ایٹگر کریٹ ( Etgar Keret )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
دنیا کا خاتمہ قریب ہے اور میں بیٹھا زیتون کھا رہا ہوں ۔ میرا اصل منصوبہ پیزا کھانے کا تھا لیکن میں جب کریانے کی دکان میں داخل ہوا اور میں نے سارے شیلف خالی دیکھے تو میں یہ جان گیا کہ مجھے گندم کے بنے پیزا اور ٹماٹروں کی چٹنی کا خیال چھوڑ دینا ہو گا ۔ میں نے ’ ایکسپریس لائن‘ * پر موجود کیشیئر سے بات کرنے کی کوشش کی ۔ وہ ایک بڑی عمر کی عورت تھی اور وہ اپنے سیلولر فون پر ، ہسپانوی زبان میں ، کسی سے سکائپ* پر بات کر رہی تھی ۔ اس کا بُرا حال تھا ۔ اس نے بہرحال مجھ پر نظر ڈالے بغیر جواب دیا ۔
” انہوں نے سب کچھ خرید لیا ہے ۔“ ، وہ بُڑبُڑائی ، ” بس ماہواری میں برتے جانے والے پیڈ اور اچار ہی باقی بچے ہیں ۔ “
اچاروں والے شیلف پر مرچوں والے زیتونوں کا فقط ایک ہی مرتبان پڑا تھا ۔ اور یہ میرا مرغوب بھی تھا ۔
اور جب میں ادائیگی کے لیے واپس پہنچا تو کیشیئر رو رہی تھی ۔” وہ تازہ ڈبل روٹی کی مانند گرم تھا ۔ “ ، اس نے کہا ، ”میرا پیارا ، ننھا پوتا ، میں اب اسے دوبارہ نہ دیکھ پاﺅں گی ، میں اس کی خوشبو پھر کبھی نہ سونگھ سکوں گی ، میں اپنے بچے کو پھر کبھی گلے نہ لگا سکوں گی ۔“
میں نے اسے جواب دینے کی بجائے مرتبان کنوئیر بیلٹ* پر رکھا اور جیب سے پچاس کا ایک نوٹ نکالا ۔ ” سب ٹھیک ہو جائے گا ۔“ ، میں نے یہ تب کہا جب میں نے دیکھا کہ وہ نوٹ اٹھا ہی نہیں رہی تھی ۔ ” مجھے باقی کے پیسے نہیں چاہییں ۔“
” پیسے ؟ “ ، اس نے ناک سُڑکتے ہوئے کہا ، ” دنیا ختم ہونے کو ہے اور تم مجھے پیسے دینا چاہ رہے ہو ؟ مجھے بتاﺅ کہ میں اِن کا کیا کروں گی ؟ “
میں نے کندھے اچکائے ۔ ” لیکن مجھے یہ زیتون ہر حال میں چاہییں ۔ اور اگر پچاس کافی نہیں ہیں تو میں اور بھی ادا کر سکتا ہوں ، ان کی جو بھی قیمت ہے ۔ ۔ ۔ “
” ایک جپھی۔“ ، آنسو بہاتی کیشیئر نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا اور بازو پھیلا دئیے ، ” ان کی قیمت ایک جپھی ہے ۔“
میں اِس وقت اپنے گھر کی بالکونی میں بیٹھا ٹی وی دیکھتے ہوئے پنیر کے ساتھ زیتون کھا رہا ہوں ۔ ٹی وی کو یہاں باہر لانا مشکل ہے ۔ اور یہ سب اگر ایسا ہی ہے تو اس سے بہتر اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ بندہ ستاروں بھرے آسمان اور بیہودہ ارجنٹینی صابن کے ساتھ ہی دنیا کا انت ہونے دے ۔ یہ 436 ویں قسط ہے اور مجھے اس کے کسی بھی کردار کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے ۔ وہ خوبصورت ہیں ، جوشیلے ہیں اور ہسپانوی میں ایک دوسرے پر چِلا رہے ہیں ۔ اس فلم میں سب ۔ ٹائیٹلز * نہیں ہیں ، اس لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ وہ کس بارے میں واویلا کر رہے ہیں ۔ میں آنکھیں بند کرتا ہوں اور کریانے والی دکان کی کیشیئر کے بارے میں سوچتا ہوں ۔
میں نے جب اسے گلے لگایا تو میں نے کوشش کی تھی کہ خود کو چھوٹا کر سکوں اور اس سے کہیں زیادہ گرم لگوں ، جتنا کہ میں ہوں ۔ میں نے یہ کوشش بھی کی تھی کہ اُسے مجھ میں سے ایسی باس آئے جیسے کہ میں اسی وقت پیدا ہوا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*’ ایکسپریس لائن‘ = گاہکوں کی ایسی قطار جنہوں نے اِکا دُکا چیزیں ہی خریدنی ہوں ۔
*سکائپ = Skype
*کنوئیر بیلٹ = conveyor belt
*سب ۔ ٹائیٹلز = subtitles
یہ افسانچہ روزنامہ ’دی نیویارکر ریویو آف بُکس ‘ کے 12اپریل 2020 ء کے شمارے سے لیا گیا ہے ۔ اسے جیسکا کوہن (Jessica Cohen) نے عبرانی سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...