اسے آخری بار دو سال پہلے ایک کلہاڑے سے لکڑیاں کاٹتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ وہ آج بھی زندہ ہے۔ اس کا نام کیا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ اس کے پاس لکڑی کاٹنے کے اوزار کہاں سے آئے کوئی نہیں جانتا۔ سرکاری ایجنسیاں اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن کوئی اس کے قریب نہیں جاتا۔ انہیں بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ اور ایمیزون کے جنگلات میں دس ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط علاقے کا واحد مکین ہے۔ اس کا باقی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں۔ وہ دنیا کا تنہا ترین انسان ہے۔ اتنا تنہا کہ اس کے پاس خود کلامی کے لیے بھی الفاظ نہیں ہیں۔
ایمیزون کے جنگلات دنیا کے سب سے بڑے بارشی جنگلات ہیں۔ جنگل کے بیچوں بیچ بہتا دریائے ایمیزون حجم کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ جنگل کی گھنی کثافت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ تقریباً ستر لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ان جنگلات میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں آج تک سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پائی۔ دن کو بھی تاریکی کا سماں معلوم ہوتا ہے۔ درختوں کی اٹھان اتنی طویل ہے کہ بارش جب برستی ہے تو پتوں پر گرتے پھسلتے مچلتے زمین تک پہنچتے دس منٹ سے زائد کا وقت لگ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایمیزون میں پانچ سو سے زائد جنگلی قبائل آباد ہیں۔ ان میں سے پچاس کے قریب تو ایسے ہیں جن کا آج تک بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ لیکن یہ آپسی رابطے میں رہتے ہیں۔ ان ہی قبائل میں سے ایک برازیل کی ریاست ریندونیا میں بسنے والا وہ قبیلہ بھی تھا جس کا واسطہ گزشتہ صدی نوے کی دہائی میں بیرونی دنیا کے قاتل انسانوں سے پڑا۔
ریندونیا میں بسنے والا یہ قبیلہ بیرونی دنیا کی لکڑی چور مافیا کا سامنا نہ کر سکا۔ ان کے آہنی تیر بارودی گولیوں کی بوچھاڑ سہ نہ پائے اور قبیلے کے افراد ایک ایک کر کے جنگلی حیات کی خوراک بنتے گئے۔ یہاں تک کہ صرف چھ افراد زندہ بچے۔ سال 1995 میں ہونے والے کسانوں کے ایک حملے میں باقی کے پانچ بھی مار دیے گئے اور صرف وہی زندہ بچا جس کا نام ہم نہیں جانتے۔ وہ پچھلے پچیس سالوں سے تنہا ہے۔ دنیا کا تنہا ترین انسان جس کا اپنے ہم عصر قبائل سے بھی کوئی رابطہ نہیں۔ وہ اپنی مرضی سے تنہا نہیں ہوا۔ اسے تنہا کر دیا گیا۔ اس کے سارے قبیلے کو قتل کر دیا گیا۔ صرف اس لیے کہ وہ اس مقام کا باسی تھا جہاں کی لکڑی بکتی ہے۔ مہذب دنیا کے جنگلی قاتلوں نے اس کا سب کچھ چھین لیا محض اس لیے کہ وہاں کی لکڑی سے اپنے چولہے جلا سکیں۔ اپنے صبح و شام کو رنگین بنا سکیں۔ لیکن اس کی صبحیں اور شامیں بے رنگ بنا ڈالیں۔ انہوں نے اپنے آتش دانوں کی آگ تو جلا لی لیکن اسے تنہائی کی اس آگ میں جھونک دیا جس میں پچیس سالوں سے جل رہا ہے۔ جانے کیوں یہاں اے نئیر کا گایا ایک گانا یاد آ رہا ہے۔۔۔۔
میں تو جلا ایسا جیون بھر
کیا کوئی دیپ جلا ہو گا
نہ میری صبحیں نہ میری شامیں
میرے جیسا اس دنیا میں
کوئی اکیلا کیا ہو گا
دنیا کے تنہا ترین انسان جسے زبردستی تنہا کر دیا گیا تھا کے بارے میں پہلی بار 1996 میں پتہ چلا جب وہ ریندونیا کے علاقے میں اکیلا گھومتا ہوا پایا گیا۔ جنگلی قبائل کا خیال رکھنے والی برازیل کی سرکاری ایجنسی فونائی نے جلد ہی اس کی کھوج نکال لی کہ وہ اپنے قبیلے کا بچ جانے والا واحد فرد ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق علاقے کے تقریباً دس ہزار ایکٹر سے زائد جنگلات کو اس کے لیے وقف کر کے سرکاری طور پر وہاں کسی کو آنے جانے سے منع کر دیا گیا۔ فونائی کے ماہرین نے اس سے ایک دو بار ملنے کی کوشش کی لیکن جواباً تیروں کی بوچھاڑ اور چیختی آوازوں نے انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ وہ کسی سے کوئی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتا۔ وہ باہر کی دنیا سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن سرکاری طور پر بنائے گئے حصار میں اپنی دنیا آپ بسائے ہوئے ہے۔
سال 1998 میں پہلی بار اس کا چہرہ کیمرے کی زد میں آیا۔ لیکن یہ ایک مبہم سی تصویر تھی۔ فونائی کی جانب سے دو سال پہلے سال 2018 میں اس کی ایک منٹ پر مشتمل ویڈیو فلمائی گئی جو دنیا بھر میں وائرل ہوئی۔ ویڈیو میں پچاس سال کے لگ بھگ عمر والا ایک نیم برہنہ شخص دستی کلہاڑی کی مدد سے ایک درخت کو کاٹ رہا ہے۔ وہ اپنے اردگرد سے بے خبر ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ اس کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے اور پوری دنیا میں دیکھی گئی ہے۔ فونائی کے ماہرین بھی نہیں چاہتے کہ اسے کچھ معلوم ہو۔ اسی لیے آج تک کوئی اس کے پاس نہیں گیا۔ تاہم وہ اس کے راستوں میں بنیادی اشیائے ضرورت اور دیگر چیزیں رکھتے رہتے ہیں جو بعد میں نہیں ملتیں۔ فونائی کے مطابق وہ جانتا ہے کہ اس کی مدد کی جا رہی ہے۔ لیکن پھر بھی خوف زدہ ہے۔ اس کا خوف جائز بھی ہے۔ وہ باشعور معاشرے کے دو پہلوؤں کا شکار ہے۔ ایک نے اس کے گرد ہزاروں ایکڑ کا ان دیکھا حفاظتی حصار قائم کر رکھا ہے۔ اور دوسرے وہ جنہوں نے اس کے تمام قبیلے کو قتل کر ڈالا۔ اور آج اس کے بھی درپے ہیں۔ کیونکہ فونائی کے مطابق اس پر دو بار حملے کی کوشش ہو چکی ہے۔ لیکن ہر بار خوش قسمتی سے وہ بچ نکلا۔
اس کا رہن سہن بھی انتہائی عجب ہے۔ وہ تنکوں کی جھونپڑی بناتا ہے۔ دن رات محنت کر کے اسے رہنے کے قابل بناتا ہے۔ چند دن قیام کرتا ہے اور پھر کہیں اور چلا جاتا ہے۔ نہیں معلوم وہ اتنی محنت کیوں کرتا ہے۔ شاید زندہ رہنے کے لیے، یا شاید تنہائی کا وقت گذارنے کے لیے۔ ایک عجیب بات جو اس کی چھوڑی ہوئی کٹیا کو دیکھنے سے پتہ چلتی ہے وہ یہ کہ وہ ہر جھونپڑی کے بیچوں بیچ ایک گڑھا کھودتا ہے۔ چوڑائی میں یہ گڑھے اتنے تنگ ہیں کہ بمشکل ایک بچہ ان میں سما سکے لیکن گہرائی میں چھ فٹ سے بھی زائد نیچے تک چلے جاتے ہیں۔ اپنی جائے قیام کے علاوہ وہ دیگر مقامات پر بھی ایسے گڑھے کھودتا رہتا ہے۔ ان ہی گڑھوں کی مناسبت سے اس کا نام گڑھوں والا آدمی یعنی مین آف ہول سے مشہور ہے۔ ابھی تک کسی کو پتہ نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ غالب امکان ہے کہ ان میں چھپنے کے لیے یا جانوروں کے شکار کے لیے یا پھر بعض آراء کی مطابق اپنی مذہبی رسومات کے طور پر۔۔۔۔ سب سے زیادہ قرین قیاس بھی یہی بات لگتی ہے کہ یہ گڑھے وہ اپنے کسی مذہبی عقیدے کے تحت کھودتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی تنہائی عقیدے کے بغیر گذارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
دنیا سے کٹ کر رہنے والے قبائل بھی اپنی رسومات رکھتے ہیں۔ رواج رکھتے ہیں۔ جن کا پاس وہ نسل در نسل کرتے ہیں۔ ان کی اپنی زبان، اپنا مذہب اینا عقیدہ اور اپنا رہن سہن ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے سہارے مل جل کر زندگی گذار لیتے ہیں۔ لیکن اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ نہ آباء نہ نسل نہ رسوم نہ روایات نہ خاندان۔۔۔۔ اس کے لیے زندگی کا دوسرا نام تنہائی ہے۔
تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی
ہے زندگی کا نام مگر کیا ہے زندگی۔۔۔۔
وہ دل کی تنہائی کو آواز بنا نہیں سکتا۔ بڑبڑا نہیں سکتا۔ شاید اپنی زبان بھی بھول چکا ہے۔ کیونکہ پچیس سال سے کوئی اس کے ساتھ ہمکلام نہیں ہوا۔ وہ بیرونی دنیا کے بارے میں جانتا تو ہے لیکن اسے کوئی غرض نہیں۔ اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ زیادہ غوروفکر کرے۔ روز صبح اٹھتا ہے۔ شکار کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اپنے لیے لکڑی کاٹتا ہے۔ تنکے جمع کرتا ہے۔ نئی جھونپڑی بناتا ہے۔ اس میں گہرا گڑھا کھودتا ہے۔ چند دن وہاں رہتا ہے اور پھر کسی نئے مقام پر نئی کُٹیا تعمیر کرنے نکل پڑتا ہے۔ اس کے پاس وقت نہیں۔
ہاں جب بارش اترتی ہے تو پھر وہ اپنی جھونپڑی میں بیٹھ کر جنگل کو دیکھتا رہتا ہے۔ موسلادھار بارش میں چھما چھم برستی اور بے قرار محبوب کی مانند پتوں سے ٹکراتی پھسلتی بوندوں کا شور جس کے سامنے جنگل کے ہر جانور کی آواز ہیچ ہو جاتی ہے۔ رات کے سکوت میں دور دور سے وحشی درندوں کی گونجتی خوفناک آوازیں اسے پریشان نہیں کرتیں۔ وہ ان سے خوف زدہ نہیں ہوتا۔ البتہ ان درندوں سے ضرور دہشت زدہ ہے جنہوں نے اسے تنہا کر دیا ہے۔ اسی لیے وہ کسی کو قریب نہیں آنے دیتا۔ وہ ہزاروں ایکڑ پر پھیلے دشت کا تنہا مکین ہے۔ وہ دنیا کا تنہا ترین انسان ہے۔
فونائی کے مطابق اب کسی کو اس سے ملنے نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ اتنے عرصے تک تنہا رہنے کے باعث اس کا جسم بیرونی دنیا کے جراثیم سے ناآشنا ہے۔ اس کے لیے ہر وائرس کرونا وائرس ہے جسے اس کی قوت مدافعت سہار نہیں پائے گی۔ اسی لیے برازیل کے حکومتی قانون میں بھی یہ شق شامل کہ گئی ہے کہ ایک اچھی صحت کے ساتھ عمر کی پچاسویں دہائی سے گذرتے اس تنہا ترین انسان کے پاس کسی کو نہیں جانے دیا جائے گا۔ اس کے لیے ہزاروں ایکٹر پر پھیلا دشت ہی قرنطینہ ہے۔ جو اسے بے رحم انسانوں کے دماغ میں موجود کرونا سے بھی محفوظ رکھے گا۔ تنہائیوں کا یہ دشت ہی اس کی زندگی کا ضامن ہے۔
تصاویر از آن لائن ماخذات
اس موضوع پر بی بی سی پر مضمون
مین آف ہول پر ہونے والے حملے کے حوالے گارڈین کی خبر
دو ہزار اٹھارہ میں فلمائی گئی وائرل ویڈیو کا لنک جس میں وہ لکڑی کاٹتا دکھائی دیتا ہے۔ (گرافک وارننگ)
“