ادیوگی شیوا مجسمہ | Adiyogi Shiva
ءWorld's largest human figure/faceء
سب سے پہلے تو استغفراللہ، معاذاللہ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ، بڑائی صرف خدا کے لیے ہے۔
اس کے بعد عرض ہے کہ ذرا ادیوگی شیوا کا سیاہ چہرا دیکھیے، واہ۔ بہت ہی زبردست۔ گینیز ورلڈ ریکارڈز میں یہ دنیا کا سب سے بڑا چہرا لکھا ہوا ہے۔ اس کی بلندی 112 فٹ ہے۔ یوگا کے مطابق انسانی جسم میں موجود 112 قابلِ عمل انرجی سینٹرز کی تعداد کی وجہ سے اس مجسمہ کی بلندی بھی 112 فُٹ رکھی گئی۔
(دو مزید انسانی انرجی سینٹرز انسانی اختیار میں نہیں، وہ کائنات کے اختیار میں ہیں۔ کائنات اُن دو سینٹرز کے ذریعے ہر انسان سے یک طرفہ رابطہ رکھتی ہے۔ یعنی مکمل انرجی سینٹرز 114 ہوتے ہیں۔ کیا قرآن میں سورتوں کی 114 تعداد اسی جانب خفیہ اشارہ کرتی ہے؟ پتا نہیں)۔
اس چہرے پر سکون دیکھیے۔ سکون کا ایسا زبردست سمندر مجھے مزید دو پتھریلے چہروں میں نظر آتا ہے.. ایک تو ریو ڈی جنیرو برازیل میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر موجود یسوح مسیح کا چہرا اور دوسرا ٹیکسلا میوزیم میں دیوقامت گوتم بدھ کا چہرا۔ مگر ادیوگی شیوا کا چہرا اپنی سیاہی کی وجہ سے مزید پراسرار ہو جاتا ہے۔
جنوبی ہندوستان کی ریاست تامل ناڈو کے پہاڑوں کے قریب مشہور سدھ گرو (واسُو دیو جوگی) کی خانقاہ ”ایشا فاؤنڈیشن“ موجود ہے، یہ مجسمہ سدھ گرو نے ایشا فاؤنڈیشن کے اندر بنوایا ہے۔ اکثر راتوں میں یہاں یوگا (جوگ) کی تقریبات ہوتی ہیں اور اُس دوران رات کی سیاہی میں سیاہ ہوتا ادیوگی کا مجسمہ مزید پراسرار نظر آتا ہے۔
ادیوگی سے مراد ”پہلا جوگی“ یا مہا جوگی ہے۔ شیوا ہندومت میں خلاؤں کا دیوتا ہے، اسی لیے سیاہ خلا کی نسبت سے سیاہ تاثر رکھتا ہے۔ شیوا نے ہی جوگ کی روایت شروع کی تھی۔ جوگ سے مراد ہے ”خلا میں فنا ہونا“، عیسائیت میں اس نظریہ کو کمیونیئن (Communion) کہتے ہیں اور صوفی اسلام میں ”فنا فی اللہ“ کہا جاتا ہے۔ اب تو سائنسی فلکیات بھی یہی کہتی ہے کہ کائنات میں واحد موجود شے خلا ہے، باقی سب کچھ سیاہ خلا کی ہی اشکال ہیں۔ پڑھیے کوانٹم فزکس میں۔
بے شک مذاہبِ عالم کے ظاہری لبادے میں ہر مذہب کے پیروکار آپس میں لڑتے بھڑتے رہیں مگر مذاہب کی باطنی روایات (Mysticism) میں حیرت انگیز ہم آہنگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مسلم صوفیا کرام نے جوگی روایت کو استعمال کیا ہے…. کنے مندراں پا کے، نی مَیں جاناں جوگی دے نال۔ سکھ مذہب کا آغاز اسلامی تصوف سے شروع ہوا، حالات یہاں تک پہنچے کہ بابا فرید گنج شکر کا بہت سارا کلام سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ کا حصہ ہے۔ لاہور والے حضرت میاں میر نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مزید بھی سنیے…. دریائے سندھ، جو کہ پاکستان کی شہ رگ ہے، اس کا آغاز ادیوگی شیوا دیوتا کے چرنوں سے ہوتا ہے۔ تبت میں کوہِ کیلاش کو شیوا تصور کیا جاتا ہے۔ ہر برس ہزاروں ہندو، بدھ اور جین پیروکار کوہِ کیلاش کے گرد 53 کلومیٹر طویل طواف کرتے ہیں۔ کیلاش کے ایک گلیشیئر سے دریائے سندھ کا آغاز ہوتا ہے۔ ہندوستان کے دوسرے اہم ترین دریا بھی کیلاش سے نکلتے ہیں۔
مگر یہاں ایک خفیہ بات ہے۔ شاید کچھ احباب کو یہ بات ہضم نہ ہو کہ شیوا دیوتا کے جنسی عضو کی عبادت کی جاتی ہے۔ کوئی بھی ایسا پربت جس سے پانی جاری ہوتا ہو، اُسے شیوا کا ”لنگھ“ کہا جاتا ہے اور اُس کے زرخیز پانی ”یونی“ کی جانب سفر کرتے ہیں، تب تخلیق کا عمل ہوتا ہے۔ یعنی دریائے سندھ اصل میں شیوا کے زرخیز پانی ہیں، یا خلا کی ایک شکل ہے۔ ہنگول بلوچستان میں چندراگپ گارفشاں پر چڑھتے ہندو بھی شیوا کے پیروکار ہیں کیونکہ وہ چندراگُپ کو شیوا کا لنگھ سمجھتے ہیں۔ جس طرح چندراگُپ کی نوک سے زرخیز پانی برآمد ہوتے ہیں، دیکھنے والے کو شرم ہی آ جاتی ہے۔ کلرکہار میں کٹاس راج مندر بھی شیوا ٹیمپل ہے۔ ہر شیوا ٹیمپل میں لنگھا یونی کی مورتیاں نظر آتی ہیں۔ غالباً کٹاس راج میں بھی موجود ہیں مگر انہیں روپوش کر دیا گیا تاکہ عوام مزاق نہ بنا لے۔ اسی مناسبت سے سانپ کو بھی شیوا کی جنسی علامت سمجھا جاتا ہے۔ شیوا کے کندھے پر سانپ بٹھایا جاتا ہے۔ بہرحال، یہ مجسمہ وہی ادیوگی شیوا کی خیالی تصویر ہے۔
حروفِ آخر کے طور پر بھی استغفراللہ، معاذاللہ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ، بڑائی صرف خدا کے لیے ہے..
احتیاطاً طہارت کر لیں، آپ کو آزمائش میں ڈال دیا تھا۔
شب بخیر مسافرِشَب“
More information & references:-
لِنک
لِنک
“