ایک زمانے میں میرا کراچی سے مسلسل ربط رہا تھا۔ کاروبار میں ملوث ہونے کے سبب میمن برادری کے کاروباری افراد سے بھی تعلق رہا تھا۔ بڑے اچھے اچھے میمن بھی ملے جو علم و ادب، عقل و دانش سبھی اچھے اعمال و افعال سے شناسا تھے، اعلٰی تعلیم یافتہ بھی تھے لیکن ان سب کی تان بالآخر ’کھوکھا‘ ’پیٹی‘ پر ہی ٹوٹتی تھی۔ محمد علی جناح چونکہ ایک آئکون بن چکے ہیں، ان کو کبھی دیکھا بھی نہیں البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ اپنے زمانے کے بہت زیادہ فیس لینے والے وکیلوں میں شمار ہوتے تھے یعنی کاروبار سے ان کی بھی وابستگی تھی۔ پھر ایک حبیب ولی محمد تھے کیا خوب گاتے تھے، سنا ہے کہ بڑی کاروباری فیملی کے فرد تھے تو یوں ان کا تعلق بھی کاروبار سے رہا ہوگا۔
1988 میں میرے سب سے بڑے بھائی سے چھوٹے بھائی جو مجھ سے تو بہت بڑے تھے، کراچی کے کیسی علاقے میں موٹر سائیکل پر سوار جا رہے تھے، سامنے سے آتی تیز موٹر کار نے ٹکر ماری وہ اچھلے سر کے بل پکی سڑک پر گرے اور انتقال کر گئے۔ کار والا نو دو گیارہ ہو گیا۔ ان کا بیٹا دبئی گیا ہوا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی کراچی میں تھا جس نے ہم سب کے پہنچنے کے انتظار میں ان کا جسد خاکی ایدھی کے سرد خانے میں رکھوا دیا تھا۔ ہم سب پہنچ گئے۔ اگلے روز لاش لینے کی خاطر چھوٹے بھائی کے ہمراہ میرا ایدھی کے سرد خانے جانا ہوا تھا۔ وہاں موجود عملے کی خدمات خالصتاً انسانی تھیں۔
پھر جب میں لاہور کے ایک نواحی قصبے میں مطب چلا رہا تھا تو ایک معروف شخص کی بنا بیاہی بیٹی کے ہاں بچے کی پیدائش کے تمام معاملات سے نمٹنے کے بعد جب متعلقہ شخص نے جو بظاہر بہت انسان دوست ہونے کا داعی تھا، نومولود کو مارنے کی بات کی تو مجھے فوراً کسی دن ایک گاڑی پر ’قتل نہ کر جھولے میں ڈال‘ لکھا دیکھنا یاد آیا تھا اور میں نومولود کو اپنی گاڑی میں ڈال صبح تڑکے لاہور روانہ ہو گیا تھا۔ میں احمد سلیم سے ملنے پونچھ روڈ جایا کرتا تھا اس لیے مجھے یاد تھا کہ وہاں کہیں ایک ’ایدھی سنٹر‘ بھی تھا۔ وہاں موجود عملے نے کوئی سوال نہ کیا، بچی کو میرے ڈسپنسر کے ہاتھوں سے لیا، دودھ سے بھری بوتل منگوائی اور بچی کے منہ سے لگا دی، جس نے اسے فوری طور پر پینا شروع کرکے آنکھیں کھول دیں اور میں مطمئن ہو کر وہاں سے چلا گیا۔
یہ عبدالستار ایدھی جو ایسے ایسے کام کرتا تھا درحقیقت بڑا ہوشیار شخص تھا جس نے ایسا کاروبار کیا جس کا منافع لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اربوں گنا ہے۔ وہ مسلمان تھا، قیامت پر یقین رکھتا تھا اور جزا و سزا سے بھی شناسا تھا چنانچہ اس نے ایسے ایسے کام کیے کہ جنت کی رئیل اسٹیٹ کا ایک بڑا حصہ ان کاموں کے منافع میں اپنے نام لکھوا لیا۔ اور تو اور زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً بھی اسوہ رسولؐ پر عمل کرتا رہا دو کھدر نما کپڑے کے جوڑے، ٹوٹی ہوئی چپل، نہ گھر نہ اثاثہ۔ یوں اگلے جہان میں تعظیم بھی اتنی پانے کا اہتمام کر لیا کہ اس توقیر کا عکس اس کی موت کے فوراً بعد اخبارات کے اولیں صفحات میں جگہ پانے، مشاہیر کے تعزیتی پیغامات جاری ہونے اور عوام کی بے پناہ محبت کے اظہار سے عیاں ہے۔
میں نے مودودی صاحب کا اطاق مطالعہ بھی دیکھا جہاں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پلائی تھی اور جاوید غامدی کے اطاق ہائے مطالعہ بھی۔ ان شخصیات نے ذوق کی تسکین کی خاطر سادگی سے احتراز کرنے سے متعلق پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ چونکہ علمی شخصیات ہیں اس لیے شاید علم کے حصول اور اشاعت کی خاطر مطالعے کے کمروں میں اچھا قالین، اچھے پردے، اچھی الماریاں، اچھی اچھی مرصع جلدوں والی کتابیں درکار ہوتی ہوں لیکن ایک عملی کام کرنے والی شخصیت عبدالستار ایدھی کے لیے یہ سب چیزیں بے کار تھیں اور یقین جانیے کہ ایدھی کی کہی سامنے آنے والی باتوں سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ علم میں کسی سے کم نہیں تھا البتہ اس نے علم کی بجائے عمل کو شیوہ بنانے کو ترجیح دی تھی۔
ذرا غور فرمائیے عبدالستار ایدھی کیسی باتیں کرتا تھا، ’’ ۔ ۔ ۔ دراصل ہمارے مولویوں اور لیڈروں نے دو لفظوں پر بڑا زور دیا ہے، ایک ہے ’صبر کرو‘ دوسرا ہے ’تقدیر‘، یہ دونوں لفظ دراصل مظلوموں کو اپنا غلام بنانے کے لیے ہیں۔ ہم صبر کرتے رہیں اور وہ ظلم کرتے رہیں، ہمارا حق مارتے رہیں اور ہم اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں کہ بیچ میں تقدیر آ جاتی ہے کہ میری تقدیر ہی خراب ہے۔ یہ دراصل سرمایہ داروں کی ایک چال ہے‘‘۔
’۔ ۔ ۔ ۔ میرے بھائی لاوارث لاشوں کو دفنانا میرے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تو ان لاشوں کا ہے جو معاشرے میں زندہ ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ ملا نہ مولوی، نہ افسر نہ حاکم ، نہ لیڈر نہ سیٹھ‘۔ کیا یہ عالمانہ باتیں نہیں؟ مگر اس نے اپنا کوئی حلقہ نہیں بنایا، اس نے لوگوں کو باتوں کا دھنی بنانے کی بجائے عملی کام کرنے کی جانب راغب کیا۔ کم پڑھا لکھا ہونا یا ان پڑھ ہونا کوئی عیب نہیں، رسولؐ اللہ بھی تو امی تھے۔ اصل بات ہوتی ہے جو کہنا اس پر عمل کرنا۔ ایدھی نے ہی بتایا تھا، ’ایک سیٹھ نے فون کیا اور کہا آ کر دس لاکھ روپے لے جاؤ، میں نے کہا آ کر دے جاؤ، وہ بولا اچھا جب زیادہ ضرورت پڑے تو لے جانا، میں نے کہا اپنے پاس رکھو۔ کوئی ایدھی کو دے رہا ہے جو ایدھی جا کر اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔ نیک کام کے لیے دینا چاہتا ہے تو آئے اور آ کر دے‘ یہ محض عزت نفس نہیں ایک سبق ہے۔
مولوی حضرات اور نام نہاد سماجی تنظیمیں عبدالستار ایدھی کی اس لیے مخالف ہو گئے کہ لوگوں نے مولوی حضرات اور نام نہاد سماجی تنظیموں کے زعما کی ’چندہ خوری‘ کی عادت سے واقف ہونے کی بنا پر بیشتر چندہ ایدھی فاؤنڈیشن کو دینا شروع کر دیا تھا۔ ایسے مولویوں کی جانب سے لگائے الزامات کے جواب میں عبدالستار ایدھی نے کہا تھا، ’میں تو اس جنت میں جاؤں گا ہی نہیں جہاں یہ لوگ (نام نہاد مولوی) ہونگے۔ یقیناً ایدھی کی جنت وہ ہوگی جو خالص اور کام کے دھنی لوگوں کی جنت ہوگی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔