مناجات پڑھتے ہوئے فرشتوں نے عرش کے پائے تھام لیے!
اور وہ جو امور کی تدبیر کے لیے آسمان سے زمین کی طرف اور زمین سے آسمان کی طرف پرواز کر رہے تھے، خشیتِ الٰہی سے کانپ اُٹھے۔ اُن کے پروں نے افق سے افق تک، زمین کو ڈھانپ لیا۔ سب حکم کے منتظر تھے۔ وہ بھی جو پہاڑ اٹھا کر زمین پر گراتے ہیں، وہ بھی جو کانوں کو پھاڑنے والی تیز چیخ سے لوگوں کو اوندھے منہ پٹخ دیتے ہیں، وہ بھی جو پتھر برساتے ہیں وہ بھی جو زمین کو جھنجھوڑ کر سونے والوں کو چھت اور فرش کے درمیان پیس دیتے ہیں اور وہ بھی جو کسی کو قذافی کر دیتے ہیں، کسی کو حسنی مبارک بنا کر پنجرے میں ڈالتے ہیں، کسی کو صدام حسین کا روپ دے کر چوہے کی طرح بل میں چھپنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور کسی کو نکولائی چائوسیسکو بنا کر دیوار کے ساتھ لگا دیتے ہیں اور کتے کی موت مارتے ہیں!
افسوس! ہائے افسوس! صد افسوس! اگر اب بھی پتھر نہیں برسے تو کب برسیں گے!
اگر اب بھی بلند چیخ لوگوں کو اوندھے منہ نہیں گراتی تو کب گرائے گی؟ کیا ایک لاکھ سے زیادہ کلمہ گو عورتیں، تقسیم کے وقت سکھوں اور ہندوئوں نے اپنے ناپاک بستروں پر اس لیے گرا لی تھیں کہ جس ملک کے لیے ان کی عصمتیں قربان ہوئیں، اُس ملک میں جاگیرداروں کی فرماں روائی ہو اور زین کی ماں برسرِ عام فریاد کرے کہ میں کمزور ہوں اور قاتل طاقت ور! میری دو بیٹیاں ہیں، کیسے مقابلہ کروں!
یہ فریاد‘ جس نے عرش کے پائے ہلا دیے اور فرشتوں کو دم بخود کر دیا، کیا یہ فریاد مملکت خداداد پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے نہیں سنی؟ کیا وزیر اعظم کو نہیں معلوم کہ آج ایلیٹ فورس کے ہزاروں پہریدار زین کی ماں کو آہنی فلک بوس دیواروں کے پار بیٹھے وزیر اعظم تک رسائی نہیں دیتے مگر کل، ہاں کل، جو بہت جلد آنے والی ہے‘ زین کی ماں کو گریبان پکڑنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس لیے کہ اس کا بیٹا فرات کے کنارے مرنے والا کتا نہ تھا، انسان تھا! جس کی حفاظت میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کا فرض تھی اور جس کے قاتل کو تختہ دار پر لٹکانا وزیر اعظم پر واجب تھا!
کیا ہوا میں انگلی لہرانے والے وزیر اعلیٰ نے یہ فریاد نہیں سنی؟ زین کسی دور افتادہ قصبے میں، کسی دشوار گزار گھاٹی میں، کسی پہاڑ کی اوٹ میں، کسی زیر زمین کمین گاہ میں قتل نہیں ہوا، زین صوبے کے دارالحکومت میں، شاہراہ پر، دن کی روشنی میں، خلقِ خدا کے درمیان قتل ہوا۔ اٹھارہ وزارتوں کو دائیں جیب میں اور وفاقی امور کو بائیں جیب میں ڈال کر رکھنے والے وزیر اعلیٰ نے اپنا شہر طاقت وروں اور ان کے بندوق بردار محافظوں کے حوالے کر دیا اور زین کی ماں کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا!
’’لوگو! تمہارے معاملات کی ذمہ داری میرے شانوں پر رکھ دی گئی ہے… اگر کوئی کسی پر ظلم یا کسی کے ساتھ زیادتی کرے گا تو میں اُس وقت تک اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا ایک رخسار زمین پر نہ ٹکا دوں اور دوسرے رخسار پر اپنا پائوں نہ رکھ دوں تا آنکہ وہ حق کے سامنے سپر انداز ہو جائے۔‘‘یہ ہیں وہ فقرے جو اِس ملک کے بچوں کو تاریخ پڑھاتے ہوئے سنائے جاتے ہیں کہ امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے اقتدار سنبھالتے ہوئے یہ کہا تھا! اور یہ ہے وہ طرزِ عمل جو بچے عملی طور پر دیکھتے ہیں! تو پھر کیا وزیر اعظم کو آسمان سے گونجنے والی آواز کا انتظار ہے! وہ آواز جو یہ کہے کہ وزیر اعظم صاحب! اگر زین کے قاتل کا رخسار آپ زمین پر نہیں ٹکا سکتے اور اگر آپ کے پائوں میں اتنا زور نہیں کہ اسے دوسرے رخسار پر رکھ سکیں تو اقتدار عوام کو لوٹا دیجیے! کہ وہ قاتلوں سے نمٹنا جانتے ہیں!
اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ سرداری نظام صرف بلوچستان میں ہے جہاں بگٹیوں اور مریوں کا سردار ان کا خدا ہے‘ جو ان کے سکولوں کالجوں کی عمارتوں میں اپنا غلہ ذخیرہ کرتا ہے اور نئی بندوق کو اُن کے سر اُڑا کر ٹیسٹ کرتا ہے اور انہیں پہاڑوں پر چڑھنے کا حکم دیتا ہے اور گیس کے پائپ کٹواتا ہے اور ان کے خانگی معاملات بھی خود چلاتا ہے اور جو پڑھ لکھ کر بالوں کو کنگھی کر لے اور اُجلے کپڑے پہن لے اُس کے جسم پر شہد مل کر خوفناک چیونٹیوں سے اَٹے ہوئے غاروں میں پھینک دیتا ہے۔ ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جاگیرداری صرف جنوبی پنجاب میں ہے جہاں ایک معروف خاتون کی کتاب کے مطابق نوکروں کے جسم کے ٹکڑے ابال کر اونٹوں کو کھلا دیئے جاتے ہیں اور جہاں اُس گلی میں کوئی دروازہ ہی نہیں رکھ سکتا‘ جس میں لغاریوں کی حویلی کا دروازہ کھل رہا ہو اور جہاں کھوسوں اور مزاریوں کے سامنے کوئی چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتا۔ ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جاگیرداری صرف جنوبی پنجاب میں ہے تو اسے بجلی کے جھٹکے دیئے جائیں کہ پاگلوں کا ایک علاج یہ بھی ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فیوڈل ازم صرف اندرون سندھ ہے جہاں ہاریوں کی عورتیں زمینداروں اور اُن کے بیٹوں اور ان کے پوتوں کا تر نوالہ بنتی ہیں اور کچی جھونپڑیاں بھی زمیندار کی ملکیت ہوتی ہیں اور کیٹی جتوئی سے لے کر ہالہ تک ووٹ اُسے ملتے ہیں جس کے بارے میں حکم ہوتا ہے اور پولیس اور ضلعی انتظامیہ ذاتی ملازم کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فیوڈل ازم صرف اندرون سندھ ہے تو وہ جہالت کے اسفل ترین درجے پر فائز ہے۔ اللہ کے بندو! شہر لاہور میں، جس کے اندر لاکھوں بُوہے اور لاکھوں باریاں ہیں جس کی اینٹوں پر عاشق پائوں دھرتے تھے اور جس کے کنوئوں سے معشوق پانی نکالتے تھے تو کھاری پانی میٹھے ہو جاتے تھے، ہاں اُسی شہر لاہور میں، جاگیردار، کلاشنکوف بردار محافظوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں اور لاہور کے بیٹوں کو دن دہاڑے قتل کر دیتے ہیں۔ ہاں! اُسی شہر لاہور میں، لاہور کی ایک ماں جھولی اٹھا کر، آسمان کی طرف دیکھ کر فریاد کرتی ہے کہ میں بے بس ہوں۔ میں کمزور ہوں! میری تو بیٹیاں ہیں، میں اپنے زین کا مقدمہ کیسے لڑ سکتی ہوں! لاہور کے بیٹو! کیا تم نے اپنی ماں کی آواز نہیں سنی؟ تو پھر تم کب جاگو گے؟ تمہاری شاہراہیں تمہارے بیٹوں کے خون سے کب تک سرخ ہوتی رہیں گی؟ تمہارے گواہ زور اور زر سے کب تک منحرف ہوتے رہیں گے؟ جو حکمران اپنی گاڑیوں کے قافلوں کے لیے تمہارے راستے بند کر دیتے ہیں، وہ تمہاری حفاظت نہیں کرتے، انہوں نے تمہیں اُن چھوکروں کے آگے ڈال دیا ہے جو زمین اور زمینداری کے نشے میں بدمست ہیں! تو پھر کیا تم بھی مزارع بن گئے ہو اور کیا تمہارا بخت بھی ہاریوں کے بخت کی طرح کالا ہے؟
اور زین کی ماں کی آواز کیا اُن گروہوں نے بھی سنی جو اقتدار میں شریک ہیں؟ اور ہمیشہ شریک رہے ہیں! کیا اِس آواز کی گونج پارلیمنٹ کی عمارت تک نہیں پہنچی! اور اہل سیاست نے نہیں سنی؟ آہ! پارلیمنٹ کے ارکان اور اہلِ سیاست! جو ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور باہر نکل کر آپس میں چُہلیں کرتے ہیں اور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور جو سب آپس میں رشتہ داریوں کی سنہری ڈوریوں اور باہمی مفادات کی نقرئی تاروں سے بندھے ہوئے ہیں!
اور کیا زین کی ماں کی آواز عماموں اور عبائوں تک نہیں پہنچی؟ کیا اُن کانوں نے یہ آواز نہیں سنی جو فلسطین، عراق، چیچنیا اور افغانستان سے اُٹھنے والی آہٹ تک سُن کر شاہراہوں پر سیلاب کی طرح امڈ آتے ہیں! افسوس! اِس ملک میں آج تک محراب و منبر سے جاگیرداری اور جاگیرداروں کے ظلم کے خلاف کوئی خطبہ نہیں دیا گیا! افسوس! ہمارے مذہبی رہنمائوں نے آج تک عوام کو نہیں بتایا کہ جب عراق اور شام فتح ہوئے اور فاتحین نے مالِ غنیمت کی طرح مفتوحہ زمینیں بھی آپس میں تقسیم کرنا چاہیں تو حضرت عمرؓ نے انکار کر دیا اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی گردنوں پر زمینداروں اور جاگیرداروں کو مسلط نہیں کرنا چاہتے تھے! انہیں معلوم تھا کہ اگر یہ زمینیں بانٹی گئیں تو جاگیرداری موروثی لعنت میں بدل جائے گی۔ انہیں پتہ تھا کہ ایسا ہوا تو جاگیرداروں کے بیٹے مسلمانوں کو شاہراہوں پر مار دیں گے۔ جب اس رائے سے کچھ حضرات نے اختلاف کیا تو حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ نے فاروق اعظمؓ کی حمایت کی۔ پھر اوس اور خزرج کے نمائندے بھی ان کے ہم نوا ہو گئے؛ چنانچہ زمینیں غیر مسلم کاشت کاروں کے پاس ہی رہیں۔ کیا نیل پالش کو بنیاد بنا کر نماز پڑھنے سے منع کرنے والوں نے اور رات کو سوتے میں بھی فحاشی دیکھ لینے والوں نے آج تک فتویٰ دیا کہ انگریزوں نے غداری کے انعام میں جو جاگیریں بے شرم ٹوڈیوں کو دی تھیں اور اونچے طرے پہننے والوں کو جو زمینیں اس لیے ملی تھیں کہ انہوں نے انگریز ڈپٹی کمشنروں کے پیروں کے تلوے چاٹے تھے، وہ زمینیں، وہ جاگیریں اُن سے واپس لے کر ریاست کے حوالے کی جائیں؟ آج تک ایسا نہیں ہوا! ہو گا بھی نہیں، اس لیے کہ جن کے ٹکڑوں پر پلا جائے، اُن کے خلاف کوئی نہیں بولتا!
بڑے لوگوں کی اولاد شاہراہوں پر معصوم شہریوں کا خون بہاتی رہے گی! اور بچ نکلتی رہے گی! گواہ منحرف ہوتے رہیں گے! زین کی ماں! حشر کے دن کا انتظار کر! تو بھی کر! ہم بھی کرتے ہیں!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔