دنیا کے پہلے مؤذن – حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
دنیا کے گوشے گوشے میں ہر روز ایک آواز بلند ہوتی ہے جو چودہ سو سال سے اسی تسلسل کے ساتھ بلند ہورہی ہے ۔ آج بھی اس آواز کے الفاظ و کلمات وہی ہیں اور نہ ہی ان میں ذرہ بھر فرق آیا ہے۔ ان کلمات کو روئے زمین پر سب سے پہلے بلند کرنے کی سعادت جس کے حصے میں آئی وہ نہ تو کوئی بااثرشخص تھا اور نہ ہی دولت مند ،اور نہ ہی بہت خوبصورت کہ جس کے حُسن کی وجہ سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ بلکہ وہ ایک حبشی غلام تھا۔ جس کا رنگ سیاہ،آنکھیں سرخ اور ہونٹ موٹے تھے۔ لیکن اس کا دل بے حد حسین تھا۔
سیاہ رنگت رکھنے والا یہ غلام جسے اللہ تعالیٰ نے عزت اور عظمت کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز کیا ، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، آپؓ کو دنیا کا پہلا مؤذن ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور آپؓ ، حضور اکرم ﷺ کے خاص خادم بھی تھے۔ آپؓ کے والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔حضرت بلال ؓ ان پہلے سات خوش نصیب افراد میں سے ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ۔
اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے ۔کبھی آپؓ کو تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا، کبھی آپؓ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جاتا، کفار کے اس ظلم و ستم کے باوجود آپؓ بدستور خدائے واحد کا کلمہ پڑھتے رہے ، آپ کا مالک امیہ بن خلف کہتا ” بلالؓ اب بھی محمد ﷺ کے دین سے باز آ جا ، لیکن آپ کا جواب ہوتا احد ، احد، اللہ ایک ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم آپؓ کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔ حضور ﷺ کے گھر کے کام کاج ، سودا سلف لانا ، حضور کے مہمانوں کے آرام کا خیا ل رکھنا، حضرت بلال ہی سر انجام دیتے تھے۔حضور کے وضو کے پانی کے انتظام کی نگرانی بھی حضرت بلالؓ ہی کے سپرد تھی۔دکھ ہو یا سکھ، قیام ہو یا سفر، امن ہو یا جنگ‘ غرض ہر حالت میں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔
پیارے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اس دنیا سے پردہ فرمایا ، صحابہ اکرام ؓمیں کہرام بپا تھا، عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و سلم غمِ مصطفٰے ﷺ سے نڈھال تھے، مرد اور عورتیں زار و قطار رو رہے تھے۔ انہی میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ، جو مدینہ کی گلیوں میں دیوانہ وار پھرتے تھے اور لوگوں سے پوچھتے تھے کہ بھائیوں تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ہے ، مجھے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرا دو۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں نہ رہ سکے۔ کیسے رہتے ، مسجد نبوی کا ہر گوشہ ، حجروں کا ایک ایک دروازہ انھیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی یاد دلاتا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم کی تاب نہ لاسکے اور آخر کار مدینہ منورہ سے ہجرت کرکے ملک شام کے شہر حِلب چلے گئے ۔
تقریباََ ایک سال بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمارہے ہیں اے بلال ؓ تم نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا ہے ، کیا تمہارا دل ہم سے ملنے کو نہیں چاہتا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھل گئی ، اضطراب بڑھ گیا۔ لبیک یا سیدیﷺ۔ اے آقا ﷺ ! غلام حاضر ہے کہتے ہوئے اٹھے اور راتوں رات مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ دن رات سفر کرتے ہوئے جب مدینہ منورہ کی پر کیف اور نورانی فضاﺅں میں داخل ہوئے۔دل کی دنیا زیر و زبر ہورہی تھی۔ بے قراری کے عالم میں سیدھے مسجد نبوی ﷺ پہنچے اور روضہ انور پر حاضر ہوئے اور روتے ہوئے عرض کیا ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، غلام کو حِلب سے بلایا اور خود پردہ میں چھپ گئے ہیں۔ روتے روتے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدت غم سے بے ہوش ہوگئے اور قبر انور کے قریب گر گئے۔مدینہ منورہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد کا شہرہ ہوچکا تھا۔ ہر طرف شور تھا کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب ہوش آیا تو دیکھا ہر طرف لوگوں کا ہجوم ہے ۔ آپ ؓ کے ہوش میں آنے کے بعد لوگوں کی منت سماجت شروع ہوگئی ، لوگ التجائیں کرنے لگے ، اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ پھر وہی درد بھری اذان سنا دو جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سناتے تھے۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہاتھ جوڑ کر سب سے معذرت کی‘ بھائیوں یہ بات میری طاقت سے باہر ہے کیونکہ جب میں پیارے آقا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں اذان دیا کرتا تھا اوراشہد ان محمد رسول اللہ کہا کرتا تھا، تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم میری آنکھوں کے سامنے ہوتے تھے۔آہ ! آقا صلی اللہ علیہ و سلم تو اب پردے میں چھپ گئے ، اب بتاﺅ کہ اذان میں آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کیونکر ہوگا۔ مہربانی فرما کر مجھے اس خدمت سے معاف کردو۔ مجھ میں برداشت کی قوت نہیں ، لوگوں نے بہت ہی اصرار کیا مگر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کے لئے راضی نہیں ہوئے۔
صحابہ اکرامؓ میں سے کچھ صحابہ ؓ نے رائے دی اور فرمایا کہ کسی طرح حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا لاﺅ اگر یہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اذان کی فرمائش کریں گے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرور مان جائیں گے۔ کیونکہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں سے بے حد محبت ہے ۔ چنانچہ ایک صحابیؓ گئے اور حضرت حسنؓ حسینؓ کو بلا لائے۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آتے ہی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آج ہمیں وہی اذان سنا دو جو ہمارے نانا جان صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا کرتے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیارے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود میں اٹھا لیا اور کہا ”تم تو میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے جگر کے ٹکڑے ہو تم جو کہو گے وہی ہوگا۔ اگر میں نے انکار کردیا اور کہیں تم روٹھ گئے ، تو روضہ انور میں آقا صلی اللہ علیہ و سلم بھی رنجیدہ ہوجائیں گے۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں یوں تو روزانہ پنج وقتہ اذان ہوتی تھی اور لوگ اذان سن کر فرض کی ادائیگی کے لئے مسجد میں آتے ہی تھے لیکن مہینوں کے بعد جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان کی پرسوز آواز مدینہ کی فضاﺅں میں گونجی تو اہلِ مدینہ کے دل ہل گئے ۔بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان سن کر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دنیوی حیات کا سماں بندھ گیا۔ لوگ روتے ہوئے بے تابانہ مسجد نبوی کی طرف دوڑ پڑے۔ہر شخص بے قرار ہو کر گھر سے باہر آگیا۔عورتیں، بچّے سب ہی مضطربانہ گلیوں میں نکل آئے۔آج لوگوں کے قدم مسجد نبوی کی جانب عجیب والہانہ انداز سے اُٹھ رہے تھے۔
مسجد نبوی میں لوگوں کا ہجوم بڑھتا ہی جارہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ دوسری مسجد وں کے نمازی بھی آج مسجد نبوی میں آگئے ہیں ۔ جو شخص بھی مسجد نبوی میں داخل ہوتا اس کی نظریں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متلاشی تھیں۔ بچوں نے بھی اس مؤذن کو دیکھ لیا جس کی آواز مدینے کی آبادی کو بے خود کر کے مسجد نبوی میں لے آئی تھی۔ بچے اپنی ماﺅں سے پوچھ رہے تھے ، امّی جان ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے موذن بلال تو آگئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کب مدینے تشریف لائیں گے۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس وقت ”اشہد ان محمد رسول اللہ“ زبان سے ادا کیا ، ہزارہا چیخیں ایک ساتھ فضا میں بلند ہوئیں۔جس سے فضا دہل گئی۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظریں بے اختیار منبر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اُٹھ گئیں۔ آہ! منبر خالی تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار نہ ہوسکا، بے چینی بڑھ گئی،ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ غمِ مصطفےٰ ﷺ کی تاب نہ لاسکے اور بے ہوش ہوگئے۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے رخصت ہوئے اور واپس شام چلے گئے،جہاں 20ہجری (641ئ) کو آپؓ نے اپنا سفر حیات مکمل کرلیا۔ آپ ؓ کو دمشق میں باب الصغیر کے قریب دفن کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اپنی اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت عطا فرمائے ۔ آمین
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔