دوسری شادیوں والے بیسیوں نااہل ہوسکتے ہیں
57 سال پہلے آج کے دن یعنی 15 جولائی 1961 کو نافذ ہونے والا ایک قانون مسلم فیملی لا آرڈیننس مذہبی طبقے کی تنقید کا نشانہ تو اسی وقت سے چلا آرہا ہے۔ انہیں زیادہ اعتراض لڑکی کی شادی کیلئے کم از کم عمر 16 سال مقرر کرنے اور پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کی ممانعت پر رہا ہے۔ ایوب خاں پر الزامات میں " اپوا کی بیگمات کو خوش کرنے کیلئے یہ غیر شرعی قانون بنانا " بھی شامل تھا ۔لیکن اب اس قانون کے سیاست میں استعمال شروع ہونے سے سیاست دانوں کی طرف سے بھی مخالفت ہوسکتی ہے۔
اس قانون کو استعمال کرکے کچھہ امیدوار نا اہل کرائے جاچکے اور مزید کئی ہوسکتے ہیں۔
اس قانون کے تحت دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی کی اجازت اور اس اجازت کی مصالحتی کونسل سے تصدیق لازمی ہے ۔مصالحتی کونسل شوہر کی درخواست پر بیوی کو طلب کرکے دریافت کرتی ہے کہ کیا واقعی اس نے دوسری شادی کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن اکثر دوسری تیسری شادی کیلئے یہ قانونی ضرورت پوری نہیں کی گئی ہوتی۔ اس پر ایک سال قید اور 5 لاکھہ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔
اس بار نامزدگی فارم میں کئی امیدواروں نے پہلی بار اپنی دوسری تیسری شادی کا اعتراف کیا ہے کہ چھپانے پر نااہل ہوسکتے تھے۔لیکن اب گھروں میں جھگڑے شروع ہوگئے ہیں۔ایک ن لیگی وزیر کی بیوی نے غصے میں مخصوص نشست کا ٹکٹ نہیں لیا جو ایک طرح سے کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپے کا چیک ہوتا ہے۔
اب اس اجازت والے نکتے کا پہلی بیویاں اور مخالف امیدوار دونوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔امیدوار نااہل نہ ہوا تو منتخب ہونے کے بعد بھی عدالتی فورم میں معاملہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
سندھ اسمبلی کے سابق سپیکر اور سابق وزیر اسی معاملے میں پھنسے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تیسری شادی تو بس زبانی کلامی تھی!
ایک سابق وزیر اور اینکر کیا صفائی دے رہے ہیں کہ دوسری ابھی اپنے والدین کے گھر ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔