دنیا کا عظیم انقلابی
چے گویرا
چودہ جون سن ۱۹۲۸ء کو ارجنٹائن میں پیدا ہونے والا دنیا کا عظیم انقلابی چے گویرا، شخصیت پرستی کے حوالے سے میرا دوسرا عشق تھا۔
بات ذرا پرانی ہے۔ ایم اے جناح روڈ کراچی میں واقع این جے وی ہائی اسکول اپنے گرد و نواح کے حوالے سے بڑا رومانوی علاقہ تھا اسکول کے سامنے قطار در قطار لگے پیپل اور نیم کے گھنے سایہ دار درخت اور عقب میں واقع ریڈیو پاکستان کی سحر انگیز عمارت اور آگے اردو بازار۔ ہم تین دوست بریک ٹائم میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کے سامنے رکتے اور کبھی کبھی مہدی حسن ، غلام علی ، اخلاق احمد یا سہیل رعنا ، اگر ریکارڈنگ کے لئے آتے ، تو ان کو دور سے دیکھ کر خوش ہوا کرتے، اردو بازار کے کراچی بُک ڈپو پر پہنچتے اور احمد فراز کی کتابیں اٹھا کر مفت میں دو تین غزلیں پڑھ کر لوٹ آتے۔ احمد فراز میرا پہلا عشق تھا۔
اردو بازار کے ساتھ ساتھ بہنے والے گندے نالےپر ایک کونے میں ایک بانکا نوجوان دیوار پر لٹکائی مختلف رنگوں کی ٹی شرٹس بیچا کرتا تھا۔ ان میں ایک مبہم اور غیر واضع انسانی چہرے کی شبیہہ والی ٹی شرٹس بھی ہوا کرتی تھیں جس میں ایک نوجوان سر پر سرخ ترچھی ٹوپی پہنے نظر آتا تھا۔ مجھے اکثر خیال آتا کہ اس غیر واضع تصویر کے پیچھے کیا کہانی ہے ، ہے بھی یا نہیں ، شاید یہ کوئی ڈیزائن ہے جو لوگوں میں مقبول ہو گیا ہے۔ احمد فراز کی تازہ پڑھی ہوئی غزلیں ذہن میں لئےمیں واپس اسکول آجاتا۔
زمانہ آگے بڑھا احمد فراز کے رومانوی شعر "کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے" فیض کے مصرعہ "تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے" میں ڈھلنے لگے۔ جب کتابیں خرید کر پڑھنے کے قابل ہوئے تو اردو بازار کے ساتھ ساتھ بہنے والے گندے نالے پر سرخ ترچھی ٹوپی والے ڈیزائن کی ٹی شرٹس والے جوان کی پوری کہانی اور اس کی عظیم عملی انقلابی زندگی کا نہ صرف ادراک ہو چکا تھا بلکہ اس کا کردار مجھ پر حملہ آور بھی ہو چکا تھا، میں نے اسے چے گویرا کے نام سے جانا ، چنانچہ سرخ رنگ کی ایک ترچھی ٹوپی میرے ساتھ رہنے لگی اور دل چاہتا کہ دنیا کے کسی خطےمیں اچانک گوریلا وار چھڑ جائے اور میں وہاں جا کر استعماری طاقتوں کو نیست و نابود کرتے ہوئے مارا جاؤں۔ نوجوانی ، بلکہ لڑکپن کا یہ زمانہ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر پے کہ اُس زمانے میں ایک دو ناکام عشق کے بعد طبیعت سیٹ ہوگئی۔
زمانہ بہت کچھ چھوڑتے اور ساتھ بہا لے جاتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ دو برس قبل لاہور میں قیام کے دوران کتابیں خریدنے کی غرض سے مال روڈ کی دکانوں کی طرف جانا ہوا تو دوسری کتابوں کے ساتھ اسی لاکھوں دلوں کی دھڑکن چے گویرا کی ایک کتاب "چے گویرا کی ڈائری" پر نظر گئی تو مجھے این جے وی ہائی اسکول کا زمانہ یاد آگیا۔ کتاب خریدی گئی ، جس میں چے گویرا نے اپنے روزمرہ کی داستان رقم کی ہے۔ آپ اگر لڑکپن یا نوجوانی میں یہ کتاب پڑھتے ہیں اور چے گویرا کے حالاتِ زندگی اور اس کے معرکوں سے آشنا ہوتے ہیں تو چے گویرا آپ کا بھی پہلا یا دوسرا عشق ہوسکتا ہے۔
چے گویرا نے کئی محاذ پر گوریلا وار میں امریکی اور اتحادی فوجوں کو ناکوں چنے چبوائے اور فیڈرل کاسترو جیسے عظیم انقلابی لیڈر سے داد و تحسین حاصل کی۔ میں چے گویرا کو عملی لحاظ سے فیڈرل کاسترو سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں کہ اس نے ایک زمانے میں اپنی تلاش میں نکلی امریکی اور اتحادی فوج کو دنیا کھنگالنے پر مجبور کیا اور کئی محاذوں پر جرات مندی کے ساتھ عملی لڑائی میں حصہ لیا وہ گوریلا وار کا ماہر تھا اور پوری امریکی فوج اس کے سامنے بے بس تھی۔ آٹھ اکتوبر سن ۱۹۶۷ء میں جب وہ گرفتار ہوا تو اس کی ٹانگوں پر اتنے زخم تھے کہ وہ چل نہیں سکتا تھا اسی حالت میں اسے امریکی ہیڈ کواٹر ہگوراز لے جایا گیا۔ اسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو بولیویا کے امریکی تربیت یافتہ اس پر گولی چلانے میں خوف محسوس کرتے تھے۔ چے گویرا نے اس موقع پر ایک فوجی افسر، جس کا نام ٹراون لکھا گیا ہے ، کو کہا کہ ، ڈرو مت گولی چلاو ، مگر ٹراون اس انقلابی کے سامنے سے ہٹ گیا۔ جب دوبارہ حکم ہوا تو ٹراون نے چے گویرا پر فائر کھول دیا۔ تمام گولیاں اس کے نچلے دھڑ پر ماری گئیں۔
۹ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو چھ ساتھیوں سمیت چے گویرا کو قتل کرنے کے بعد انہیں ایک نامعلوم مقام پر دفن کر دیا گیا۔ امریکی بہادروں کے ساتھ شاید ایسا ہی سلوک کرتے ہیں یہی کچھ انہوں نے اسامہ کے ساتھ بھی کیا اور اس کی لاش نامعلوم مقام پر سمندر میں پھینک دی
۱۹۹۷ء میں چے گویرا اور ساتھیوں کی باقیات کی دریافت کے بعد سانتاکلارا میں ان کی باقاعدہ آخری رسومات ادا کی گئیں جس میں فیڈرل کاسترو نے اس عظیم انقلابی کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے انقلابی ساتھیوں سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں چے گویرا کو الوداع کہنے نہیں آئے بلکہ ہم اسے خوش آمدید کہنے آئے ہیں۔
اگر آپ بھی کچھ دیر کے لئے سرخ ترچھی ٹوپی پہن کر دنیا کے کسی خطے میں لڑی جانے والی فرضی گوریلا وار کے سحر میں کھو کر مارے جانا چاہتے ہیں تو یہ کتاب ضرور پڑھیں۔ اس کا ایک قول میں نقل کر دیتا ہوں تاکہ نئے پڑھنے والوں کو اس کی شخصیت کی ایک ہلکی جھلک نظر آجائے
منیر فراز
ہمارے جنازے ماتمی ترانوں کے بجائے توپوں کی گن گرج میں اٹھائے جائیں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ انقلابیوں کے جنازے جا رہے ہیں
چے گویرا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“