وہ صرف پانچ جماعتیں پڑھ سکے۔ پھر مزدوری کرنے لگے۔ پنجاب یونیورسٹی کی کسی عمارت کی تعمیر میں بھی اینٹیں ڈھوئیں۔
پھر اسی یونیورسٹی کے ممتحن بنے، اسی یونیورسٹی سے ان پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے۔
یہ تھے احسان دانش ۔۔۔
چند دن پہلے ان کا یومِ وفات آیا تو بہت کم یاد کیا گیا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی کتابیں اب کہیں نہیں ملتیں۔ ان کی اولاد نے یہ کتابیں خود چھاپیں نہ کسی ناشر کو حقوق دئیے۔ نئی نسل کا تعارف ہی نہیں ہوسکا۔
ایک زمانے میں احسان دانش مشاعروں کا لازمی حصہ ہوتے تھے۔ یہی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھا۔ اپنی کتابیں بھی ساتھہ لے جاتے تھے ، وہ بھی بک جاتیں۔
ایک مشاعرے کے بعد دوسرا مشاعرہ ۔۔۔۔ یہ اصول انہوں نے ہی وضع کیا کہ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد اس شہر نہیں رکنا۔ راتوں رات چل پڑتے۔
احسان دانش 1914 میں کاندھلہ میں پیدا ہوئے اور22مارچ 1982 کو لاہور میں وفات پائی۔
تصانیف
تذکیر و تانیث ۔
ابلاغِ دانش
تشریحِ غالب
آواز سے الفاظ تک
فصلِ سلاسل
زنجیرِ بحران
ابرِ نیسان
میراثِ مومن
اردو مترادفات
دردِ زندگی
حدیثِ ادب
لغت الاصلاح
نفیرِ فطرت
جہانِ دانش
جہانِ دیگر
احسان دانش کے کچھہ اشعار
قبر کے چوکٹھے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے
آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے
اور کچھہ دیر ستارو ٹھہرو
اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
بجز اس کے احسانؔ کو کیا سمجھئے
بہاروں میں کھویا ہوا اک شرابی
بلا سے کچھہ ہو ہم احسانؔ اپنی خو نہ چھوڑیں گے
ہمیشہ بے وفاؤں سے ملیں گے باوفا ہو کر
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا
دل کی شگفتگی کے ساتھہ راحت مے کدہ گئی
فرصت مے کشی تو ہے حسرت مے کشی نہیں
فسون شعر سے ہم اس مہ گریزاں کو
خلاؤں سے سر کاغذ اتار لائے ہیں
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
حسن کو دنیا کی آنکھوں سے نہ دیکھہ
اپنی اک طرز نظر ایجاد کر
کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام
تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
کچھہ اپنے ساز نفس کی نہ قدر کی تو نے
کہ اس رباب سے بہتر کوئی رباب نہ تھا
کچھہ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی
مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی
مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
بیٹھہ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو
مرنے والے فنا بھی پردہ ہے
اٹھہ سکے گر تو یہ حجاب اٹھا
نہ جانے محبت کا انجام کیا ہے
میں اب ہر تسلی سے گھبرا رہا ہوں
رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتا ہے غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
ستا لو مجھے زندگی میں ستا لو
کھلے گا پس مرگ احسان کیا تھا
شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک
سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو
جانتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے مرے حضور
میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا
اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا
یہ اجالوں کے جزیرے یہ سرابوں کے دیار
سحر و افسوں کے سوا جشن طرب کچھ بھی نہیں
احسانؔ ایسا تلخ جواب وفا ملا
ہم اس کے بعد پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں
احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے
ہاں آپ کو دیکھا تھا محبت سے ہمیں نے
جی سارے زمانے کے گنہ گار ہمیں تھے
خاک سے سیکڑوں اگے خورشید
ہے اندھیرا مگر چراغ تلے
کس کس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر
کس کس کی تباہی میں ترا ہاتھہ نہیں ہے
لوگ یوں دیکھہ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
میں جس رفتار سے طوفاں کی جانب بڑھتا جاتا ہوں
اسی رفتار سے نزدیک ساحل ہوتا جاتا ہے
تم سادہ مزاجی سے مٹے پھرتے ہو جس پر
وہ شخص تو دنیا میں کسی کا بھی نہیں ہے
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
یہ کون ہنس کے صحن چمن سے گزر گیا
اب تک ہیں پھول چاک گریباں کئے ہوئے
ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھہ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
احسانؔ ایسا تلخ جواب وفا ملا
ہم اس کے بعد پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں
احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے
ہاں آپ کو دیکھا تھا محبت سے ہمیں نے
جی سارے زمانے کے گنہ گار ہمیں تھے
دانش میں خوف مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز
میں جانتا ہوں موت ہے سنت حضورؐ کی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“