دنیا میں انفرادیت کا وجود قوتِ دفع کی وجہ سے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کائنات میں انفرادیت کا وجود فقط قوتِ دفع کی وجہ سے ہے۔ اگر قوتِ دفع یعنی ریپَلشن کی قوت نہ ہوتی تو کائنات کسی ایک کُل میں ضم پائی جاتی۔ کوئی انفرادی ہستی نہ ہوتی۔ دریا سے کوئی قطرہ باہر نہ ہوتا۔ آتماؤں کا وجود ہی نہ ہوتا۔ وجود ہوتا تو صرف پرماتما کا۔
رچرڈ فائن مین کے کتنے ہی ڈایا گرام فزکس کی اس حقیقت کو بتانے کے لیے بنائے جاتے ہیں کہ ایک ذرّہ کبھی دوسرے ذرّے کو فی الواقعہ نہیں چھوتا اور نہ ہی چھُوسکتا ہے۔
ہم جب کرسی پر بیٹھتے ہیں تو ہم دراصل کرسی کو چھُو نہیں رہے ہوتے بلکہ تھوڑا سا اُوپر کو اُٹھ کر بیٹھے ہوتے ہیں جیسے ہوا میں معلق ہوں کیونکہ کرسی کے ایٹمز کے مداروں میں گردش کرتے ہوئے الیکٹرانز اور ہمارے جسم کے ایٹمز کے مداروں میں گردش کرتے ہوئے الیکٹرانز ایک دوسرے کو پرے دھکیل رہے ہوتے ہیں۔ الیکٹران الیکٹران کے ساتھ ٹکراتا نہیں ہے۔ الیکٹرانوں کے تصادم یعنی کولیژَن (Collision) کی واردات کسی اور طرح سےپیش آتی ہے، وہ ایک دوسرے کو چھوئے بغیر ٹکراتے ہیں۔ رچرڈ فائن مین کے گرافس کے مطابق جب دو الیکٹرانز، آپس میں ٹکرا جانے کی نیّت سے ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ دراصل ایک دُوسرے کو چھوئے بغیر ٹکراتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک الیکٹران میں سے ایک آدھ فوٹان خارج ہوتاہے اور سامنے سے آتے ہوئے الیکٹران میں گھُس جاتاہے۔ جس کی وجہ سے دونوں کا مومینٹم یکلخت تبدیل ہوجاتاہے اور وہ ایک دوسرے سے دور چلے جاتے ہیں۔
فوٹان کیا ہے؟ فوٹان ’’ذرّۂ نُور‘‘ ہے۔ فوٹان روشنی ہے۔ فوٹان کی رفتار مکمل روشنی کی رفتار ہے۔ فوٹان ماس لیس ہے یعنی فوٹان کا ماس نہیں ہوتا۔ فوٹان مادہ نہیں ہے اس لیے اس کا کام تو ٹکرانا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا تو ایک ہی کام ہوسکتاہے کہ اپنی توانائی میں سے کچھ ، یا ساری کی ساری، سامنے آمنے والے مادی جسم، میں منتقل کردے۔ الیکٹران مادی ذرّہ ہے۔ مادی ذرّے اور غیر مادی ذرّے الگ الگ ہیں۔ تمام کے تمام فرمیانز مادی ذرّے ہیں۔
تمام کے تمام لیپٹانز مادی ذرّے ہیں۔ لیپٹانوں میں سب سے مشہور خود الیکٹران ہے۔ الیکٹران بھی مادی ذرّہ ہے۔ مادی ذرّہ سے مراد ایسا ذرّہ جو روشنی کی رفتار پر سفر نہیں کرسکتا۔ ہروہ ذرّہ مادی ذرّہ ہے جو روشنی کی رفتار پر سفر نہیں کرسکتا۔ اور ہر وہ ذرّہ روشنی کا ذرّہ ہے جو روشنی کی رفتار پر سفر کرسکتاہے۔ چاہے وہ نظر آنے والی روشنی کا حصہ ہو یا چاہے نظر نہ آنے والی روشنی کا حصہ۔
الیکٹرومیگانیٹک ویوز کے سپیکٹرم میں نظر آنے والی عام روشنی کی ویو تو فقط ایک ایسی موج ہے جس کا ہم کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
باقی تمام امواج یعنی ریڈیوویوز یا مائیکروویوز یا ہائی فریکوئنسی کی ایکس ریز یا گیما ریز وغیرہ ، یہ سب تو نظر نہیں آتیں۔ لیکن یہ تمام ویوز بھی روشنی کی رفتار پر سفر کرتی ہیں۔
اسی لیے ان کے ذرّے کو بھی فوٹان ہی کہا جاتاہے۔ الیکٹرومیگانیٹک ویوز میں سے ہرایک ویو کے ذرّے کو فوٹان ہی کہا جاتاہے۔ صرف نظر آنے والی روشنی کے ذرّے کو ہی فوٹان نہیں کہا جاتا۔ فوٹان ہر اس ذرّے کو کہاجاسکتاہے جو روشنی کی مکمل رفتار یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتاہو۔ جوکوئی ذرّہ اس رفتار سے کم رفتار پر سفر کرتاہے وہ مادے کا ذرّہ ہے اور وہ بقول آئن سٹائن کبھی بھی جیتے جی روشنی کی مکمل رفتار حاصل نہیں کرسکتا۔
چنانچہ روشنی کے ذرّے نے تو ٹکرانا ہی نہیں ہوتا۔ اس نے تو اندر اُترا آنا ہوتاہے۔ اس نے تو نفوذ کرناہوتاہے۔ دومادی ذرّے، مثلاً الیکٹرانز جب ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں ٹکرانے کے لیے، تو وہ ٹکرانے سے پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ فوٹانز منتقل کرنے لگتے ہیں۔ فوٹان جذب ہوکر اپنا مومینٹم دوسرے الیکٹران میں ڈال دیتاہے۔ پہلے الیکٹران سے فوٹان نکلنے کی وجہ سے اس کا مومینٹم کم ہوچکاہوتاہے اور دوسرے میں فوٹان گھُس جانے کی وجہ سے اس کا مومینٹم زیادہ ہوچکاہوتاہے اس لیے اب دونوں الیکٹرانوں کے پاس نئے مومینٹم آجاتے ہیں۔ یہ دونوں مادی ذرّے نئے مومینٹم کی وجہ سے اپنے راستے دُور سے ہی تبدیل کرلیتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتے۔
کائنات میں ہرمادی چیز ایٹموں سے بنی ہے ۔ ہرایٹم کے بیرونی مداروں میں الیکٹران ہوتے ہیں اور سب کے سب الیکٹران کسی اور ایٹم کے الیکٹرانوں کے نزدیک آنے پر یہی کچھ کرتے ہیں جو اُوپر تفصیل سے بتایا گیا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں ٹکراتے۔ ایک دوسرے کے ساتھ توانائی کی کرنسی یعنی فوٹانوں کے تبادلے کے ذریعے کچھ ایسی لین دین کرتے ہیں کہ بغیر ٹکرائے ہی ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے یا دُور دُور رہتے ہیں۔ انہی امکانات پر رچرڈ فائن مین کے سارے ڈایا گرامز ہیں۔
اس عمل کی وجہ سے کائنات کی ہرشئے منفرد ہے۔ کوئی شئے کسی دوسری شئے میں ضم نہیں ہوپاتی۔ اگر یہ قوتِ دفع نہ ہوتی تو کائنات کی ہرشئے ہردوسری شئے میں گھُس جاتی اور یوں کچھ بھی نہ ہوتا۔ ایک ایسا کُل جس کا تصور ہی ممکن نہیں، وہی ہوتا۔ اب چونکہ کائنات میں قوتِ دفع پائی جاتی ہے اس لیے ہرشئے دوسری شئے سے الگ رہتی اور اپنی انفرادیت قائم رکھتی ہے۔
یاد رہے کہ یہ بات فقط الیکٹرانوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ بات ہر مادی ذرّے کے لیے ہے۔ جیسا کہ پروٹان یا نیوٹران یا ان کے اندر پائے جانے والے کوارکس۔ کوارکس جب ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کے لیے نزدیک آتے ہیں تو کوانٹم الیکٹروڈائنامکس اور کروموڈائنامکس کی رُو سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ گلیوآنز کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جیسے دو الیکٹرانزآپس میں ٹکرانے سے پہلے فوٹانز کا تبادلہ کرتے ہیں، ایسے ہی کوارکس گلیوآنز کا تبادلہ کرتے ہیں۔ گلیو آنز بھی توانائی کے ذرّات ہیں اور توانائی کے ذرّات ہمیشہ روشنی کی رفتار پر رہتے ہیں۔ گلیوآنز بہت طاقتورذرّات ہیں۔
اتنے طاقتور کہ ایک ایٹم کے نیوکلیس میں کئی کئی پاؤنڈ طاقت کے مالک گلیوآنز پائے جاتے ہیں۔ اگر دوپروٹانز پوری قوت یعنی روشنی کی رفتار کے نزدیک ترین قوت سے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا جائیں اور انہیں کہیں قید نہ رکھا گیا ہو بلکہ وہ کھلی کائنات میں فرار ہوسکتے ہوں تو وہ اتنی زیادہ قوتِ دفع کا مظاہرہ کرینگے کہ ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دور جاکر دم لینگے۔ کسی نیوکلیس میں وہ فقط کلیوآنز کی طاقت کی وجہ سے جڑ کر پڑے ہوتے ہیں۔ دم تو پھر بھی انہیں لینا پڑیگا کہ وہ پروٹانز یا نیوٹرانز ہیں اور اس لیے مادے کے ذرّات ہیں۔ کوئی دم نہیں لیتا تووہ روشنی کے ذرّات ہیں۔ جو ہمہ وقت روشنی کی رفتار پر ہی رہتے ہیں۔
کبھی کبھار مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ ہم مادے کے بنے ہوئےہیں۔ مادے کے پاس ایک آپشن ہے۔ ایک آپشن کہ وہ روشنی کی رفتار حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کرسکتاہے۔ یہ آپشن فوٹانوں کے پاس نہیں ہیں۔ وہ روشنی کی رفتار پر چلنے کے لیے مجبور ہیں۔ ان کے پاس اپنی رفتار کو کم کرنے اور دوگھڑی آرام کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ مادہ چاہے تو تیز رفتار ہوجائے، چاہے تو اپنی رفتار کو کم کرلے۔ چنانچہ روشنی کے ذرّات کو انفرادیت حاصل نہیں ہے۔ وہ سب نُور ہیں اور بس نُور یعنی توانائیِ محض۔
انفرادیت حاصل ہے تو مادے کے ذرّات کو حاصل ہے اور مادے کے ذرّات کو انفرادیت حاصل ہے تو فقط اس وجہ سے کہ وہ فی الاصل ایک دوسرے سے کبھی نہیں ٹکراتے۔
ایک سوال کہ نیوٹران تو چارج والے ذرّات نہیں ہیں تو کیا نیوٹران جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو وہ بھی فی الاصل نہیں ٹکرا رہےہوتے؟ اگر نہیں ٹکرا رہے ہوتے تو کیوں؟ کیونکہ وہ تو نیوٹرل ہیں اور ان پر کوئی چارج نہیں۔ اس کا جواب ہی تو پاؤلی ایکسکلیوژن پرنسپل میں دیا جاتاہے۔
دراصل نیوٹرانوں کے اندر بھی تین تین کوارکس ہوتےہیں اور بات کوارکس تک نیچے چلی جائے تو چارج سے کہیں زیادہ سپِن (Spin) کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہی سپن توانائی کے ذرّات کی پیدائش اور انہدام کا باعث بنتا رہتا ہے جو کبھی فوٹانز اور کبھی گلیوآنز کی شکل ظاہر ہوتے ہیں اور اس طرح مادے کا کبھی کوئی ذرّہ کسی دوسرے ذرّے سے فی الاصل ٹکرا ہی نہیں سکتا جس کی وجہ سے مادے کی انفرادیت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
متاعِ بے بہا ہے دردو سوزو آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لُوں شانِ خداوندی (اقبال)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔