اُس نے سفید رنگ کا تہمد باندھا ہوا تھا۔ سر پر سفید ہی پگڑی تھی۔ میں نے اُسے کاکول کے صدر دروازے کے قریب دیکھا۔ وہ تہمد پوش اپنے کیڈٹ بیٹے سے گلے مل رہا تھا۔ یہ ایسا منظر تھا جسے اب تک بھول نہیں پایا۔ سالہا سال گزر گئے ہیں۔ جب بھی پہاڑیوں کے حصار میں گھرے کاکول کا خیال آتا ہے‘ سفید تہمد والا کسان اور اس سے گلے ملتا کیڈٹ بیٹا فوراً ذہن کے پردے پر چھا جاتے ہیں۔ بیسیوں بار کاکول جانا ہوا۔ کئی بار قیام کیا۔ بارہا پاسنگ آئوٹ پریڈ دیکھی۔ عام مہمان کی حیثیت سے بھی اور خصوصی مہمانوں میں شامل ہو کر بھی‘ سب نظاروں پر وہ منظر غالب رہا۔
ایک ایسا ادارہ جہاں جرنیل کا بیٹا کامیاب نہیں ہوتا اور کسان کا بیٹا منتخب ہو جاتا ہے‘ باعثِ اطمینان ہے بلکہ باعثِ فخر ہے۔ اب اگر یہاں کی بھٹی سے نکل کر کُندن بننے کے بجائے کوئی ضیاء الحق یا پرویز مشرف بن جاتا ہے تو اس میں بھٹی کا کوئی قصور نہیں۔
کسان کا بیٹا دو سال کی جانکاہ تربیت کے بعد کاکول سے نکلتا ہے۔ ایسی تربیت‘ ایسی ٹریننگ جو لوہے کو پگھلا دے‘ جو ہڈیوں کے گودے تک اتر جائے‘ جو رگوں کے خون کو دھوئیں میں تبدیل کردے۔ کہنا‘ سننا اور بتانا آسان ہے۔ یہ چوبیس ماہ‘ یہ ایک سو دو ہفتے‘ یہ سات سو بیس دن کس طرح گزرتے ہیں؟ وہ لڑکا جو دو سال پہلے آیا تھا‘ جانے کہاں گم ہو گیا‘ یہ اب ایک اور شخص ہے۔ اس کا معاہدہ زندگی سے نہیں‘ موت سے ہے۔ اس کی جِلد بھی اور ہے‘ دل اور دماغ بھی بدل چکے ہیں۔ اب اس کے لیے سفید تہمد والے بوڑھے باپ کی اہمیت ہے نہ سفید بالوں اور جھریوں سے اٹے چہرے والی ماں کی۔ اب اس کے لیے بہن مقدم ہے نہ بھائی۔ اور تو اور اس کی نوجوان بیوی اور چند مہینوں کا مہکتا کھِل کھلاتا بچہ بھی اس کی ترجیحات میں سرِ فہرست نہیں۔ اس نوجوان کا وعدہ اب سبز ہلالی پرچم سے ہے اور اُس سرزمین سے ہے جس پر وہ پرچم لہرا رہا ہے‘ پھڑپھڑا رہا ہے۔ اس کے لیے اب رات رات ہے نہ دن دن‘ اس کی زندگی اب سیاچین کی اس بلندی پر گزرتی ہے جہاں سردی سے ہاتھ جھڑ جاتے ہیں اور آنکھیں بینائی کھو دیتی ہیں۔ اب اس نے کشمیر کے ان پہاڑوں پر رہنا ہے جہاں گھر سے خط کم آتے ہیں اور دشمن کی طرف سے گولیاں زیادہ۔ اب اُس نے تھرپار کر کے اُن ریگستانوں میں چلنا ہے جہاں اُڑتی ہوئی ریت کے ہر ذرّے پر موت بیٹھ کر آ رہی ہوتی ہے۔ اُس نے وزیرستان کے اُن ناقابلِ اعتبار درّوں اور فریب دینے والی کوہستانی چوٹیوں میں راتیں بسر کرنی ہیں‘ جہاں گولیوں سے جسم چھلنی تو کیے ہی جاتے ہیں‘ گلے بھی کاٹے جاتے ہیں اور ان کی فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں۔ کون سا باپ اور کون سی ماں؟ کیسی بیوی اور کیسا بچہ؟ اب اس جوان کا ایک ہی خاندان ہے۔ وطن… اس کی ایک ہی محبوبہ ہے۔ موت… اس کے مقدس جسم نے سفید کفن میں نہیں‘ سبز پرچم میں ملبوس ہونا ہے۔ پھر جب اس کی شہادت کی خبر پہنچتی ہے تو اس کا تہمد پوش کسان باپ الحمدللہ کہتا ہے۔ سفید بالوں والی ماں کو مبارکیں ملتی ہیں۔ بہن فخر کرتی ہے اور بھائی سینہ تان کر چلتا ہے۔
شہادت افسر اور سپاہی میں فرق نہیں کرتی۔ محلّات میں رہنے والوں‘ کارخانے چلانے والوں اور ٹیکس چرانے والوں کو کیا معلوم کہ اس ملک کی بنیادوں میں اُن سپاہیوں‘ اُن لانس نائکوں‘ اُن حوالداروں‘ اُن صوبیداروں اور اُن کپتانوں‘ میجروں اور کرنیلوں کے جسموں کے ٹکڑے شامل ہیں جو چونڈہ کے میدان میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے اور جن کی کڑکڑاتی‘ چٹختی‘ ٹوٹتی ہڈیوں نے دشمن کی گرانڈیل مشینوں کے پرخچے اُڑا دیے تھے۔ یہ ان سپاہیوں اور ان افسروں کا خون تھا جس نے بہہ کر بھارتی سالار کے اُس خواب کو چکنا چور کردیا جس میں اس نے لاہور جم خانہ میں بیٹھ کر شراب پینا تھی!
اللہ کے بندو! ملک کی سرحد‘ ملک کی سرحد ہوتی ہے خواہ مشرقی ہو یا مغربی ہو؟ یہ کیسی شہادت ہے جو ایک سرحد پر ہو تو شہادت ہے اور دوسری سرحد پر ہو تو صرف موت؟ تم کیسے محب وطن ہو جو اس بات پر مطمئن ہو کہ غیر ملکی تمہاری سرحدیں پامال کر کے تمہارے ملک میں بس جائیں اور تمہارے ہی لشکر کے سامنے صف آرا ہو جائیں۔ سرحد فضائی ہو یا زمینی‘ مقدس ہے۔ کسی بدبخت طاغوت کے ڈرونوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس مقدس ملک کی فضائوں کو تاراج کریں۔ اسی طرح اُن سنگدل غیر ملکیوں کو بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس ملک کی زمینی سرحدوں کو پامال کر کے دراندازی کریں اور یہاں کے رہنے والوں سے وسائل چھین کر قابض ہو جائیں۔ ہر وہ طاقت‘ ہر وہ گروہ‘ جس کے تار سرحد پار سے ہلائے جاتے ہیں‘ خواہ یہ تار امریکی ہلاتے ہیں یا نیٹو‘ یا کرزئی یا افغان خفیہ ایجنسیاں‘ اس ملک کا دشمن ہے اور اس ملک کی فوج اُس کا مقابلہ کرے گی!
فرانسیسی وزیراعظم Georges Clemenceau نے کہا تھا کہ جنگ اتنا گمبھیر مسئلہ ہے کہ جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ مذہبی معاملات بھی ازحد سنجیدہ معاملات ہیں جو مصلحت میں سیاست دانوں پر چھوڑے جا سکتے ہیں نہ اُن ملّائوں پر جن کا فہم دین ناقص ہے ؎
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
غالباً ڈیگال کا قول ہے کہ ہر ملک میں ایک فوج ضرور ہوتی ہے۔ آپ کو اپنی فوج پسند نہیں تو کسی اور ملک کی رکھنا پڑے گی۔ منیر نیازی نے اس لیے کہا تھا ؎
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی نہیں رہا کرتا
درست کہ ہماری فوج ماضی میں حدود سے تجاوز کرتی رہی لیکن یہ فوج ہماری اپنی ہے۔ ہم اس کا خون رائگاں کیسے دیکھ سکتے ہیں؟
اے دوست! اختلافِ طبیعت کے باوجود
ہم کو ترا فراق گوارا نہ ہو سکا
عسکری مداخلت کی تاریخ کے طالب علم کو دو نکات ذہن میں رکھنے لازم ہیں۔ اوّل: چند طالع آزمائوں کے لالچ اور قانون شکنی کا الزام پورے ادارے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ آخر سارے سیاست دان کس طرح بُرے ہو سکتے ہیں؟ کیا اس ملک کے تمام ڈاکٹر دولت کے اسیر ہیں؟ کیا سارے وکیل ججوں کو تھپڑ مارتے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! فوج دیگ نہیں جس کے ایک چاول سے پوری دیگ کا اندازہ لگایا جائے۔ فوج گوشت پوست کے انسانوں پر مشتمل ایک منظم ادارہ ہے۔ کمانڈ سٹرکچر کی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ ضابطہ اور ڈسپلن زبانیں روک لیتا ہے ورنہ ایسا نہیں کہ فوج جمہوریت کی مخالف ہے۔ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے والے حق پسند فوج میں بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح دوسرے شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ دوم: فوجی طالع آزمائوں نے آمریت کے محل ہوا میں نہیں کھڑے کیے تھے۔ ان محلات کو چھتیں‘ دیواریں اور دروازے سیاست دانوں نے فراہم کیے اور اُس مرغِ بادنما نوکر شاہی نے جو کبھی پھدک کر باڑ کے اس طرف ہو جاتی ہے اور کبھی دوسری طرف۔ ایک جرنیل صدر نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ سیاست دان میرے بلانے پر فلاں کی طرح آ جائیں گے! امیر المومنین بننے کا مشورہ دینے والے اور ظلِ الٰہی کہنے والے غیر فوجی تھے! سترھویں ترمیم کا قصہ پرانا نہیں ہوا۔ رات کے اندھیروں میں کون ملنے جاتا رہا اور کون کس کو کس کے خلاف اُکساتا رہا ؎
نہ روزنوں سے کسی نے دیکھا نہ ہم ہی مانے
وگرنہ سرزد ہوئے تو ہوں گے گناہ سارے
بادل زمین سے بلند ہوتے ہیں۔ فوج کو اپنے سیاسی جھگڑوں‘ اپنے مذہبی تنازعوں اور اپنی فقہی موشگافیوں سے بلند رکھیے۔ مائوں کے اُن بیٹوں‘ بہنوں کے اُن ویروں اور نوجوان بیویوں کے اُن شوہروں کا کچھ تو خیال کیجیے جو گھروں سے دور‘ مورچوں میں بیٹھے ہیں۔ جن کے سینے گولیوں سے ا ور گلے خنجروں سے نہیں ڈرتے اور جو مٹی میں مٹی ہو کر آپ کو ایک پُرآسائش زندگی فراہم کر رہے ہیں‘ ایک ایسی پُرآسائش زندگی جس میں آپ سیاست کر سکتے ہیں!!