دو ڈرون اڑ رہے ہیں، بغیر ڈرائیور کا ٹریکٹر اور اس کے ساتھ ایک کواڈ کاپٹر۔ یہ مٹی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ نمی کتنی ہے ، اجزاء کیسے ہیں، ہر ایک پودے کی نشوونما کیسے ہو رہی ہے اور اس پر لگے ہر آلو کی۔ یہ سب کچھ ایک سکرین پر آ رہا ہے جسے ایک کاشتکار دیکھ رہا ہے۔ دنیا میں آلو کی فصل کی فی ایکڑ پیداوار نو ٹن فی ایکڑ ہے۔ اس کھیت میں یہ بیس ٹن فی ایکڑ سے بھی زائد۔ سٹار ٹریک کی طرح کا یہ ماحول سائنس فکشن کی فلم کا نہیں، یہ پریسیژن فارمنگ ہے۔ یہ منظر دنیا میں زرعی اجناس کے امریکہ کے بعد دوسرے سب سے بڑے برآمد کرنے والے ملک کا ہے۔ یہ دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک نیدرلینڈ ہے۔
اس آؤٹ پٹ سے زیادہ حیران کن یہ ہے کہ یہ سب پیدا کرنے کے لئے کس قدر کم ان پٹ چاہئے۔ اس طرح کے فارم روایتی طریقوں کے مقابلے میں اہم اجناس کے لئے پانی کی طلب میں نوے فیصد کمی کر چکے ہے، جانوروں کو لگائی جانے والی اینٹی بائیوٹک میں ساٹھ فیصد کمی۔
اس گنجان آباد ملک میں بڑے پیمانے پر زراعت کے لئے زمین اور موسم موافق نہیں۔ اس کے لئے بہت سی زراعت اب انڈور ہو رہی ہے۔ دن کی روشنی قید کر کے جھٹپٹے میں اندر سے ماحول کو روشن کر دیا جاتا ہے۔ ٹماٹر اس کے موسم کے لئے مناسب نہیں لیکن اب دنیا میں سب سے زیادہ آلو اور ٹماٹر یہاں سے ایکسپورٹ ہوتے ہیں اور سبزیوں کی ایکسپورٹ میں اس کا دوسرا نمبر ہے۔ سبزیوں کے بیجوں کے عالمی کاروبار میں اب اس کا حصہ ایک تہائی ہے۔
یہ ملک زرعی ٹیکنالوجی کی تحقیق میں باقی دنیا سے آگے ہے اور یہاں پر زراعت کے طریقے شاید مستقبل میں بڑھتی عالمی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے کئے دوسروں کو اپنانے پڑیں۔
پہلی تصویر کاشتکار کے گھر کے قریب گرین ہاؤس فارمز کی
دوسری تصویر مرغیوں کے ڈربے کی جس میں ڈیڑھ لاکھ مرغیاں ہیں
تیسری تصویر ٹماٹروں کی جن کو مصنوعی ایل ای ڈی کی روشنی میں اگایا جا رہا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔