نومبر 1982 کی بات ہے ،ایک کمسن امریکی بچی نے جب یہ سنا کہ سوویت یونین امریکا پر ایٹم بم سے حملہ کرنے والا ہے تو اس نے خوفزدہ ہوکر اپنی ماں سے پوچھا کہ اگر سوویت صدر اس قدر خطرناک ہے تو کوئی انہیں روکتا کیوں نہیں؟ اس بچی کی ماں نے پوچھا کہ کیسے؟ تو اس بچی نے کہا کہ انہیں ایک خط بھی تو لکھا جاسکتا ہے، جس میں ان سے ایٹمی جنگ نہ کرنے کا کہا جائے۔ ماں نے کہا کہ پھر تم ہی ایسا خط لکھہ دو۔
1983ء کے اپریل کے مہینے میں سوویت یونین کی حکومت نے اعلان کیا کہ ان کے سربراہ سوویت صدر یوری آندرو پوف نے امریکی ریاست مین کے شہر مانچسٹر میں رہنے والی پانچویں جماعت کی ایک طالبہ سمانتھا اسمتھہ کو سوویت یونین کے دورے کی دعوت دی ہے۔
سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں جب امریکا میں کمیونزم کے سخت مخالف صدر رونالڈ ریگن کی حکومت تھی ، ایسے وقت میں سوویت سربراہ کا امریکی طالبہ کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت دینا پوری دنیا کے لیے حیران کن تھا،
یہ سب ہوا کیسے؟
دراصل سوویت سربراہ کا یہ اقدام سمانتھا اسمتھہ کے اس خط کا جواب تھا جس میں اس نے فکرمندی سے سوویت سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ
’’ میں ایک 10 سالہ لڑکی ہوں اوریہ سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا آپ امریکا پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ کرنے والے ہیں؟ اگر نہیں تو اس کو روکنے کے لیے کیا کررہے ہیں؟ میں جانتی ہوں کہ آپ اس سوال کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں تاہم یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا ملک امریکا پر قبضہ کیوں کرنا چاہتا ہے جبکہ خدا نے اس دنیا کو امن سے رہنے کے لیے بنایا ہے‘‘
اس طالبہ کا خوف اس لیے بھی حقیقی تھا کیونکہ صدر ریگن نے انہی دنوں میں سوویت یونین کو بدی کی بادشاہت قرار دیتے ہوئے امریکا کے دفاعی بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ کردیا تھا تاکہ ممکنہ سوویت حملے کی صورت میں امریکا کا دفاع کیا جاسکے۔
سمانتھا کے خط کا جواب لکھہ کر آندرو پوف نے جو سفارتی قدم اٹھایا اس نے صدر ریگن کی ان کوششوں کو دھندلا دیا جس میں وہ امریکی عوام کے سامنے سوویت یونین کی ازحد منفی تصویر اجاگر کررہے تھے۔
سوویت سربراہ نے سمانتھا کے نام اپنے خط میں لکھا کہ
’’سوویت عوام امن سے جینے کے خواہشمند ہیں۔ ہاں! سمانتھا، میں، میری حکومت اور سوویت یونین کا ہر شہری امن چاہتا ہے۔ ہم ایٹمی ہتھیاروں کا کبھی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ ہم دنیا بھر کے دیگر سمیت عظیم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ساتھ پُرامن تجارتی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر تمہارے والدین تمہیں اجازت دیں تو تم سوویت یونین کا دورہ کرو اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھو کہ سوویت یونین کے شہری کس قدر امن پسند ہیں ‘‘
سمانتھا اسمتھہ نے ،جس کی پیدائش 1972ء میں ہوئی تھی، یہ دعوت قبول کی اور اپنے والدین کے ہمراہ سوویت یونین کا سفر کیا۔ اس دورے کو دنیا بھر خاص توجہ حاصل ہوئی۔ سمانتھا کو باالعموم پوری دنیا اور باالخصوص سوویت یونین اور امریکا میں امن کے سفیر کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
سمانتھا نے اپنے اس دورے کا احوال ایک کتاب کی صورت میں لکھا جس کا عنوان ’Journey to the Soviet Union‘ تھا۔ پھر اس نے ایک امریکی ٹی وی سیریل میں بھی کام کیا۔
فروری 1984ء میں سوویت سربراہ یوری آندرو پوف گردوں کی بیماری کے سبب وفات پاگئے اور تقریباً ڈیڑھ سال بعد یعنی 25 اگست 1985ء کو سمانتھا اسمتھہ اپنے والد کے ہمراہ ایک چھوٹے طیارے میں سفر کررہی تھیں کہ لینڈنگ کے وقت وہ طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا اور اس میں موجود تمام مسافر ہلاک ہوگئے۔
سمانتھا اسمتھہ کی آخری رسومات کے دوران امریکا میں موجود سوویت سفیر نے صدر گوربا چوف کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں گورباچوف نے لکھا تھا کہ
’’’سوویت یونین کا ہر وہ شہری جو سمانتھا اسمتھہ کو جانتا تھا وہ اس امریکی لڑکی کو ساری زندگی یاد رکھے گا جس نے امریکا اور سوویت یونین دونوں ممالک کے عوام کے درمیان دوستی اور امن کا خواب دیکھا تھا۔‘‘
اس موقع پر امریکی صدر رونالڈ ریگن نے بھی پیغام بھیجا جس میں انہوں نے لکھا
’’سمانتھا ! شاید تمہیں یہ جان کر خوشی ہو کہ ناصرف امریکی بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں لوگ تمہارے لیے غمزدہ ہیں۔ وہ تمہیں، تمہاری مسکراہٹ، تمہارے تصورات اور تمہاری پُرامن روح کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔‘‘
سمانتھا کی وفات پر سوویت حکومت نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا اور یالٹا کے سمندر میں ایک کشتی کو سمانتھا اسمتھہ کے نام سے تعمیر کیا گیا۔
سمانتھا نے دنیا میں قیامِ امن کے لیے ایک چھوٹی سی کوشش کی جسے پوری دنیا میں سراہا گیا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ امن اور محبت کی جانب اٹھنے والا قدم بظاہر جتنا بھی چھوٹا معلوم ہوتا ہو، مگر وہ کبھی بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔