انسان کی وائرس سے واقفیت پرانی ہے۔ یہ ہمیں بیماری کی صورت میں اپنا اثر دکھاتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ہم ان سے براہِ راست واقف ہونا شروع ہوئے تھے لیکن وائرولوجی کا دائرہ بہت محدود تھا۔ اس کی توجہ اس پر تھی کہ ان میں سے کونسے ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ وائرولوجسٹ وائرس کو ہمارے اپنے بہت ہی محدود تعلق سے باہر کم ہی دیکھتے تھے۔
ان پر نئے طریقے سے پہلی نظر جنگِ عظیم اول کے درمیان میں پڑی۔ فرانسسی فوجی بڑی تعداد میں مر رہے تھے۔ نہ صرف جرمنوں کے ہاتھوں بلکہ بیکٹیریا کی وجہ سے بھی۔ یہ مائیکروپ ان کے زخموں پر حملہ کرتے۔ کھانے پینے کی اشیاء پر۔ عالمی فلو کی وبا نے ان کی مدد کی اور یہ لوگوں کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوئے۔
یہ وہ دور تھا جب اینٹی بائیوٹک موجود نہیں تھی۔ ٰیہ 1930 کی دہائی میں دریافت ہونا تھی۔ اس وقت زخموں کو صاف کر دیا جاتا تھا۔ اگر ناکام رہے تو بازو یا ٹانگ کو کاٹ دیا جاتا اور عام طور پر مریض پھر بھی انتقال کر جاتا۔
اس سب کے بیچ میں فیلکس ڈی ہیریل نے 1917 میں ایک نئی دریافت کی جو ایک معجزہ لگ رہی تھی۔ ایک طاقتور شے جو بیکٹیریا کو مار دیتی تھی۔ ہیریل نے وہ دریافت کیا تھا جس کا کسی نے تصور نہیں کیا تھا۔ ایک وائرس جو انسان یا جانور پر نہیں بلکہ بیکٹیریا پر حملہ آور ہوتا تھا۔ ہیریل نے یہ دریافت فرانسیسی فوجیوں میں پیچش کی وبا کے دوران کئے جانے والے تجربات سے کی۔ ان سے حاصل شدہ مواد سے شگیلا (پیچس کرنے والا بیکٹیریا) کو الگ کیا۔ اس بیکٹیریا کو صاف شدہ محلول میں داخل کیا تو دیکھا کہ بڑھنے کے بعد کئی جگہوں سے بیکٹیریا کا صفایا ہو رہا ہے۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ یہ جنگ کا میدان ہے اور بیکٹیریا کے کشتوں کے پشتے لگا دینے والے وائرس ہیں۔ ان کا نام انہوں نے “بیکٹیریو فیج” رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیکٹیریا کو بیمار کرنے والے وائرس کا تصور اس قدر عجیب تھا کہ کئی سائنسدانوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔ اس کی شدید مخالفت کرنے والے فرانس کی نوبل انعام یافتہ سائنسدان جولس بورڈے بھی تھے۔ انہوں نے یہ تجربہ ای کولائی پر دہرایا۔ نتیجہ وہ نہ نکلا۔ ہیریل اور بورڈے کی شدید بحث برسوں تک چلتی رہی۔ 1940 کی دہائی میں سائنسدانوں نے الیکٹران مائیکروسکوپ آ جانے کے بعد دیکھا کہ ہیریل ٹھیک تھے۔
جس وجہ سے بورڈے کے تجربات مختلف نتائج دے رہے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ بورڈے جو تجربہ کر رہے تھے، وہاں پر ایک اور قسم کے فیج تھے۔ ٹمپریٹ فیج، جو بیکٹیریا کو انفیکٹ تو کرتے ہیں، اسے مارتے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیریل فیج کا عملی استعمال دیکھ رہے تھے۔ کیا اس کو بیماروں کا علاج کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ فیج دے کر مضر بیکٹیریا مارے جا سکتے ہیں؟ سب سے پہلا تجربہ خود اپنے اوپر کیا۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ فیج لینا محفوظ ہے۔ اس کے بعد پیچش اور ہیضے کے مریضوں پر تجربات کئے۔ سوئز نہر پر کام کرنے والی چار مریض جنہیں طاعون ہوا تھا، وہ اس سے صحت یاب ہو گئے۔
اس طریقے سے جلد کے زخم اور آنت کی انفیکشن کے مرض کا علاج کیا۔
زندہ وائرس سے علاج کا تصور کئی ڈاکٹروں کے لئے پریشان کن تھا۔ اینٹی بائیوٹک کی آمد کے بعد 1940 تک فیج سے علاج کا طریقہ پس منظر میں چلا گیا۔ اینٹی بائیوٹک فنگس اور بیکٹیریا سے پیدا ہونے والے پروٹین اور مصنوعی کیمیکل تھے اور بہت زیادہ موثر تھے۔ انکی کامیابی کا مطلب یہ نکلا کہ فیج تھراپی پر کام ختم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیریل کے طریقے پر سوویت یونین میں ایک تحقیقاتی ادارہ ایلیاوا انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا۔ اس نے 1963 میں فیج تھراپی کا سب سے بڑا ٹرائل تیس ہزار بچوں پر کیا۔ کچھ بچے شگیلا کے فیج کی دوا ہفتے میں ایک بارے کھاتے۔ دوسروں کو میٹھی گولی دی جاتی۔ 109 روز جاری رہنے والے اس ٹرائل میں جن بچوں کو میٹھی گولی ملی تھی، اس میں پیچش کا تناسب 6.7 فی ہزار رہا۔ جنہوں نے فیج والی گولی لی تھی، اس میں تناسب 1.8 فی ہزار رہا۔ فیج لینے کی وجہ سے امکان میں پونے چار گنا کا فرق پڑا۔
سوویت آہنی پردے کی پالیسی کی وجہ سے اس کامیاب تجربے کا علم جارجیا سے باہر کم ہی لوگوں تک پہنچا۔ 1989 میں سوویت یونین تحلیل ہو جانے کے بعد یہ خبر باہر نکلی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیج تھراپی متنازعہ ہے۔ اس کے حامی کہتے ہیں کہ یہ ہر طرف ہیں۔ ہمارے دہی، اچار اور کباب میں بھی۔ ہمارا جسم ان سے بھرا پڑا ہے۔ ہر روز یہ ہمارے جسم کے اندر بیکٹیریا کا بڑی تعداد میں شکار کرتے ہیں۔ ہمیں زندہ وائرس کو بطورِ علاج استعمال کرنے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ مطلوبہ عارضے کے علاج کے لئے فیج کی کاک ٹیل بنائی جا سکتی ہے اور عام بیکٹیریا کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر بیرونی وائرس جسم میں داخل خطرے سے خالی نہیں۔ اور اگر یہ بن بھی جائے تو ارتقا اس علاج کو بہت جلد بے کار کر دے گا۔ انفیکشن جلد واپس آ جائے گی۔ اس کے حامی اس کا جواب دیتے ہیں کہ ارتقا کا حربہ تو فیج کے پاس بھ ہے۔ اینٹی بائیوٹک کے برعکس مزاحمت حاصل کرنے والے بیکٹیریا سے خود نمٹ لیں گے۔
بوسٹن یونیورسٹی کے بائیولوجسٹ جیمز کولنز اور ایم آئی ٹی کے ٹم لو نے 2008 میں پہلا مصنوعی فیج بنانے پر پیپر شائع کیا۔ جینیاتی انجنیرنگ سے تیار کردہ فیج بیکٹیریا کے اینٹی بائیوٹک اور فیج کے خلاف سب سے موثر دفاع بائیوفلم کو بے اثر کر سکتا تھا۔ ان کے بنائے گئے فیج میں وہ جین تھی جو بائیوفلم کو حل کرنی کی انزائم بناتی تھی۔ ان کا اثر عام تھراپی سے سو گنا بہتر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کولنز اور دوسرے سائنسدان ایک طرف فیج کو مزید موثر بنانے کی طریقے ڈھونڈ رہے ہیں تو دوسری طرف اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت رکھنے والی بیکٹیریا میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ڈاکٹروں کو مہنگی اور آخری حربے کے طور پر استعمال ہونے والی ادویات کی طرف جانا پڑ رہا ہے جو مضر سائیڈ ایفیکٹ بھی رکھتی ہیں۔ نئی اینٹی بائیوٹک بنانے کی دوڑ بھی جاری ہے لیکن لیبارٹری سے مارکیٹ تک کسی دوا کو آنے میں دس سال سے زائد لگ جاتے ہیں۔ بیکٹیریوفیج مستقبل کی میڈیسن کا اوزار ہو سکتے ہیں۔
ایسی صورت میں، کیا ہیریل کی دریافت سے ایک صدی بعد کیا اینٹی بائیوٹک کے ساتھ بیکٹیریا سے لڑنے کا ہمارا اگلا ہتھیار فیج ہوں گے؟ ہم وائرس کو بیماری اور موت کے ذریعے جانتے رہے ہیں۔ کیا ہم اپنی صحتمند رہنے کے لئے اپنے دشمن کے دشمن کو استعمال کرنا سیکھ سکیں گے؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...