ایڈروڈ سیعد کے مطابق دانش ور کے آفاقی تصور کو جو باتیں محال بناتی ہیں،ان میں سب سے اہم قومیت ہے۔قومیت سے جڑا اہم لفظ قوم پرستی ہے۔ سعید یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قوم پرستی کی تشکیل میں زبان کا کردار بنیادی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسل سے لے کر چومسکی تک کوئی اسپرانتو (مصنوعی عالمی زبان)میں نہیں لکھتا۔’’ہر دانش ور ایک زبان میں پیدا ہوتا ہے اور زیادہ تر اسی زبان میں اظہار کرتے اپنی عمر بسر کردیتاہے،جو دانش ورانہ سرگرمی کے اظہار کا ذریعہ ہے‘‘،یہیں دانش ور ایک خاص مسئلے سے دوچار ہوتا ہے۔وہ جس زبان میں اظہار کرتا ہے ،وہ پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ گویا دانش ور،زبان ایجاد نہیں ،اختیار کرتا ہے۔ دانش ور کا مسئلہ یہ ہے کہ زبان میں اظہار کے بعض ایسے رویے غالب ہوتے ہیں ،جن کا کام ہی یہ ہے کہ وہ’ سٹیٹس کو‘ کوقائم ،اور کچھ چیزوں کی پہلے سے موجود آگاہی کو جوں کا توں برقرار رکھیں۔سعید یہاں جارج آرول کے مشہورمضمون 'Politics and the English Language'(مطبوعہ ۱۹۴۶) کا حوالہ دیتے ہیں۔آرول کے مطابق کلیشے، مردہ استعارے ،بے حس تحریریںزبان کے انحطاط کی علامتیں ہیں۔انھیں پڑھ اور سن کو ذہن سُن ہوجاتاہے ۔ان کااثر ذہن پر اس پس منظر ی موسیقی کا ساہوتا ہے جو کسی سپر مارکیٹ میں مدھم سروں میں بج رہی ہوتی ہے ،جو شعور پر حاوی ہوجاتی اور خیالات و جذبات کو(اشیا کی) منفعل قبولیت کے لیے بہکاتی ہے۔کلیشے صرف زبان کا انحطاط نہیں،خیالات اور قوت ایجاد کا اانحطاط بھی ہے،مگر اس انحطاط کا فائدہ سیاست دان اٹھاتے ہیں۔وہ کلیشوں کے ذریعے کئی قسم کی جھوٹی باتوں کو سچ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ سعید اس ضمن میں ان قومی کارپوریٹ شناختوں کا ذکر کرتے ہیں جنھیں ’’ہم‘‘ (we)اور ’’ہمیں‘‘(us)جیسے الفاظ سے مستحکم کیا جاتا ہے۔ قومی زبانوں میں جاری ہونے والے اخبارات میں ’’ہم امریکی‘‘ ،’’ہم برطانوی ‘‘ اور اردو میں ’’ہم پاکستانی‘‘ جیسے الفاظ اس قومی شناخت کا تصور راسخ کرتے ہیں ،جو اصل میں تجرید ہے۔ سعید کے مطابق ’’صحافت اس شے کو واضح اور ٹھوس بناتی ہے جو قومی زبان میں مضمر ہوتی ہے‘‘۔قومی زبان میں ’’ہم‘‘ کے علاوہ ’’انھیں‘‘(them)کا تصور بھی ہوتاہے۔سعید کا تجزیہ ہے کہ ’’ہم ‘‘ کے ذریعے اگر ایک طرف قومی شناخت پیدا ہوتی ہے ،تو دوسری طرف اس شناخت کو ’’انھیں‘‘ کی وجہ سے خطرے میں ہونے کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔چناں چہ’’اس [تفریقی شناخت]کے زیراثرعلم اور کمیونٹی[آفاقی نوعیت کی] نہیں ،عدم رواداری اور خوف پیدا ہوتاہے‘‘۔عدم رواداری اور خوف حقیقی اور لفظی جنگوں کا باعث بنتے ہیں۔
اس بحث کے ذریعے سعید یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دانش ور کو کس قسم کی بندشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آخر ایک دانش ور ان فصیلوں سے باہر کیسے نکلے جو قوم یا کسی دوسری قسم کی کمیونٹی(جیسے یورپ،مغرب ،ایشیا،افریقا)نے تعمیر کر رکھی ہیں؟بہ قول سعید عوامی گفتگو میں’’انگریز‘‘ ،’’عرب‘‘،’’امریکی‘‘ یا ’’ افریقی‘‘ سے بڑھ کر کوئی دوسرے الفاظ عام نہیں۔ان میں سے ہر لفظ نہ صرف پورے کلچر بلکہ ایک خاص ذہنی رویے (مائنڈ سیٹ)کا حامل بھی ہے۔قومی کارپویٹ شناختوں سے عبارت ان الفاظ کے ذریعے کسی کمیونٹی میں حقیقی طور پر موجود مختلف و غیر متجانس عناصر کا انکار کیا جاتا ہے۔یہاں سعید مغرب کے اسلام کی طرف ’کارپویٹ رویے‘ کا ذکرکرتے ہیں۔امریکی اور برطانوی اکیڈمک دانش ور ،ایک ارب مسلمانوں کے بارے میں،جو نصف درجن (حقیقتاً کہیں زیادہ)زبانیں بولتے ہیں، غیر ذمہ دارانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔وہ اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کے بارے میں کبیری تعمیمات سے کام لیتے ہیں،اور اسلام اور جمہوریت ،اسلام اور انسانی حقوق، اسلام اور ترقی میں عدم مطابقت سے متعلق ڈھٹائی سے آرا قائم کرتے ہیں۔سعید اسلام کو ایک مذہب اور کلچر سمجھتے ہیں؛یہ دونوں کسی واحد کلیے کے اسیر نہیں ہیں؛ان کی متعدد تعبیریں ہیں۔وہ شامی مسلم دانش ور ادونس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کیا اسلام حکمرانوں کا ہے ،یا انحراف پسند شعرا اور مسالک کا ؟ مغرب اسلام کے غیر متجانس کردار پر زور دیتا ہے ،اور اس کی تاریخ میں عقلیت و سائنس اور اجتہادی فکرکے حامل عناصر کی نفی کرتا ہے ۔ یہاں سعید کا اشارہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اسلام سے متعلق اس امریکی ڈسکورس کی طرف ہے ،جس میں اشتراکیت کی جگہ اسلام کو ملی ہے۔ سعید کے یہ خطبات گیارہ ستمبر (نائن الیون) کے واقعے سے پہلے دیے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اسلام کی بابت امریکی ڈسکورس میں شدت پیدا ہوئی ہے۔
سعید کے نزدیک قوم پرستی سے متعلق کارپوریٹ فکر سے آزاد ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دانش ور ’ متجسس، تشکیک پسند فرد‘کا کردار اختیار کرے۔وہ ایک بارپھر یہ واضح کرتے ہیں کہ قوم اور گروہ فطری یا خدائی عطیہ نہیں،بلکہ تشکیل اور بعض صورتوں میں ایجاد ہیں،جن کے پیچھے جدوجہد اور فتح کی تاریخ ہے۔ قوم کے تاریخی طور پر تشکیل پانے کا یہ علم ،دانش ور کو ذہنی آزادی دیتا ہے؛وہ کسی عقیدے، اسطور،آئیڈیالوجی کے زیر اثر نہیں آتا؛وہ انسانی معاملات کا تجزیہ اس انسانی علم کی مدد سے کرتاہے،جسے ماوارے خطا ہونے کا گھمنڈ نہیں ہوتا۔دانش ور کی نظر میں کوئی روایت اتنی مقدس نہیں ہوتی کہ اس کی تاریخ اور انسانوں پر اس کے اثرات کے ضمن میں سوالات قائم نہ کیے جاسکیں۔ چوں کہ قوم کی تاریخ جدوجہد اور تسخیر سے عبارت ہے،اس لیے دو طبقے وجود میں آتے ہیں: فاتح اور مغلوب ؛غالب اور نمائندگی سے محروم۔ دانش ور اگر کسی آفاقی اخلاقیات کا حامل ہو سکتا ہے تو وہ ہے،مغلوب ، غیر نمائندگی پذیر، فراموش کردہ ،نظرا نداز کردہ طبقے کی خاموشی کوآواز دینا۔سعید ماہر عمرانیات ایڈورڈ شلس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ دانش ور دو انتہائوں پر کھڑے ہیں:وہ یا تو غالب اقدار ،اصولوں کے خلاف ہیں یا مصلحت آمیز انداز میں وہ عوامی زندگی میں تنظیم اور تسلسل مہیا کرتے ہیں۔ سعید کی رائے ہے کہ جدید دانش ور کے لیے اوّل الذکر کردار ہی حقیقی ہے،یعنی غالب رجحانات کو چیلنج کرنا،کیوں کہ غالب اقدار و اصول قوم سے جڑے ہیں جو ہمیشہ تسخیر پسند ہے، اسے اختیارو مرتبہ حاصل ہے؛قوم ،دانش ور سے تحقیق اور تجزیے کی بجائے وفاداری اور متابعت کا تقاضا کرتی ہے۔دانش ور کو اس تقاضے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا چاہیے۔اسے اپنی دانش ورانہ فکر کے سوا کسی سے وفادار نہیں ہونا چاہیے۔
(اپنی کتاب عالمگیریت اور اردو میں شامل مضمون "دانش ور کے اظہارات" سے مقتبس)