سائبیریا ہماری زمین کا خوفناک علاقہ ہے، جسے آپ "سرد جہنم" سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، کیونکہ جنوری 2018ء میں یہاں درجہ حرارت منفی 90 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ گیا تھا، جوکہ سیارہ مریخ سے بھی کم درجہ حرارت ہے! یہاں سردیوں میں جان لیوا ٹھنڈ کے باعث چرند پرند الغرض ہر ذی روح جیسے تھم سی جاتی ہے۔ لیکن وہاں جانے والوں نے بتایا کہ اس سقوط میں بھی یہاں ایک ننھی سی جھونپڑی سے کسی خاتون کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔ انسانی آبادی سے سینکڑوں کلومیٹر دور اس انجان مقام پر وقت کے ٹھہراؤ کو توڑتی یہ آواز "دُنیا کی تنہا ترین عورت" کی ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے تنہا سائبیریا کی ٹھنڈ سے جنگ کررہی ہے۔ اس کا نام اگافیا لائیکوف ہے، سن 1944ء میں جب یہ پیدا ہوئی تو اس نے اپنے آس پاس ماں باپ اور بہن بھائیوں کو پیار و محبت سے لبریز پایا، کسی کو کیا معلوم تھا کہ اگافیا کو اپنی کٹھن زندگی کا ایک بڑا حصہ تنہائیوں سے لڑتے گزارنا پڑے گا۔ سال بیتتے گئے 1961ء میں اگافیا کی ماں نے خوراک نہ ہونے کے باعث تڑپ تڑپ کر دَم توڑ دیا، یہ اس خاندان کے لیے پہلا صدمہ تھا۔
اس صدمے نے اس خاندان کو اندر سے توڑ دیا، مگر کسی کے مرنے سے صبحیں اور شامیں بھلا کہاں تھمتی ہیں۔ دُنیا کی نظروں سے اوجھل یہ خاندان اتنے بڑے صدمے تو گزرنے کے بعد اپنی زندگی خاموشی سے گزارنے میں مصروف تھا۔ 1978ء میں رُوسی ماہرین ارضیات کے ایک گروپ کا یہاں سے گزر ہوا، انہوں نے جب اس جان لیوا برفانی صحرا کے بیچوں بیچ برف پر اُلٹی سیدھی لکڑیاں پڑی دیکھیں تو وہ حیران رہ گئے، انہوں نے حقیقت جاننے کے لیے ہیلی کاپٹر نیچے اُتار لیا۔ ہیلی کاپٹر کا نیچے اُترنا تھا کہ اگافیا اور اس کی بہن نے چِلّانا شروع کردیا، کیونکہ انہوں نے اپنے جیسے انسانوں کو اڑتے ہوئے پہلی بار دیکھا تھا، انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے خدا کا غضب سمجھیں یا کچھ اور کہ اُس نے عجیب و غریب سواری والے انسانوں کو ان کی جانب بھیج دیا ہے۔ اس دوران اگافیا کے بڑے بھائی دمیتری نے صورتحال کو سنبھالا کیونکہ اس نے اپنے باپ سے باہری دنیا میں بسنے والے انسانوں کے متعلق سن رکھا تھا اور اسے یقین تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں۔ یوں دُنیا سے ایک عرصے تک قطع تعلق رہنے والے اس خاندان کو جدید انسان نے "دریافت" کرلیا۔
ماہرین ارضیات کی جانب سے ان کو یقین دلایا گیا کہ ہم آپ کے دوست ہیں، جس کو سچ مان کر اگافیا کے بھائی اور باپ نے ان سے بات چیت اور لین دین شروع کردیا۔ یہ اس خاندان کی جانب سے کی جانے والی بھیانک غلطی تھی۔ جس کا خمیازہ بعدازاں پورے خاندان کو موت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ہمیں علم ہے کہ انسان میں موجود امیون سسٹم صرف انہی جرثوموں کا مقابلہ کرسکتا ہے، جسے یہ پہچان سکتا ہے، چونکہ کورونا وائرس ایک نئی طرز کا وائرس ہے جس وجہ سے ہمارا امیون سسٹم اس کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ عین یہی سب یہاں ہوا، یہ خاندان آدھی صدی سے بیرونی دُنیا سے کٹا ہوا تھا، جس وجہ اس میں ان جرثوموں کا مقابلہ کرنے کی سکت قطعاً نہیں تھی جو عام طور پر ہمارے ہاتھوں میں پائے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماہرین ارضیات سے انفلوئنزا (زُکام کا باعث بننے والا) وائرس ان تک منتقل ہوا، جس کے بعد یکے بعد دیگرے خاندان کے تمام افراد مٹی کے نیچے دفن ہوگئے۔ اب وہی اکیلی بچی تھی، جسے”دُنیا کی تنہا ترین عورت“ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
یہ کئی دہائیوں سے تنہا ہے، یہ روز صبح اٹھ کر لکڑیاں جمع کرتی ہے، مچھلیوں کا شکار کرتی ہے اور باپ کی جانب سے دی ہوئی مذہبی کتاب پڑھتی رہتی ہے۔ یوں یہ اپنی زندگی گزارتی ہے۔ ایک دو بار یہ سائبیریا سے نکل کر قریبی قصبے میں آچکی ہے، مگر ماں، باپ، بہن، بھائیوں کی یاد میں دوبارہ سائبیریا میں جابسی۔ یہ آج بھی زندہ ہے اور تنہا زندگی کی ڈور سنبھالے ہوئے ہے، بلکہ اس کو تنہا کہنا بھی غلط ہوگا، جھونپڑی کے پڑوس میں موجود پانچ قبریں اس کی ساتھی ہیں، ہجر کے لمحات میں خاندان کی یادیں اسے اندر سے کاٹتی رہتی ہیں، لیکن تنہائیوں کے اس درد میں جو لذت ہے وہ شہر کی سکون بھری زندگی میں کہاں ہے۔ یہ حقیقت پر مبنی داستانِ غم ”دنیا کی تنہا ترین عورت“ کی ہے، یہ اس کی زندگی کا خلاصہ ہے۔
یہ خاندان دنیا سے کٹ کر سائبیریا منتقل کیوں ہوا؟ اگافیا نے دنیا کے نام خط میں کیا کہا؟ انہوں نے کس سے شادی کی تھی؟ وہ شہر میں کیوں نہیں آنا چاہتی؟ اگافیا کے رہن سہن پر مبنی تفصیلی ڈاکومنٹری دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیئے
نوٹ: مندرجہ بالا مضمون لکھنے کے لیے معروف سائنسی لکھاری ندیم رزاق کھوہارا صاحب کے مضامین سے مدد لی گئی ہے۔
“