ناروے کی وزیر نے کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے پر اپنی غلطی پر نادم و شرمندہ ہو کر سب سے معافی مانگ لی۔
اس سے پہلے ایک خبر مشہور ہوئی تھی کہ جاپان کا وزیراعظم بیس منٹ تک عوام کے آ گے جھکا رہا۔ وجہ معلوم کرنے پر معلوم ہوا کہ کسی فنی یا تکنیکی خرابی کی وجہ سے بیس منٹ تک بجلی بند ہونے پر خود کو سزا کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا۔ اب آ جاتے ہیں اپنے وطن عزیز پاکستان کی طرف اس کی پچھلی حکومتوں کا تو قصہ ہی نہیں چھیڑتے کیونکہ ان میں اک تیری واری تے اک میری واری کا سین تھا۔ پھر ایسے میں عمران خان کی طرف سب عوام نے توجہ مرکوز کی اور انہیں سپورٹ کیا۔ وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے سب کی امیدیں خان صاحب سے جڑ گئیں۔ جوکہ نیا پاکستان متعارف کروانے جارہے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ کیونکہ کم و بیش دو تین بار عمران خان صاحب نے کہا کہ میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے یا پھر کوئی آن آف کا بٹن نہیں کہ میں آن کروں اور ملک کے حالات جادوئی طور پر بہتر ہو جائیں۔
پر خان صاحب کو عوام سے وعدہ کرنے یا کھلی آنکھوں سے خواب دکھانے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھا کہ جو میں وعدہ کر رہا ہوں اس کے پورا ہونے میں کتنی دشواریاں ہیں۔ اور اگر ہیں تو میں وعدے کرنے کا ہاتھ کم رکھوں۔ جو موجودہ دور میں عوام کی حالت ہے اب ایسا بھی ممکن ہے کہ اگلے الیکشن کے لیے عوام سے ووٹ مانگیں اور عوام کا جواب جادو کی چھڑی والا آۓ تب شاید ان الفاظ کی سختی اور تکلیف کو وہ محسوس کر سکیں۔یہ تو ایسے ہو گیا کہ بچہ ماں سے کہے کہ بھوک لگی ہے اور وہ روز تھپکی دے کر سلا دے کہ کھانا بن رہا ہے۔ ایسے میں ایک دو بار تو بچہ امید پر سوۓ گا کہ کھانا بن رہا ہے۔ لیکن بار بار ایک جیسے حالات پر ماں سے اعتبار اٹھ جائے گا۔پھر بھوک،درد،تکلیف اور نا امیدی سے وہ چلاۓ گا شور مچاۓ گا۔
ہماری زیادہ آبادی غریب عوام ہے۔ اور انہیں نہیں فرق پڑتا کہ نون لیگ چور ہے یا پیپلز پارٹی۔ انہیں صرف اس بات سے فرق پڑتا ہے کہ آج کیا چیز سستی ہے۔جو لے کر کھائیں۔بجلی، پانی، گیس، آٹا، دال، چاول کی قیمت کتنا کم ہوئی۔ زیادہ تر عوام کی خوشی اس بات سے ہے نا کہ کس کا احتساب کیوں ہو رہا ہے۔ہاں ظالموں، ڈکیٹوں، لٹیروں،چوروں کا احتساب ہونا چاہیئے پر وہ کام ادارے ایمانداری سے سر انجام دیں تو بہتر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اس وقت صرف غریب کی صورتحال پر غور فکر کرنا چاہیئے۔آپ صادق و امین ہیں اچھی بات ہے پر جو آپ کے اوپر اعتبار ،امیدوں کا بوجھ ہے اسے سمجھیں۔اپوزیشن کو چھوڑ کر عوام کی طرف توجہ دیں۔ورنہ حالات ایسے نہ ہو جائیں جیسے کوئی شدت سے آپ کا انتظار کر رہا ہو اور آپ کی توجہ دوسری طرف ہی رہے۔اور جانے انجانے میں منتظر کو نظر انداز کر دیں تو سوچیں کتنی دیر وہ اس محبت، خلوص، اپنائیت، چاہت، قرب، امید بھری نگاہوں سے دیکھتا رہے گا۔آخر کتنی دیر۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...