۔۔ {"حقیقت ناقابل برداشت ہے اس سے فرار ممکن نہیں " ایڈورڈ ایلبی}۔۔
امریکی لایعنی ڈرامہ نگار ایڈورڈ فرینکلین ایلبی، سوئم{Edward Franklin Albee III } سے میرا تعارف تعارف اس وقت ہوا جب میں ستر کی دہائی میں " جدید ڈرامہ اور تھیٹر" کا مطالعہ کررہا تھا۔ جب لایعنی تھیٹر پڑھنا شروع کیا تو ایڈورڈ ایلبی کا ڈرامہ " چڑیا گھر کی کہانی" {The Zoo Story،1958} پڑھنے کوملا اس ڈرامے کو پڑھا زیادہ سمجھ نہیں آیا۔ دوبار پڑھا مگر پھر بھی یہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ تو کراچی میں ڈرامے کی مشہور شخصیت علی احمد مرحوم کے پاس یہ ڈرامہ لے کر چلاگیا۔ انھوں نے اس ڈرامے کی کچھ تفھیم اور تشریح کی ۔ { علی احمد مرحوم کراچی میں " ناٹک" نام سے ایک ادارہ چلاتے تھے} ۔ پھر اس ڈرامے کا یک ویڈیو کیسٹ امریکن لائبریری سے مل گیا۔ جس کو دیکھ کر یہ ڈرامہ مجھے خاصا سمجھ آگیا۔ اور اس کی ماہیت سمجھ آگئی۔ ہہ دلچسپ حقیقت ہے کہ یہ ڈرامہ امریکہ میں نہیں کھیلا گیا بلکہ یہ پہلی بار جرمنی میں اسٹیج کی زینت بنا۔ ایڈورڈ ایلبی نے ڈرامے لکھنے سے پہہلے مختصر کیانیاں اور ناول بھی لکھی۔ مگر وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
*** ایڈ ورڈ ایلبی کا مرقع ذات کا خلاصہ ***
پیدا ئش :
12 مارچ، 1928،ریاست ورجینیا، امریکہ
رخصت:
16 ستمبر 2016 ، جمعے کے دن (عمر 88)
مونٹک، نیو یارک، امریکہ
ادبی اور فنکارانہ سرگرمی
ڈرامہ
قومیت
امریکی
ادب اور ڈرامے میں متحرک ہونے کا دورانیہ
1959 تا-2016
قابل ذکر تحریریں
ورجینیا وولف آف لائن ہے
چڑیا گھر کی کہانی
ایک نازک بیلنس
بکری، یا سلیا کون ہے؟
قابل ذکر انعامات
ڈرامہ کے لئے پلٹزر انعام (1967، 1975، اور 1994)
بہترین ڈرامے کے لئے ٹونی ایوارڈ (1963 ء 2002 ء)
نیشنل میڈال آف آرٹس (1996)
خصوصی ٹونی ایوارڈ (2005)
امریکی ایوارڈ ادب میں (2015)
ساتھی/ شریک حیات
جوناتھن تھامس { 1971 ء سے ان کی موت 2005 تک}
فکری اثرات: ابسن، اسٹرنڈ برگ ،کافکا، بیکٹ ، ٹینسی ولیم اور آئنسکو
ایلبی دیگر لایعنی ڈرامہ نگاروں سے منفرد دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ امریکی معاشرتی نظام میں انتشار اور بدنظمی محسوس کرتے ہیں۔ انھیں امریکہ میں ہر چیز مضّوعی دکھائی دیتی ہے۔ ، اقدار، عقائد اور رسم ورواج ان کے ڈراموں میں دم توڈتے نظر آتے ہیں وہ اس تاریکیمیں موت کے متمنی نہیں ہیں اور اپنے سے پہلے لایعنی لکھنے والوں کی طرح وہ تباہی کو انسان کا مقدر تصور نہیں کرتے۔ ایلبی کے یہاں مستقبل کا تصور مبہم ہے۔۔۔ " اے ڈی لیٹ بیلز"میں کلیر کا کردار کہتی ہے" ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرلیں اور دوسری یلغار کا انتظار کریں " ۔۔ وہ معاشرے کو ایک چڑیا گھر تصور کرتے ہیں انھوں نے چڑیا گھر سے مراد امریکی معاشرہ لیا ہے۔ جیاں پر درندے بستے ہیں جہاں انسان انسان کو کھا رہے ہیں۔ ، معاشرے میں ہمدردی اور محبت نام کی چیز نہیں ہے جہاں ہر شخص تشکیک، نفرت، ریا کاری اور حسد کے جذبات ایک دوسرے کے لیے رکھتا ہے۔ ایلبی امریکہ میں دہشت اور طوفان کو اٹھتا ہوا دیکھتے ہیں{ مثال 9/11 کا واقعہ} ۔ رسم ورواج کے حوالے سے وہ انسان کا انسان۔۔ انسان کا معاشرے اور ماحول اور آخری میں خدا سے رشتے کی ماہیت اور نوعیت کو تلاش کرتے ہیں۔ تمام سائنسی اور معاشرتی ترقیوں کے باوجود ان کی نظر میں امریکہ کا ایک خوف ناک خواب ہے۔ ایک خوف ناک فضا کے علاوہ اس کے ڈراموں میں جنس، دہشت اور تشویش بھی ہے۔ ایلبی کا کنبہ منتشر ہے، جہاں تعلقات بکھرے ہوئے ہیں۔ ۔وہ بنیادی طور پر فرد کے عمل اور ارتقا کے ڈرامہ نگار تھے۔ " امریکی خواب" ایلبی کے یہاں ایک ڈراونا خوب ہے۔ اسے بھی آئنسکو کی طرح بھوتوں ، ڈائن اور بلاوں نے بھرا ہوا ہے مگر ایلبی کا خیال ہے اب بلاوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ بلاوں کو انسان نے خود پیدا کیا ہے۔ اس لیے اسکو قلع قمع بھی انسان ہی کرسکتے ہیں۔۔ چاہے اس کا تعلق " کلیسا کے شہزادون سے ہویا گھریلو کشمکش اور خاندانی رشتہ بندیوں سے یہ بلائیں تو ہیں مگر ناگہانی نہیں ہیں۔ اس بھیانک حقائق کے پس منظر میں معاشرتی اور معاشی عوامل کرفرما ہیں۔ یہ امریکی خوب کی تعبیر ہے۔ جس میں یساریت پسندی، جوہری توانائی کی ہولناکی، سرد جنگ، نسلی منافرت، اور مخصوص مفادات نے ہلچل مچا دی ہے۔ اور اس سے بڑح کر وہ خطرہ ہے جو آج کے ترقی یافتہ انسان کو اپنی ہی ترقی سے ہے وہ سائنس سے ہے۔ سائنس جو انسانوں کو اشیاء میں تبدیل کررہی ہے اور جس کا سسب سب سے زیادہ مہلک ہتھار تاریخ اور "جنٹیک انجینرنگ" ہوں گے۔ ایلبی امریکی معاشرے کی اعلی اقدار کے دعووں کو خودفریبی اور منافقت تعبیر کرتے ہیں۔ ایلبی اسٹرنڈبرگ سے متاثر ہیں ان دونوں کے مابین مختلف سطحوں پر مماثلت نہ اتفاقی ہے اور نہ یہ اکتسابی ایلبی نے اسٹرنڈبرگ کے ڈراموں پر مشق کی ہے۔ بلکہ یہ حقیقت ہے کی جس طرح سطحی سکون اور اطمینان کے نیچے کے نیچے آتے ہوئے اسٹرنڈبرگ نے آتے ہوئے طوفاں اٹھتے دیکھے تھے۔ اسی طرح ایلبی نے یہ خطرات اپنے امریک ماحول میں دیکھتے ہیں۔ یہ خود فریبی، التباس اور خود ساختہ حصاروں کی وہ دنیا ہے جیسے صاحب بصیرت فنکارمسمار کرنا چاھتا ہے۔ ایلبی یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ کون سے حقائق ناقابل برداشت ہوں اور اس سے فرار ممکن نظر نہ آئے تو بھر دو سہارے ہی نظر آتے ہیں یان حقیقت پر لفظوں کے خوبصورت اور قابل قبول پردے ڈالے جاتے ہیں۔ یا بھر خیالوں کی کے جہاں بسائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ عقیدہ بھی محض لفظ بن جاتا ہے اور لفاظی ہی مسلک بن جاتا ہے ۔ ایلبی کا خیال ہے کہ لفظ جو حقیقت کی مختلف صورتوں کی علامتیں ہیں یہاں خود حقیقت بن جاتے ہیں۔ اور حقیقت محض عامت ہوکر رہ جاتی ہے۔ سریلزم اور لایعنیت/ ایبسرڈازم میں یہی معکوس دنیا نظر آتی ہے۔ جہاں لفظ ہی ٹھوس حقیقت ہے اور اس کے حوالے سے ییخارج کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے
ایڈورڈ ایلبی " گے"/ GAY { ہم جنس پرست} تھے۔ انھیں بارہ سال کی عمر میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ " گے" ہیں۔ ان کے " گے تعلقات" لرچل مننڈوزینگر سے رہے۔ 1971 سے ان کی موت تک ان کے دوسرے " گے" ساتھی جانتھن تھامسن سے بھی رہا۔ ایلبی ہم جنسیت پر بڑی دلیری اور بے باکی سے لکھتے تھے اور عوامی اور نجی نشتوں میں اپنے خیالات کا اظہار کھل کر کیا کرتے تھے۔ وہ اس کو فطری جذبہ کہتے تھے۔ جو فطرت نے انسان کو فراہم کیا ہے۔ یہ کوئی غلط عمل نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کو غیر معمولی کہا جاسکتا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں سمجھ سکے کی جنسیت کو کس کس رنگون سے رنگا جائے۔ بقول ایلبی ہم دوسروں کو ہم جنس ہرستوں پر نفرت کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ جو مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ جارہانہ رویہ ہے۔ ایلبی کا کہنا ہے کہ ہم جنسیت انسان کے اپنے آپ میں منتقل ہوتی جارہی ہے۔ اور کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ " وہ ہم جنسون کے لکھنے والے نہیں ہیں "۔ تیڈورڈ ایلبی نے " ہم جنسوں کا شہر" {GAY CITY} کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
ایڈورڈ ایلبی ایک عہد اور ایک نسل کے عظیم ڈرامہ نگار ہیں انھوں نے امریکی فرد کے نفسیاتی اور عمرانیاتی ، پریشانیوں، بحران، اعصابی تناو، پر بڑی گہرائی سے لکھا ہے۔ جس میں وہ شدت پسندی اور سچائی کے درمیان رہ کر اصل معاصر معاشرتی چہرہ کو شناخت اور دریافت کرنا چاھتے ہیں اور ان کے درمیاں فرق کو بھی واضح کیا۔ وہ امریکہ کی گردش کرنے والی دنیا میں میں آنے والی تباہی کو محسوس کرتے رہے۔ ایلبی نے اپنے ایک ڈرامے " ME, MYSELF AND I" میں ایک جنگجو کو انسانیت کا ہیرو بتایا ہے جو اس ہیرو کے لیے جنگ کرتے ہیں جو تہذیب و ثقافت معتّبر اورقیمتی ہوتے ہیں ۔ ایلبی مثبت علامتوں کو بھی برتے ہیں جس مین سب سے زیادہ اہم علامت یہ ہے کی حقیقتیں عارضی ہیں اور اضافی ہیں انھیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایلبی کی مثبت ڈرامائی اسطوریہ {MYTH} ہے۔ جہاں انسان کا اصل کرب اور مسئلہ 'رشتوں کا بکھراو" ہے۔ راقم الحروف نے اپنی کتاب۔۔" جدید تھیٹر" میں لایعنی تھیڑ کے باب میں ایڈور ایلبی کے ڑراموں پر لکھا ہے۔ یہ کتاب فروری 1985 میں ادارہ ثقافت پاکستان ، اسلام آباد نے شائع کی تھی۔