بالآخر احمد بھائی نے دُوسری شادی کرلی۔ سارے خاندان میں دُھوم مچ گئی۔ سب حیران تھے کہ احمد بھائی نے کیسے شادی کرلی۔ اُنہوں نے یہ جُرم کیسے کرلیا۔وہ امریکی تھے۔ کُچھ کا خیال تھا کہ اب وہ پہلی بیوی کو طلّاق دیدینگے۔ لیکن شمس باجی بہت پُرسکون تھی جیسے کچھ ہُوا ہی نہیں۔ احمد بھائی،شمس باجی کو بہت چاہتے تھے،اولاد کیلئے دونوں نے ہر طرح کی کوشش کرلی۔ علاج سے لیکر بزرگوں کی مزاروں پر حاضری،دیگوں کے صدقے۔منّت کے دھاگے ہر ٹوٹکہ کر لیا۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہُوا۔
کُچھ دِن بعد احمد بھائی،شمس باجی امریکہ واپس چلے گئے۔ دُوسری بیگم کیلئے ساز و سامان سے آراستہ نیا گھر،گاڑی وغیرہ ہر قسم کی آسائش فراہم کردی گئی تھی۔جانے سے پہلے شہر کے مشہور بُزرگ کے مزار پر صدقے کی دیگ چڑھائی گئی۔ سفید سنگ مر مر کی جالی پر منّت کا ایک دھاگہ دُوسری بیگم کیلئے باندھا گیا تھا حالانکہ وہ اِن چیزوں کی قائل نہ تھی۔ لوگوں کو یقین نہ آتا کہ احمد بھائی اِتنے سال امریکہ میں رہنے کے باوجُود اِتنے توہم پرست تھے۔
ہم لوگ سوچ رہے تھے کہ احمد بھائی وطن کے چکّرجلد جلد لگائیں گے۔لیکن تین سال گُزر گئے اُنکا کچھ اتہ پتہ ہی نہیں مِل رہا تھا، شائد وہ امریکہ جانے کے بعد اپنے کام میں اِتنے مصروف ہوگئے تھے کہ اُنہیں آنے کی فُرصت ہی نہیں مِل رہی تھی۔ سارا خاندان اندیشوں میں مُبتلا تھا لیکن اُنکی دُوسری بیگم کے پیشانی پر ایک بل تک نہیں آیا،وہ اپنے آپ میں مست تھیں۔ گاڑی چلانی آتی تھی، جہاں جی چاہتا آتی جاتیں۔ہاتھ میں پیسہ تھا،گھر میں نوکر چاکر تھے،فِکر کی کوئی بات نہ تھی۔
اِدھر اُنکی منّت کے پورے ہونے کا وقت آگیا،اب صاحبِ مزار کو یہ پتہ نہ تھا کہ احمد بھائی تین سال سے لا پتہ تھے۔ بات تواولاد کی ہُوئی تھی، اُنہوں نے منّت پوری کردی۔احمد بھائی کو ایک چاند سا بیٹا ہوگیا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭