–ڈیورنڈ —–لائن—-کا ——قیدی—–
دو ہزار گیارہ سے تصویر چہرہ پر جلوہ افروز ہوں اور اے آر وائی دیکھتے ہوئے تو غالباً بارہ سال ہوچکے لیکن کسی فیض اللہ خآن نامی عظیم صحافی سے شناسائی نہ تھی کہ مئی یا جون دو ہزار چودہ میں کتاب چہرہ پر جس صحآفتی و ادبی دوست کی وال دیکھو اک ہی تذکرہ کہ فیض اللہ خان افغان حکومت کی قید میں ہے پھر اخبارات و ٹی وی پر بھی نامور صحافیوں نے شور مچانا شروع کر دیا
جاسوسی و سسپینس ڈائجسٹ کی کہانیوں کے صدقے اندر کا جاسوس جاگ اٹھا اور کھوج شروع کر دی کہ فیض اللہ خان کس توپ کا نام ہے جو ہر کوئی اسی کے غم میں گھلا جا رہا۔جوں جوں تفتینش کی گاڑی آگے بڑھی تو عقدہ کھلا کہ یہ تو وہی صاحب ہیں جو لامبی لامبی گھمن گھیریوں جیسی زلفوں کیساتھ کبھی کراچی کی مچھر کالونی اور کبھی بھینس منڈی سے جی نوین ،جی نیلم کیا کرتے تھے.
اب ہم سوچ میں پڑ گئے کہ بھینسوں اور مچھروں کی تحقیق پہ مامور بندے کا افغانستان جانا تو سمجھ میں آتا لیکن افغان حکومت نے اس سے نیلی راوی بھینس کے جدا گانہ تشخص پر رائے لینی تھی یا مچھروں کی افزائش نسل روکنے بارے کچھ مدد لینی تھی تب بھی گرفتار کرنے سے کیا مطلب ویسے ہی سیمینار پر مدعو کر لیتے،مزید تحقیق پر عقدہ کھلا کہ موصوف تحریک طالبان کے ڈیری فارمز پر یہ کھوجنے گئے تھے کہ انکی بھینسیں ایسا کونسا دودھ دیتی ہیں جسے پی کر بندہ اس حد تک پھلتا پھولتا ہے کہ اک دن پھٹ ہی جاتا ہے
پھر اک دن غلغلہ اٹھا کہ ۔۔۔سبھی محبان وطن کی جانب سے قید خانے کی دیوار گرانے کی کوششوں کو آخری دھکا ۔۔غدار وطن ۔۔۔ملالہ آفت کی پرکالہ نے دیا اور موصوف رہا ہو گئے،بس جی خوشی کا تو پتہ نہیں لیکن ملالہ کی پہنچ پر دل خون کے آنسو رویا تھا .آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھیا جی کتاب کے بارے بات کریں گے یا چٹکلے ہی سناتے رہیں گے تو گزارش ہے کہ یہ کتاب شتاب بلکل بھی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے بارے مثبت تاثر ابھارنے کی اسٹیبلیشمینٹی سازش ہے.
عنقریب ریلیز ہونیوالی اسٹیبلیشمینٹی فلم کی کہانی ہے جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ہماری ایجینسیاں افغان ایجینسوں کی نسبت بہت اچھا سلوک کرتی ہیں اور پاکستانی جیلیں بھی دوسرے ملک کی جیلوں سے بہت اچھی ہوتی ہیں ،کتاب پڑھ کر بندے کے دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ یا رب اگر کبھی ایسا کوئی امتحان مقصود ہو بھی تو پاکستانی جیل میں ہی لے لینا وگرنہ فیض اللہ خان تو جی دار بندہ نکلا کہ سلامت آ گیا ،ہم نے تو پہلی قید کوٹھری میں ہی جاں دے دینی ۔آہو
“