لین دین، تجارت، اشیاء کا تبادلہ انسان کی یونیورسل فطرت کا حصہ ہے اور قدیم تاریخ سے رہا ہے۔ دسیوں ہزاروں پرانی آرکیولوجیکل سائٹس میں بھی خوبصورت کوڑیاں اور دھار والے پتھر ملتے ہیں جو سینکڑوں میل دور کا سفر کر کے وہاں پر پہنچیں ہوں گے۔ یہ تجارت کے نیٹ ورک سے ہی ہو سکتا ہے۔
ایتھنوگرافی کا لٹریچر ہمیں بتاتا ہے کہ ٹرانزیکشن چار طریقے سے ہوتی رہی ہے اور ہر ایک کی اپنی نفسیات ہے۔ پہلا طریقہ کمیونل شئیرنگ کا ہے۔ لوگوں کا ایک گروپ، مثلا خاندان کے افراد اشیاء شئیر کرتے ہیں۔ اس چیز کا حساب کتاب نہیں رکھا جاتا کہ کس نے کیا استعمال کیا۔ دوسرا اتھارٹی رینکنگ ہے جس میں بااثر افراد کا کنٹرول ہوتا ہے اور وہ اس کی تقسیم اپنی صوابدید پر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی دو طریقے تبادلے اور لین دین کے ہیں۔
اس کی ایک قسم برابری کی میچنگ کی ہے۔ دو افراد ایک دوسرے سے اشیاء کا تبادلہ مختلف اوقات میں کرتے ہیں اور حساب کتاب غیررسمی ہوتا ہے۔ جب یہ برابر کا رہے تو ہر کوئی خوش رہتا ہے۔ لین دین ان کو رشتے میں جکڑ لیتا ہے۔ تحائف کا تبادلہ صرف خاندانوں میں نہیں، قبائل اور اقوام میں ہوتا رہا ہے۔ بحراوقیانوس کے جزائر کی تجارت اس بنیاد پر تھی۔ ایک چیف سے دوسرے چیف تک تحائف کا تبادلہ۔ اگر جوابا ملنے والے تجائف منصفانہ نہیں، تو یہ بات جنگ پر بھی جا سکتی تھی۔ یہ ادلے کے بدلے کے ذہنی ماڈل پر چلتا ہے۔
اکنامکس میں آنے والی بڑی جدت مارکیٹ پرائسنگ کی تھی۔ بڑے اور پیچیدہ گروپس اس کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔ کرایہ، قیمت، تنخواہ، معاوضہ، منافع، اس طرح کی چیزیں جدید اکنامکس کی بنیاد ہیں۔ اس کے لئے ریاضی، ضرب، تقسیم، فریکشن، بڑے اعداد کی سینس چاہیے۔ سوشل ادارے جیسا کہ پیسہ، معاہدے، لیبر کی پیچیدہ تقسیم، رسد کے نیٹورک چاہیئں۔ چھوٹے سائز کے معاشروں میں اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے اور جب تک ریاضی، پیسہ اور فارمل ریاضی نہیں آئے تھے، معیشتیں ان کے بغیر بھی چلتی رہی تھی۔ سوشل اکانومکس کا موجودہ طریقہ نیا نہیں اور یہ سب کچھ ہماری اپنی وجدانی سمجھ کے خلاف ہے۔
اس وقت عالمی معیشت کیسے کام کرتی ہے؟ عام فرد کے لئے یہ تصور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی نہیں اور اس کے اسباب کی زنجیریں کس قدر پیچیدہ ہیں۔ ایک مصنف نے کتاب لکھی۔ اس محنت کے عوض وہ اپنے رات کے کھانے کا بندوبس کر رہا ہے۔ وہ اپنی کتاب مرغی والے کو دے کر مرغی نہیں لے رہا۔ اس سب کے درمیان وہ کتنے بڑے نیٹ ورک پر انحصار کر رہا ہے، وہ خود اس سے واقف نہیں۔ پبلشر، کتاب بیچنے والا دکاندار، ٹرک ڈرائیور جو اس کتاب کو ٹرانسپورٹ کر رہے ہیں، کموڈوٹی ٹریڈر تو اس زنجیر کی ابتدا ہیں۔
ہماری ٹرانزیکشن کے مختلف طریقوں کا انحصار تعلق اور صورتحال پر ہے۔ گھر آئے مہمان کو کھانا کھلانے پر قیمت ادا کرنے کی توقع نہیں کی جائے گی۔ دوست سے موٹرسائکل مانگنے، اپنے دفتر میں چائے پینے، دکان سے بسکٹ خریدنے، کرنسی ایکسچینج کروانے وغیرہ کے لین دین میں ہم سب یہ پہچان رکھتے ہیں کہ کیا طریقہ مناسب ہے۔ یہ سب نفسیات کے بالکل مختلف حصوں کو چھیڑتے ہیں۔ کچھ یونیورسل، کچھ بدیہی، کچھ سیکھے ہوئے۔ اور اپنے ذہنی اوزاروں کی حدود دنیا میں اکنامکس پر ہونے والے بڑے بحرانوں، تصادم اور لڑائیاں کا باعث بنتی رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال اکانومسٹ “فزیکل فیلیسی” سے دیتے ہیں۔ یہ یقین کہ کسی شے کی کوئی “اصل اور مستقل” قیمت ہے۔ کسی بھی چیز کی قیمت وقت، جگہ اور لین دین کرنے والوں کی خواہش طے کرتی ہے۔ یہ “فلیسی” برابری کی میچنگ اور مارکیٹ پرائزنگ کے درمیان ہونے والی کنفیوژن سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر تین مرغیوں کے بدلے ایک چھرا خریدا جائے گا تو یہ کنفیوژن نہیں ہو گی۔ لیکن جب پیسہ، کریڈٹ اور تیسری پارٹیاں اس لین دین میں آنا شروع ہو جاتی ہیں تو پھر اس کو سمجھا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ لیکن اس نظام کے بغیر کوئی بھی پیچیدہ معاشرہ نہیں چل سکتا۔
یہ غلط خیال کہ کسی چیز کی ایک “منصفانہ قیمت” ہے اور اس سے زیادہ قیمت منافع خوری، یہ قرونِ وسطیٰ، کمیونزم اور تیسری دنیا میں کئی بار ایک غلط رواج شروع کرتا رہا ہے جو چیزوں کی قیمت کو فِکس کر دینے کی پریکٹس ہے۔ اسکا نتیجہ اشیاء کے ضیاع، قلت اور بلیک مارکیٹ کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کی ایک اور شکل سرمایہ کاری سے خوف اور سرمایہ کار کو مشکوک سمجھنا ہے کیونکہ وہ اپنا کام منافع کے لئے کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے، وہ اس کا اچھا استعمال نہیں کر سکتا۔ اس کے نتیجے میں سب کا معیارِ زندگی نیچے جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح کی ایک اور مثال مڈل مین کے بارے میں تاثر ہے۔ ایک پھل فروش جس سے میں گھر پر کیلا خرید سکتا ہوں، وہ میرے لئے زیادہ مفید ہے، بجائے اس کے کہ سستا کیلا خریدنے منڈی جاوٗں۔ مڈل مین کو نکال دینے سے میں بھی نقصان میں ہوں، کیلا اگانے والا بھی۔ مڈل مین اکانومک نیٹورک میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ادلے بدلے سے لین دین کی فطری سمجھ اور اپنی نفسیات کی کمزوریوں کی وجہ سے ہمیں ان کا کردار سمجھنے میں دشورای ہوتی ہے۔ اس وجہ سے سرمایہ لگانے والے اور مڈل مین عام طور پر زیرِ عتاب رہتے ہیں اور ان کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ تاریخ میں بار بار دہرایا جانے والا ایک ایونٹ یہ رہا ہے کہ مڈل مین دولت کی ضبطی، نکال دئے جانے اور تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں، خاص طور پر اگر ایسی سپیشلائزئشن اقلیت کر لے۔ تارکِ وطن چینی، لبنانی، آرمینین، یا پھر انڈیا میں گجراتی اور چتیار اس کا نشانہ بن چکے ہیں۔،
ایک اکانومسٹ جنگِ عظیم کے کیمپ میں اس کی اپنی ذاتی دیکھی ہوئی مثال دیتے ہیں جہاں پر تمام قیدیوں کو ریڈ کراس کی طرف سے یکساں راشن ملتا تھا۔ کسی کے لئے سگریٹ زیادہ اہم تھے، کسی کے لئے چاکلیٹ، کسی کے لئے کچھ اور۔ ایک شخص نے یہ دیکھا کہ کس کو کیا زیادہ پسند ہے۔ اس نے ہر ایک کو اس کی پسند دینے کے لئے لین دین شروع کر دیا، اپنا منافع اس میں سے رکھ لیتا۔ اگرچہ اس کے ایسا کرنے میں بالآخر سب کا فائدہ ہو رہا تھا لیکن چند ہی روز کے بعد اس کا حشر اچھا نہیں ہوا اور ساتھیوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تجارت ختم ہو جانے کے بعد ہر کوئی واپس نقصان والی پوزیشن میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکانومکس آسان نہیں ہے جبکہ اس سے ہمارا واسطہ روز کا ہے۔ جہاں پر اس میں ایک طرف ہمیں فزیکل فیلیسی جیسے مغالطے نظر آتے ہیں، وہاں پر دوسری طرف انسانی نفسیات کو نظرانداز کر کے بنائے جانے والے ماڈلز سے ہونے والے معاشی بحران بھی۔ انسانی نفسیات کی مدد سے اکانومکس کو پڑھنے کے لے بیہیورئیل اکنامکس کو اب تیزی سے اہمیت مل رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دنیا میں اکانومکس کی اہمیت سے شاید ہی کوئی انکار کرے۔ اگر عام لوگ اس کے بارے میں بنیادی علم نہ رکھیں تو اس کا نتیجہ غلط سیاسی ترجیحات اور پاپولزم کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ صرف تیسری دنیا کا مسئلہ نہیں ہے بڑی انسانی ٹریجیڈی اس بارے میں ہماری کمزوریوں کی وجہ سے آتی رہی ہیں اور آ رہی ہیں۔ اس میں اپنی سمجھ کی غلطیاں ڈھونڈنے کا سب سے پہلا قدم تعلیم ہو سکتا ہے۔
اکنامکس کا مضمون سکول یا کالج کے نصاب کا حصہ نہیں ہے۔