قدیم یونان کے دانشوروں سے جدید دنیا کے سائنسدانوں تک، ایک بڑا طویل سفر ہے۔ جب ہم اس کی تاریخ پڑھتے ہیں تو ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے۔ کیوں؟ آخر یہ کام کیا کیوں جاتا رہا ہے؟ آخر وہ کیا تھا جو نوعِ انساں کو تحریک دیتا رہا ہے کہ وہ فطرت کو جاننے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور اس تجسس نے جدید سائنس تک ہمیں کیونکر پہنچا دیا جو ہمیں نیوٹن اور اس کے بعد آنے والوں سے نظر آتی ہے؟ اگر ہم قدیم دنیا کو دیکھیں یا قرونِ وسطیٰ کو۔ اس میں ہمیں سائنس کا ویسا تصور نظر نہیں آتا جیسا ہم اسے آج سمجھتے ہیں۔ جدید سائنس اس دور میں مقصد بھی نہیں تھا۔اور اگر ہمارے قدیم دور کے آباء اگر سائنس کا ویسا تصور قائم کر بھی لیتے تو شاید اسے پسند نہ کرتے۔ جدید سائنس میں انسان محورِ کائنات نہیں۔ یہ دنیا کو کسی گھڑی کی طرح طریقے اور اصولوں کی تحت چلتا بتاتی ہے اور انسانی اقدار کی بھی اس میں جگہ نہیں (بیہیوریل سائنسز کے علاوہ)۔ اس میں ہمیں اشیاء غائیت سے خالی نظر آتی ہیں اور اس میں یقین سے کچھ بھی کہنے کی امید نہیں۔ پھر ہم نے اس جیسے خیال کو اپنا کیسے لیا؟ یہاں تک پہنچ کیسے گئے؟ کہ اس قدر تنگ کرنے والا یہ خیال نہ صرف پوری دنیا میں مقبول ہے، جگہ جگہ سب کی راہنمائی کر رہا ہے اور متنازعہ تک نہیں؟
ہمیں ایک حیران کر دینی والی اور مشکل معمے جیسی دنیا کا سامنا ہے۔ کسی بھی کلچر کے لوگ ہوں، ان کو جواب چاہیے، وضاحت درکار ہے۔ پرومیتھیس کے آگ چرا لینے، اژدھے کے زمین اُگل دینے، آفاقی مچھلی یا بابل کے مینار سے زبانیں بننے جیسے قصے یہ جواب دیتے رہے، وضاحت کر کے مطمئن کرتے رہے۔ اور جب کسی نے ان دیومالائی قصوں کو چھوڑ کر وضاحت کرنے کی کوشش بھی کی تو کچھ خاص حاصل نہ ہوا۔ تھیلز نے مادے کی سمجھنے کی کوشش کر کے اندازہ لگایا کہ سب کچھ پانی سے بنا ہے لیکن وہ اس خیال سے پھر کیا کر سکتے تھے؟ مالیٹوس ہو یا کوئی اور جگہ، وہاں رہنے والوں کو اس بات سے کیا حاصل، اگر ہر شے پانی سے بنی ہے؟ اس کو پھر آگے کیسے بڑھایا جائے؟
لیکن پھر کبھی، کوئی نہ کوئی، کسے مظہر کی ایسی خوبصورت وضاحت کر دیتا ہے جو بہت ہی زبردست طریقے سے فِٹ بیٹھتی ہے اور بڑا کچھ سمجھا دیتی ہے۔ یہ خود ہی اپنے میں ایک بڑا اطمینان بخش احساس ہے۔ خاص طور پر اس وقت، اگر یہ سمجھ مقداری ہو اور مشاہدات سے مطابقت رکھتی ہو اور بڑا کچھ سمجھا دے۔ ذرا تصور کریں کہ بطلیموس نے کیسا محسوس کیا ہو گا، جب اپولونیس اور ہیپارکس کے بنائے گئے ایپی سائیکل اور الگ مرکزوں والے دائروں کے درمیان ایک مساوات کے اضافے سے سیاروں کی حرکت کی نئی تھیوری پا لی تھی اور اس کی مدد سے خاصی اچھی طرح پیشگوئی کرنے کے قابل ہو گئے تھے کہ کونسا سیارہ آسمان میں کب نظر آئے گا۔
بطلیمیوس کی اس مسرت کے احساس کو ہم ان کے کہے گئے اس فقرے سے سمجھ سکتے ہیں، “جب میں ستاروں کے چکر ڈھونڈتا ہوں تو میرے قدم زمین پر نہیں ہوتے۔ میں زیوس کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہوتا ہوں۔ امبروسیا کا جام ہاتھ میں لئے، جو کہ دیوتاوٗں کی خوراک ہے”۔
لیکن ان کی یہ خوشی ناقص تھی۔ یہ ہمیشہ ایسی ناقص ہی ہوتی ہے۔ بطلیموس کی تھیوری کی کمزوریاں دیکھنے کے لئے آپ کو ارسطو کا پیروکار ہونے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ایک ہزار سال تک فلسفی یہ بحث کرتے رہے کہ بطلیموس جیسے آسٹرونومر کا کردارکیا ہے؟ آفاق کو سمجھنا یا صرف ڈیٹا کو فٹ کرنا؟
کاپرنیکس کو کس قدر خوشی ملی ہو گی جب وہ بطلیموس کی اس فائن ٹیوننگ کی وضاحت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے کہ ان کی سکیم کے لُوپ والے مداروں کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایک حرکت کرتی زمین سے اس سب کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ ابھی بھی ناقص، لیکن بطلیموس کی پیچیدہ بدصورتی کے بغیر کی جانے والی یہ وضاحت کس قدر خوشی کا باعث بنی ہو گی۔ اور پھر ریاضی کی خداداد صلاحیت رکھنے والی کیپلر۔ جب انہوں کوپرنیکس کے اس بکھرے ماڈل کو تین قوانین کے تحت بیضوی مداروں کی حرکت میں بدلا ہو گا تو کتنا لطف اٹھایا ہو گا۔
دنیا ہمارے لئے ایک استاد کا کام کرتی ہے۔ اچھے خیالات پر ہمیں اطمینان اور خوشی دے کر آگے بڑھنے کی تحریک دیتی ہے۔ صدیوں میں ہم یہ سیکھ گئے ہیں کہ کس طرح کی فہم ممکن ہے اور اس کو تلاش کیسے کرنا ہے۔ ہم سیکھ گئے ہیں کہ ہر شے کے ہونے کے مقصد کی تلاش بے مقصد ہے۔ اس کا تفکر اس دنیا کو سمجھنے اور اس سے ملنی والی خوشی میں رکاوٹ نہیں۔ ہم یقینی جوابات کو ڈھونڈنا ترک کر چکے ہیں کیونکہ وہ وضاحتیں جو ہمیں مسرت دیتی ہیں، وہ کبھی یقینی نہیں ہوتیں۔ ہمیں تجربے کرنا آ گیا ہے۔ اور ہم ان کی مصنوعی ارینج منٹ سے بھی نہیں گھبراتے۔ ہم ایک جمالیاتی حس ڈویلپ کر چکے ہیں جو ہمیں سراغ دیتی ہے کہ کونسی تھیوریاں کام کر سکتی ہیں اور یہ حس ہمارے اس کام سے حاصل ہونے والی خوشی کو دوچند کرتی ہےَ۔ ہم اس سب کو پھر جمع کرتے جاتے ہیں۔
ہمارا اپنا یہ سفر پلاننگ کے بغیر ہے، غیرمتوقع موڑ لئے ہوئے ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ قابلِ اعتماد علم کا یہ طریقہ ہے۔ یہ جاننے کی خوشی کا سفر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سٹیون وائنبرگ کی لکھی کتاب سے ہے۔ ان کو فزکس میں نوبل انعام ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ملا تھا۔ کتاب کا نام
To Explain the World
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...