دنیا کی پہلی ریچارج ایبل پروٹون بیٹری ایجاد
رطانوی اخبار گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق RMIT یونیورسٹی میلبورن کے سائنسدانوں نے دنیا کی پہلی بار بار چارج ہونے والی “پروٹون بیٹری” ایجاد کر لی ہے۔
خبر کے مطابق اس بیٹری میں لیتھیم کی بجائے کاربن کا استعمال کیا گیا ہے۔ چارجنگ کے دوران بیٹری میں موجود مائع کے سالمات ٹوٹتے ہیں تو ان کے پروٹون علحیدہ ہو جاتے ہیں۔ کاربن الیکٹروڈ ان پروٹان کے ساتھ مل کر بانڈ بناتے ہیں۔ بعد میں یہ پروٹان دوبارہ استعمال ہونے والے مائع کے سالمات میں موجود آکسیجن کے ساتھ مل کر پانی بناتے ہیں۔ اور اس دوران بجلی پید کرتے ہیں۔
تحقیق پر کام کرنے والے نمایاں سائنسدان پروفیسر جان اینڈریوز نے گارڈین کو بتایا کہ بیٹری میں توانائی کو ذخیرہ اور اخراج کرنے کا تمام نظام مکمل طور پر ماحول دوست اور تابکاری سے پاک ہے۔ اسی بناء پر اسے بلا جھجھک عام استعمال کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔
یہاں ہم قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ اس وقت لیتھیم آئن سے بنی بیٹریاں عام گھریلو آلات میں استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن لیتھیم مادے کے نایاب ہونے کی وجہ سے نسبتاً مہنگی اور زیادہ جگہ گھیرتی ہیں۔ اور ان سے زیادہ درجہ حرارت میں نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ حال ہی میں سام سنگ کو اس کے گیلیکسی اسمارٹ فونز کی بیٹریاں پھٹنے کی وجہ شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مارکیٹ میں موجود تمام فونز واپس منگوانے پڑے تھے۔
کاربن سے بنی پروٹون بیٹری لیتھیم آئن کے بہترین متبادل کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔ ابتدائی طور پر اس تحقیق میں تقریباً 5 مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر 1.2 وولٹ توانائی پیدا کرنے کا تجربہ کامیاب ہوا ہے۔ تاہم اکائی مادے پر توانائی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے یہ دیگر بیٹریز سے کہیں زیادہ استعداد کار ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کاربن کے لیے گرافین جیسے ہلکے اور عام دستیاب مادے کے استعمال کے بعد توانائی کی اسی شرح کو نسبتاً بڑے رقبہ پر ذخیرہ کر کے عام استعمال کے لیے متعارف کروایا جا سکے گا۔ اور اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے تین سے چار سال لگ سکتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“