سامراجیت کے سائے میں موجودہ ادب کی شکل و صورت اور فلسطین کے ایڈورڈ سعید اور محمود درویش، دنیا کے دو عظیم لکھاری
اکثر یہ سوال میرے سامنے آتا ہے کہ ہمارے سامنے آج کے گزرتے ہوئے دور میں، ادب کی کیا شکل و صورت بن رہی ہے؟ یورپی اور مغربی سامراج ، اس وقت، ایک گھڑ سوار سوداگر کی شکل میں بڑے واضح انداز میں ہمارے ہاں ادھر ادھر بھاگتا ہوا نظر آرہا ہے اور اسے نئے نئے مارکیٹوں کی تلاش ہے۔ اب ایک دوسری صورت حال بھی یہاں ہمارے سامنے آتی ہے کے اگر اسے یہ علاقہ بہتر دکانداری کے لیے موزوں نہیں لگ رہا، تو پھر اسے کاروبار تو کرنا ہی ہے، اس عالم میں وہ یہ بھی سوچ رہا ہے کے اگر عام سی دکان داری اچھی نہیں، پھر شاندار دکان داری کیلئے اس کو کس طرح کے مارکیٹ بنانے پڑیں گے اور اس طرح کی مارکیٹ کی کامیابی کیلئے، اس گھوڑا سوار تاجر کو کس طرح کا ماحول بنانا پڑے گا اور انہی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کے پالیسی ساز اور شیطان صفت دانشور مسلسل سوچ رہے ہیں اور اسے طرح طرح کی تجاویز اور مشورے بھی دے رہے ہیں۔
اگر ہم فلسطینی نظم ،نثر اور فکشن کی طرف آئیں، تو یہاں ہمیں چیخ و پکار اور فریاد سنائی دے گی اور ہمیںں ایڈورڈ سعید اور محمود درویش گاؤں کے اُن بزرگوں کی طرح نظر آئیں گے، جہاں آگ لگی ہوئی ہو اور وہ گاؤں والوں کو اس خوفناک آگ سے محفوظ رکھنے کے لیے چیخ چیخ کر خبردار کر رہے ہو ں۔ میرے خیال ہے کہ ایشیا میں موجودہ حالات کا شاندار عکاس فلسطینی ادب ھی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہمارے دوست اور بھائی آصف فرخی نے فلسطینی افسانے کی دو عدد موٹی موٹی جلدیں بڑے ہی خوبصورت اور شاندار انداز میں چھاپیں اور اس کے بعد اس معیار کی شاندار کتابیں ہمارے سامنے نہیں آئیں۔
میرا خیال ہے کہ مجھے بولنا بھی نہیں چائیے اور یہ بات آپ کے مشاہدے میں آ ہی چکی ہے کہ گھڑ سوار کو سمجھ میں آگیا ہے کی اس خطے میں شاندار مارکیٹ اسلحے کی ہی ہوگی، لہذا اس مارکیٹ کی کامیابی کے لیے اس کے خریداروں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانا بہت ہی ضروری ہے ، تاکہ وہ آسانی سے اور اپنی مرضی سے اسلحہ زیادہ مہنگے داموں فروخت کرسکیں۔ سو یہ ہے صورت حال اور اس صورت حال کی بہترین تصویر، ہم اپنے ادب میں ہی دیکھتے ہیں، کیونکہ ادب ہی اپنے وقت کا شاندار عکاس اور نمائندہ ہوتا ہے۔
شاید گھڑ سوار سوداگر نے، اب گھوڑے سے اتر کر ادھر ادھر گھومنا چھوڑ دیا ہے، کیونکہ اسے، اس کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اب اپنی دکانوں کو طرح طرح کے خوفناک اسلحے سے بھر رہا ہے اور نادان خریداروں کی ایک لمبی سی قطار کھڑی ہے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ سوداگر اب محترم بھی بن چکا ہے اور خریدار اپنی وفاداری دکھانے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہیں اور ایک دوسرے کا روایتی احترام بھی نہیں کر رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خطے میں عراق جل رہا ہے، شام میں روزانہ معصوم لوگ ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں، افغانستان تباہ حال ہو چکا ہے، ہم دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ سے مر رہے ہیں اور ہندوستان میں بھی تنگ نظری کے نام پر معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مختصر یہ کہ ہر طرف آگ ہی آگ ہے اور اس خوفناک آگ کو دیکھ کر حساس شاعر اور اس دور کے افسانہ نگار کے افسانوں میں ہمیں ماسوائے بلند ہوتے ہوئے شعلوں کے اور کیا نظر آئے گا؟
اس تمام صورتحال میں اس تمام علاقے کا ادب فلسطینی ادب کی شکل صورت ھی پیش کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے اس عالم میں اگر ہم پاکستانی ادب کا جائزہ لیں تو ہمیں بے چینی کے سیاہ رنگ ہی نظر آئیں گے۔ شام اور عرب ملکوں کے ادب میں یورپ کی طرف ہجرت کا ماحول ہو گا۔ افغان شاعری میں جنگ اور ظلم و ستم سے نفرت نظر آئے گی، ہندوستان کے لوگ تنگ نظری، جہالت اور توہم پرستی کے نتائج کا رونا رورہے ہونگے اور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ برما کے ادب میں بے گناہوں کا قتل عام جاری ہوگا۔ مصر میں جمہوریت پسندوں کو اپنے خواب چکنا چور ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ترکی کے اہلِ قلم ہر طرف عالمی سازشوں کی بو محسوس کر رہے ہوں گے۔ لیکن سمجھدار دانشوروں کے سوچنے اور لکھنے کے اس عمل کے دوران بھی جنگ بالکل ماڈرن انداز میں چل رہی ہوگی اور سامراج کے بموں کی ماں کا تجربہ بھی ہمارے ہی خطے میں ہو رہا ہوگا۔ اس عالم میں بھی سامراج خوش نہیں ہوگا، بلکہ وہ فرمایش کر رہا ہوگا کہ میرے پیاروں اپنے پیار کا مزید اظہار کرو ۔ کیونکہ تمہارا ناخدا اور تم کو اس آتش فشاں سے بچانے والا میں ہی ہوں۔ اس آگ کو مزید بھڑکاؤ، اس کے خوفناک شعلوں کو مزید بلند ہونے کا موقع دو۔ اور اگر یہ کام تم نہیں کرسکتے تو میں خود بھی بآسانی کرلونگا، کیونکہ مجھ میں اسکی شاندار استطاعت ہے۔
سامراج کی یہی وہ بات ہے کہ اس خطے کے ممالک کے ادب سے امید دور ہوتا ہوا اور کسی باغی پرندے کی طرح پرواز کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور حساس لکھنے والے مایوسی اور اندھیرے کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ ادب اپنے دور کی سیاست کا شاندار ترجمان ہے اور وہی ادب بڑا کہلایا، جس نے اپنے دور کی سیاست کی شاندار ترجمانی کی۔ ادب سمجھداری کی شاندار نشانی ہے اور اسکا کام ہی شعور دینا ہے۔ لکھنے والے کے ہاں کبھی بھی، بلکہ شدید سیاہ رنگوں کی موجودگی میں بھی ،مایوسی نہیں ہوتی البتہ وہ دوسروں کی مایوسی کو سمجھتا ہے اور بخوبی جانتا بھی ہے، بلکہ وہ شعور اور عقل و دانش کے نئے نئے راستے تراشتا ہے۔لہٰذا آج کا ادب اس جنگ زدہ خطے کے طاقتور قوتوں کو اور اہلِ سیاست کو یہی مشورہ دیتا ہے کہ خدا کے لیے اپنی انا اور اپنے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں اور مفادات سے اپنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرو اور باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھو، سامراج کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کرو اور اس موجودہ آگ کو مل کر ہی بجانے کی کوشش کرو، جس کے درمیان سے معصوم لوگوں کے چیخنے کی آوازیں نکل رہی ہیں۔ ورنہ آنے والی تاریخ اور ادب کبھی بھی تمہیں تمہارے گھمنڈ پر معاف نہیں کرے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔