دیاؤس اور پرتھوی یعنی آسمان اور زمین کو آسمانی جوڑا خیال کیا جاتا ہے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دیگر وحشی یا نیم وحشی یا مہذب قوموں بلکہ تمام دنیا میں یہ تصور پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح آگ، بارش۔ بجلی یا سورج کے خیال سمجھنے سے زیادہ دقیق یا مشکل ہے۔
قدیم زمانے میں لوگوں کے نذدی وہ زیادہ اہم تھیں جو ان کی عقل سے باہر تھیں۔ یہ وجہ ہے فطرت کے مختلف مناظر دیو سمجھے جاتے تھے۔ اس لیے قدئم آریاؤں نے بھی کائنات کو مرئی اور غیر مرئی عالموں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا دو عالموں یعنی آسمان اور زمین پر مشتمل ہے۔ لہذا زمین اور آسمان کے دیوتاؤں کے علاوہ آسمان کے دیوتا جو کہ نظروں سے دور (تیسرا لوک) میں رہتے ہیں۔ ان میں خاص دیوتا چمکیلا آسمان (دیاؤس) ہے اس کی پرستش آریہ ہجرت سے پہلے سے کرتے تھے اور زمین (پرتھوی) کو اس کی بیوی بتایا گیا ہے۔ رگ وید میں ان دونوں کو کئی نام سے پکارا گیا ہے اور ان کے درمیان زن و شو کا رشتہ بتایا گیا اور ان سے تمام مخلوق پیدا ہوئی اور وہی ان کی زندگی کو قائم رکھتے ہیں۔ ان دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ دیاؤس پرتھوی کے نام سے مخاطب کیا گیا ہے۔ مگر کئی جگہ پر پرتھوی کے بجائے اندر دیوتا کا نام بھی آتا ہے۔
دیاؤس (آسمان) کا مادہ دیو ہے جس کے لغوی معنی چمکنے درخشاں کے ہیں۔ ایک گرم یا نیم گرم ملک میں آسمان کو سوائے نور اور درخشاں ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہی درخشاں آسمان دیوتا ہوگیا اور ایسا دیوتا جس کو تمام آریا اقوام اپنا دیوتا مانتی تھیں۔ دیاؤس یا دیاؤس پتھر کو یونانی زیوش، زیوس پائر اور لاطینی میں ڈائیس پیٹر یا جوپیٹر کہتے تھے۔ یہ کلمہ بعد میں ڈیوس یعنی دیوتا ہوگیا اور اس کو مسیحوں نے بھی اختیار کرلیا۔ جدید زبانوں میں ڈیوڈیوس ڈیو وغیرہ اور ڈیو‘س Dious ڈیوائن Divine وغیرہ اسی مادے سے ماخوذ ہیں۔ ڈُیوس کے نام کے ساتھ آسور کا لفظ بھی اکثر آتا ہے۔ جس سے اس کی قدامت کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ کیوں کہ ابتدا میں اسور نیک ہستیوں کے لیے مخصوص تھا مگر بعد کے زمانے میں خبیث ہستیوں، شیاطین اور بھوت پریت کے لیے مخصوص ہوگیا۔ جو ہمیشہ ہندوؤں کے افسانوں میں دیوتاؤں سے لڑتے رہتے تھے۔ یہ تبدیلی کس زمانے میں ہوئی اس کا تعین نہ ہوسکا۔ البتہ یہ رگ وید کی تدوین کے زمانے میں عمل میں آیا ہوگا۔ کیوں کہ رگ وید میں یہ کلمہ دونوں قسم کے دیوتاؤں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جن شلوکوں میں یہ کلمہ نیک دیوتاؤں کے لیے استعمال کیا گیا ہے وہ قدیم تر خیال کیے جاتے ہیں۔ جب کہ اسور کا کلمہ خبیث قوتوں کے لیے مستعمل ہوگیا تو نیک قوتوں کے لیے ایک دوسرا لفظ دیو تراشا گیا جو اسی مادے سے ماخوذ ہے جس سے دیاؤس ماخوذ ہے۔ جس کو برصغیر کے آریا ابتدا میں درخشاں ہستیوں کا استعمال عام طور پر کرتے تھے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیوتاؤں کا تخیل پیدا ہوگیا۔ اس کے برخلاف ایرانیوں نے اسور کے نام کو اصل معنوں میں برقرار رکھا اور زرتشت اور اس کے پیروؤں نے خالق کے نام میں اس کو شریک کرکے اہور مزد کردیا اور غالباً اپنے ہندی بھائیوں کے خیالات پر نفرت کا اظہار دیو کا اطلاق انہوں نے شیاطین پر کردیا۔ جن کو وہ دائی دا کہتے تھے جو فارسی دیو ہوگیا جو انگرامینوش (اہرمن) کے خدام تھے۔ اس توارد اور اختلاف خیالات میں اس قدر وضاحت اور انضباط ہے کہ اس سے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ آریاؤں کی ہندی اور ایرانی شاخوں علحیدیگی کا سبب مذہبی اختلاف تھا۔ حالانکہ آریاؤں کی دیگر شاخوں کے مقابلہ میں یہ دونوں زیادہ مدت تک ایک ساتھ رہے۔ رفتہ رفتہ دیاؤس کو فراموش کر دیا گیا اور اس کی جگہ وارن نے لے لی۔
رگ وید کے مطابق آسمان اور زمین پہلے ملے ہوئے تھے پھر انہیں دیوتاؤں نے علحیدہ کردیا۔ اگنی دیوتا زمین کو پکڑے ہوئے اور آسمان کو سہارا دیتا ہے۔ اندر انہیں علحیدہ کرتا ہے”۔ سوم دیوتا بھی یہی فرض انجام دیتا ہے اور دیوتا بھی یہ کام انجام دیتے ہیں۔ ایتری برہمن کے مطابق ابتدا میں زمین و آسمان ملے ہوئے تھے۔ لیکن وہ الگ ہوگئے تو بارش ہوئی نہ سورج نکلا اور نہ پانچ قبیلوں کا باہمی اتفاق رہا تو دیوتاؤں نے انہیں دوبارہ ملا دیا اور ان کا بیاہ رچایا۔ یہاں یہ خیال کام کر رہا ہے کہ پہلے زمین و آسمان اکھٹے تھے اور بعد میں وہ الگ ہوگئے۔ جب وہ جدا ہوئے تو قدرت میں جنگ نہ ہوئی۔ اس لیے نہ بارش ہوئی نہ سورج نمودار ہوا۔ آخر آسمان اور زمین ملائے گئے۔
بہت سے رشی منی کا خیال تھا کہ جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے ان دونوں کی ملکیت ہے۔ کیوں کہ یہ سب کچھ انہوں نے ہی پیدا کیا ہے۔ اس لیے دیوتا، سورج، صبح شفق، اگنی، (وایو) ہوا اور (پرشنا) بارش سب ان کی اولاد ہیں۔ اس طرح دیاؤس و پرتھوی (آسمان و زمین) تمام دنیا کے ماں باپ سمجھے جاتے تھے۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کسی حثیت میں زمین اور آسمان کے دیوتا تھے؟ کیا وہ خالق سمجھے جاتے ہیں اور ان کے لیے جمع کا صیغہ استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ یونانی انہیں دیوتا سمجھتے تھے جو ذہنی ترقی کے بعد اس درجہ پر پہنچے اور وہ ویدوں کے دیوتاؤں سے مختلف تھے۔ قدیم زمانہ کے فسانوں کے دیوتا نہ جاندار تھے اور نہ ہی جسم رکھتے تھے۔ دیو جس کا ترجمہ دیوتا کیا جاتا ہے وہ اصل ایک صفت ہے جو کہ آسمان اور زمین، سورج اور چاند، صبح شفق اور سمندر میں پایا جاتی تھی۔ یعنی جلا (روشنی) اور دیوتا کا خیال صرف چمکیلے وجود میں سے تھا۔
پرتھوی کے نام میں کوئی اعلیٰ تخیل نہیں۔ کیوں کہ اس کے لغوی معنی چوڑے کے ہیں اور یہ خیال قدیم زمانے میں ایسے علاقہ میں پیدا ہوگا جہاں اونچے اونچے پہاڑ اور واقع تھے۔ یعنی آریاؤں کے پنجاب میں آباد ہونے سے قبل پیدا ہوا ہوگا۔ جب کہ وہ وسط ایشیا کے ہموار دشت ہائے بے پایاں میں آباد تھے۔