوروں کی تصویر کھینچتا ہے وہ اپنے غم والم کے باوجود اونچے طبقوں کی نگاہ رحم وکرم کے متمنی ہونے کے بجائے اپنی قوتِ بازو پر بھروسا کرنے والے ہیں۔ ان کی خوداری، ان کی غیرت مندی اورضمیر وایمان کی چمک مفلسی کے باوجود نیکی اور شرافت کے لیے ایسے ایسے جوہر اپنے اندر رکھتی ہے جو اعلیٰ تر انسانی معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہیں۔ ان کی غربت اور افلاس طبقاتی تمدن پر ایک دھبہ سہی؛ لیکن ان کی شرافت، پاکیزگی، نفس اور ضمیر اونچے طبقوں کی بے ضمیر زندگی پر ایک زبردست استز اد اور گہری طنز ہے۔ درج ذیل اشعار میں اسی مؤقف کو کس درد انگیز انداز میں بیان کیا ہے۔
کر سیوں سے اٹھ کر ان کے جھونپڑوں تک بھی تو آؤ
کیوں بلندی سے نہیں، پستی کی جانب کو بہاؤ
تابکے میلے شلوکوں میں سلگتے دل کے گھاؤ
کب بھڑک اٹھیں نہ جانے گرم سینوں کے الاؤ
’’جہان دانش‘‘ احسان دانش کی معرکۃ آلارا تصنیف ہے۔ یہ ان کی خودنوشت ہے جو ان کی زندگی میں پیش آنے والے حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ انداز بیان اس قدر اثر انگیز ہے کہ مطالعے کے دوران قاری کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ یہ خودنوشت دانش صاحب کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ ان کے شاگردوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ احسان دانش ایک صاحب احساس اور انسان دوست شخص تھے۔ انہوں نے زندگی کی تلخیوں کا زہر پیا تھا اور وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ دکھ کیا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ احسان دانش شاعر مزدور بھی کہلائے لیکن انہوں نے جس طمطراق سے رومانوی شاعری کی وہ حیرت انگیز ہے۔ افلاس کی چکی میں پسنے والا شخص لطیف جذبات کا کیسے حامل ہوسکتا ہے؟
یہاں’’جہان ِ دانش‘‘ کے اُسلوب کے حوالے سے کچھ اہم اہل ِ قلم کی آراء پیش کی جا رہی ہیں:٭غلام جیلانی برق لکھتے ہیں: ’’کتاب کی زُبان سلیس رواں اور فصیح ہے، آپ نے پاکستانی اُردو میں سیکڑوں الفاظ کا اضافہ کیا ہے ،جو کاندھلہ و نواح کاندھلہ سے مخصوص تھے اور جن سے ہمارے کان نا آشنا تھے‘‘۔ ٭اعجاز الحق قدسی کے بقول: ’’کتاب کا ہر ورق بصارت اور بصیرت کے دریچوں کو وَا کرتا ہے اور چشم ِ بصیرت کے لیے بہت سا سامان فراہم کرتا ہے‘‘ ۔٭سید ضمیر جعفری رقمطراز ہیں: ’’ سوانحی ادب میں لطافت و حکمت کا ایسا امتزاج کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ کتاب لکھ کر آپ نے اُردو زبان کے اُفق کو بھی وسیع کیا‘‘۔٭حمید احمد خان کا کہنا ہے: ’’ آپ نے اُردو سوانح میں سچائی اور صاف گوئی کی مثال قائم کردی نہ ریا کاری کا مبالغہ نہ وضع داری کی احتیاط بس ایک کھرے انسان کی زندگی کی کہانی، جس کی گونج دل میں دیر تک رہے گی‘‘۔٭ مرحبا رئیس امروہوی لکھتے ہیں :’’میَں نے کبھی کسی کی سوانح کو اتنی دلچسپی سے نہیں پڑھا ،جتنی موانت اور دلچسپی اور انشراح صدر کا احساس ’جہان ِدانش‘ میں ہوا ،یہ کتاب روشنائی سے نہیں ،روشنی سے لکھی گئی ہے‘‘۔