ایڈورڈ ودیع سعید کی پیدائش یکم نومبر 1935ء کو یروشلم فلسطین کے مضافاتی علاقے طالبیہ میں ایک امیر کاروباری شخص ویدی ابراہیم کے ہاں ہوئی۔ابتدائی تعلیم یروشلم میں سینٹ جارجز سکول میں حاصل کی، جو اس دور کے مہنگے سکولوں میں شمار ہوتا تھا۔ اپنے زمانۂ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے ایڈورڈ سعید لکھتے ہیںکہ ان کی والدہ ویلز کے شہزادے ایڈورڈ ہشتم سے بہت متاثر تھیں۔ اسی لیے انہوں نے بیٹے کا نام ایڈورڈ رکھا۔ یوں جماعت میں جب ان کا نام ایڈورڈ پکارا جاتا تو لڑکے اس پر حیرت کا اظہار کرتے یا اس کا مذاق اڑاتے کیونکہ نام کا دوسرا حصہ سعید پر مشتمل تھا۔ اس نام کی طرح ان کی شخصیت بھی دونوں دنیاؤں میں تقسیم رہی۔ انھوں نے قاہرہ کے وکٹوریہ کالج اور پرنسٹن اور ہارورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی
ایڈورڈ سیعد 1963 سے کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور ہارورڈ اور جان ہاپکنز یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر تھے ۔ تقابلی ادب کے پروفیسر ، ناول نگار اور مختصر کہانیوں کے مصنف جوزف کونراڈ پر انھوں نے ڈاکٹریٹ کی سند لی اور ان کی پہچان جانے جوزف کانراڈ کے فکشن کے ماہر نقاد اور محقق کی حیثیت سے متعین ہوئی ،ان کا کا غیر معمولی دوہرا کیریئر رہا ہے۔ انھون نے مقبوضہ علاقوں میں مقیم فلسطینیوں کی حالت زار پر سنجیدہ تنقید بھی کی جو امریکہ اور اسرائیل کو بہت ناگور گذرتی تھی۔ اگرچہ وہ تربیت یافتہ مورخ نہیں ہیں۔ ، لیکن مشرقی وسطی کی تاریخ ، معاشروں اور ادب کے بارے میں روایتی مغربی تحریروں کی ان کی ایک کتاب مستشرق (Orientalism1978) ایک انتہائی محرک تنقیدی تشخیص ہے۔ متنازعہ کتاب کورنگ اسلام (1981) میں انہوں نے جانچ پڑتال اور عمیق تحقیق اور فکری فطانت کے بعد یہ بتایا کہ کس طرح مغربی زرائع ابلاغ نے مشرق وسطی کے بارے میں مغربی تناظر کی طرفداری کی ہے۔ ایڈورڈ سعید پیدائشی طور پر ایک نصرانی/ عسیائی فلسطینی ہیں جنھون نےاس بات کا انکشاف کیا کہ یہودی آباد کاروں سے تصادم کی وجہ سے فلسطینی تاریخ باقی عربی تاریخ سے کس طرح مختلف ہونے کی تاریخ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے بگاڑا گیا اور مغربی قارئین کے سامنے وہ عام طور پر مغربی ذرائع سے حاصل ہونے والے فلسطینی مقام کو زیادہ واضح طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایڈورڈ سعید کولمبیا میں ہیومینیٹیز میں اولڈ ڈومینین فاؤنڈیشن کے پروفیسر ، عرب اسٹڈیز سہ ماہی کے ایڈیٹر ، اور انسٹی ٹیوٹ آف عرب اسٹڈیز کے بورڈ آف ٹرسٹی کے چیئرمین رہے ہیں ۔ وہ فلسطین کی قومی کونسل کے علاوہ نیویارک میں خارجہ تعلقات کی کونسل کے بھی رکن بھی تھے
ایڈورڈ ڈبلیو سعید ، کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی اور تقابلی ادب کے مرحوم یونیورسٹی پروفیسرکے ہمراہ کئی برسوں سے میگزین کے کلاسیکی موسیقی نقاد کے ساتھ ساتھ ایک معاون مصنف کی حیثت سے بھی کام کیا۔۔ انھیں تقابلی ادب کے میدان میں اپنی مبنی تحقیق اور ان کی دلچسپ سیاسی تبصرہ کے لئے جانا جاتا ہے ، وہ امریکہ کے سب سے ممتاز دانشور تھے۔ ان کی تحریر باقاعدگی سے گارڈین آف لندن ، لی مونڈے ڈپلومیٹک اور دنیا کے ہر عرب کے جرائد کے علاوہ عربی زبان کے روزنامہ" الحیات "میں بھی شائع ہوئے ۔
1948 میں ایڈورڈ سعید اور اس کے اہل خانہ کو فلسطین سے بے دخل کردیا گیا اور وہ قاہرہ میں آباد ہوگئے۔ وہ سے کالج جانے کے لئے امریکہ آگے اور کئی سالو نیو یارک میں رہے تھا۔ فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی حمایت اور فلسطین کی قومی کونسل میں ان کی رکنیت کی وجہ سے ، ایدورڈ سعید کو کئی سال پہلے تک فلسطین جانے کی اجازت نہیں تھی۔انھون نے یاسرعرفات سے اپنے دیرینہ تعلقات امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کے بعد ہمشہ کے لیے توڈ لیے تھے۔
۔ ایڈورڈ سعید کی پہلی کتاب جوزف کونرڈ کی خود نوشت آپ بیتی پر ایک نقد کی صورت میں تھی، جو 1966ء میں شائع ہوئی۔ جوزف کونرڈ کے خطوط کے تناظر میں اس کے نثری اسلوب کا تنقیدی تجزیہ کیا گیا تھا۔ یہ کتاب ان کے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے کی توسیعی صورت تھی۔ جیکوئس دریدا اور مائیکل فوکو کی طرح ایڈورڈ سعید نے یورپ کے نقطہ نظر سے ادب اور معاشرے کی تفہیم کے عمل کو سمجھا اور اس کے ادب پر اثرات کا جائزہ لیا۔ اسی طرح انہوں نے جین آسٹن، رڈیارڈ کپلنگ اور ڈبلیو بی ییٹس پر بھی مفصل تنقیدی مقالے لکھے ،جن سے ا ن کی ادبی نقاد کی حیثیت مستحکم ہوئی۔ ان شہ پاروں کا انہوں نے خاص اس نقطہ نظر سے مطالعہ کیا کہ کیسے یورپ میں مشرقی تہذیب کو دیکھا اور سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ اس نقطہ نظر کے یورپی اور مشرقی ادب پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یوں انہوں نے نو آبادیاتی ادب کی اصطلاح کو ایک نیا مفہوم دیا اور اس تفہیم کے لیے راہیں آسان کردیں۔ اس اعتبار سے وہ پس نو آبادیاتی تنقید کے شعبے کے بنیاد گزاروں میں شمار ہوتے ہیں
پرنسٹن اور ہارورڈ میں تعلیم حاصل کرنے والے ایڈورڈ سعید ریاستہائے متحدہ ، کینیڈا اور یورپ کی 150 سے زیادہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں لیکچرز دیئے ۔ چودہ زبانوں میں ترجمہ شدہ اس کی تحریر میں ان کی دس کتابیں شامل ہیں ، جن میں اورینٹل ازم (پینتھیون ، 1978) شامل ہے ، جو قومی کتاب نقاد سرکل ایوارڈ کے لئے تنقید کا ایک اعزاز ہے۔ دنیا ، متن اور نقاد (ہارورڈ ، 1983)؛ متاثرین پر الزام لگانا (ورسو ، 1988)؛ ثقافت اور سامراج (نوف ، 1993)؛ امن اور اس کے تنازعات: مشرق وسطی کے امن عمل میں فلسطین سے متعلق مضامین (ونٹیج ، 1995)؛ امن عمل کا اختتام: اوسلو اور اس کے بعد (پینتھیون ، 2000)؛ اور ، حال ہی میں ، طاقت ، سیاست اور ثقافت (پینتھن)۔ وغیرہ ۔۔۔۔۔ انہوں نے کئی معرکۃ آراء کتابیں اور مکالے لکھے تاہم جس کتاب نے انہیں سب سے زیادہ شہرت بخشی وہ ’اوریئنٹلزم‘ ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر سعید نے اس نکتہ سے بحث کی ہے کہ مشرقی اقوام اور تمدن کے بارے میں مغرب کا تمام علمی کام نسل پرست اور سامراجی خام خیالی پر مبنی ہے۔اس تحقیقی کام سے عربوں کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ مغرب نے عرب اور اسلامی ثقافت کو سمجھنے میں غلطی کی ہے اور عرب دنیا اور مسلمانوں کے بارے میں بے بنیاد سوچ پر اپنے نظریات کی بنیاد رکھی۔ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے "0020میں جب انہوں نے فلسطینی حریت پسندوں کی ہمدردی میں اور بالکل انہی کی طرح لبنان کی سرحد سے ایک اسرائیلی خیمے کو نشانہ بنایا تو امریکہ کے بااثر حلقوں نے انہیں یونیورسٹی سے برخاست کرانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ مگر کولمبیا یونیورسٹی کے ذمے داروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ پروفیسر سعید نے نہ تو کسی خاص کو نشانہ بنایا تھا اور نہ پتھر سے کسی کو چوٹ لگی تھی۔ چند دنوں قبل مشہور کالم نگار ‘رابرٹ فسک کو انٹرویو دیتے ہوۓ ایڈورڈ سعید نے کہا تھا کہ “خون کے کینسر سے کمزور ہو گیا ہوں لیکن اپنا کام کیے جا رہا ہوں،میں ابھی مروں گا نہیں”، مگر نواب مرزا شوق لکھنوی نے مثنوی ‘زہر عشق، میں کیا خوب کہا ہے کہ ‘موت سے کس کو رستگاری ہے۔۔!{ ایڈورڈ سعید: ایک تعزیتی خاکہ" مکالمہ، 27 نومبر 2017۔۔ انٹر نیٹ پر} 67 کی عمر میں ایڈورڈ سعید کا انتقال 24 ستمبر 2003 میں نیورک سٹی، امریکہ میں ہوا۔
ایڈورڈ سعید کا متنی تنقید پر ان کا معرکتہ آرا کام "دنیا متن اوراس کا نقاد" { The World, the Text, {and the Critic اپنے طور پر دینا لسان اور ادب کے متنوں پر کڑا اور حقیقت پسندانہ نقد تو ہے مگر انھوں نے اپنی اس کتاب میں ان رموز کو لا رموز کیا ہے جس کو عدم فکریت کے سبب عالم تنقید میں سینے سے لگائے رکھا۔
* اس کتاب کے مشمولات یہ ہیں ۔
تعارف: سیکولر تنقید
1۔
دنیا ، عبارت ، اور نقاد
2
سوئفٹ کی ٹوری انتشار
3۔
دانشورانہ طور پر تیز
4
کانراڈ: بیانیہ کی پیش کش
5
تکرار پر
6۔
اصلیت پر
7۔
عصری تنقید میں سڑکیں لی گئیں اور نہیں لی گئیں
8۔
امریکی "بائیں بازو" کے ادبی تنقید پر غور
9۔
ثقافت اور نظام کے مابین تنقید
10۔
سفر تھیوری
11۔
ریمنڈ شواب اور خیالات کا رومانونیت
12۔
اسلام ، فلولوجی ، اور فرانسیسی ثقافت: رینن اور میسگنن
نتیجہ: مذہبی تنقید
نوٹ
یہ حیرت انگیز عمیق اور نظری متنی انتقادی کام ادبی عصری نظریاتی سفر کا ایک اہم پڑاو تھا۔ جہا ں سے نئی متنی تنقید ۔ ابتداء تو ہوئی اور متنازعہ اورینٹل ازم{Orientalism} کے مصنف ، ایڈورڈ سیڈ نے مثال کے طور پر ژاک ڈریڈا اور مشیل فوکو کی تحریروں سے ، اور مارکسزم ، ساختیات ، لسانیات ، اور نفسیاتی تجزیہ جیسے اثر و رسوخ کے حامل جدید تنقیدی نڑیات پر متاثر کن گفتگو کی۔ تاہم ، ان کا استدلال ہے کہ متنوع طریقوں اور مکاتب فکر نے اپنے نظریے کے ذریعہ ایک عجیب و غریب اثر مرتب کیے ہیں جس سے ادب کے کاموں کو کسی نظریہ یا نظام کی ضروریات کو پورا کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے ، جس سے دنیا میں تحریروں کو پابند کرنے والی پیچیدہ وابستگیوں کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ، تنقید کرنے والے کو لازمی نظاموں اور غالب ثقافت کے مدارج اور آرتھوڈوکس سے دونوں کو فاصلہ برقرار رکھنا چاہئے۔ وہ تاریخ ، شعور کی آزادی ، سیاسی ، معاشرتی اور انسانی اقدار ، انسانی تجربے کی عظمت کی طرف شعور کی آزادی اور جواب دہی کی حمایت کرتے ہیں۔ ان خصوصیات کو انفرادی مصنفین اور کاموں کے ان کے اپنے تجزیوں میں شاندار طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اصولوں اور تنقید کے عملی امتزاج کے ساتھ اس کتاب میں متعدد مصنفین اولیور سوئفٹ ، کونراڈ ، لوکاس ، رینن اور بہت سے دوسرے لوگوں کی تکرار ، اصلیت ، دنیا پرستی ، اور سامعین ، مصنفین ، کے کردار جیسے نظریات کی روشن تحقیقات پیش کرتی ہے۔اور ان کا کٹھا چھٹا بیان کیا ہے۔ حیثت قاری وہ جرات م مندانہ سوالات پوچھتے ہیں ساتھ ہی فوری اہمیت کے حامل مسائل کی تحقیقات کرتےہیں ، اور جدید معاشرے میں تنقید کے کاروبار کو ایک ٹھیک ٹھیک لیکن طاقتور اور توانا نیے معنی بخشتے ہیں۔۔
مگر اس کے ساتھ قای کے زین میں یہ کتاب پڑھکر یہ سوالات سر اٹھاتے ہیں۔
1۔ نصوص یا متن میں موجودہ طریقوں کے حامل ہیں جو ان کی اکثریت میں بھی ہوتے ہیں ۔
2۔ نایاب شکل ہمیشہ حالات ، وقت ، جگہ ، اور میں جاری ساری ہوتی ہے
3۔ متن دیناوی معاشرت میں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے دنیاوی ہے ۔ چاہے ایک متن کو کچھ عرصہ کے لئے محفوظ کیا جاتا ہے یا ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے ، خواہ یہ کتب خانے کی طاق{ شیلف} پر ہو یا
نہیں ، چاہے اسے خطرناک سمجھا جائے یا نہیں: ان معاملات پر نظر ڈالنی چاہیے۔
4۔ دنیا میں کسی متن کے وجود کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے
پڑھنے کا عمل زاتی معاملہ ہے وہی مضمرات بلا شبہ اپنی جلوہ نمائی کہیں نہ کہیں کرتے ہیں ۔
5۔ دنیا میں قارئین اور مصنفین کی حیثیت سے ان کی صلاحیتوں سے نقادوں کا سچ اور جھوٹ سامنے لانا پڑے گا۔
6۔ اس طبقے نے ادبی متن کی "دنیاداری" کی کھوج کی ہے: یعنی وہ طریقے جس میں
تاریخ ہمیشہ تاریخ اور جغرافیہ کے بیانیے اور ساتھ ہی وسائل کے ساتھ واراد ہوتی ہے۔
جس کے ذریعہ ہم ، قارئین اور مصنفین کی حیثیت سے ، ادب سے اپنے تناظر کوتصوری اور فکری آفاق کی تشکیل بندی کرتے ہیں۔
7۔ ادبی نصوص یا متن ہماری دنیا کے نقطs نظر کو کس طرح تشکیل دیتے ہیں؟ مثلا ، ہمارا ساختیات ، نَی نئی تاریخیت سے کیا رشتہ ہے۔ "تیسری دنیا" کے ادب سے رشتہ کیا ہے ؟ عالمگیریت کی فکری حرکیات کرتی ہے ؟(بطور سیاسی اور ثقافتی رجحان) "عالمی ادب" اوروہ پیداوار کیسے متاثر کرتے ہیں
امریکی فکری اشرافیہ جنوبی ایشیاء ، جنوبی افریقہ ، مشرق وسطی ، کیریبین ، یورپ اور اس کے ادبی متن
شمالی امریکہ کی طرف متعدد اہم نقطہ نظر کو متعارف کرانے کے لئے کیا کرے گی؟؟؟