آج سے ٹھیک پانچ سو سال قبل 20 ستمبر 1519 کو ایک بحری مہم سپین سے روانہ ہوئی۔ یہ ایسا کام کرنے نکلے تھے، جو دنیا میں ان سے پہلے کوئی نہیں کر سکا تھا۔ انہوں نے پوری دنیا کا چکر لگانا تھا۔ کیوں؟ اس کی اپنی کہانی 1494 میں شروع ہوئی تھی۔
کولمبس نے امریکہ پر 1492 میں قدم رکھا۔ مہم جوئی کے اس دور میں پرتگال اور سپین کے درمیان ایک تنازعے نے جنم لیا۔ پرتگال کہاں جا سکتا ہے اور سپین کہاں پر؟ اس کا فیصلہ پوپ نے کیا۔ ایک لکیر کھینچ دی گئی جس کے مغرب کی طرف سپین کا حق ہو گا اور مشرق کو پرتگال کا۔ اس وقت کی دونوں بحری سپر پاورز پرتگال اور سپین نے اس کو تسلیم کر لیا اور معاہدے پر دستخط کر دئے۔ یہ ٹریٹی آف ٹورڈی سیلاس کہلاتی ہے۔
اس وقت میں ان دونوں کی نگاہیں ایک بڑے انعام پر تھیں جو آج کے انڈونیشیا کے ساتھ تجارتی راستہ تھا۔ انڈونیشیا سے آنے والے مصالحے سونے کے بھاوٗ سے زیادہ کے بکا کرتے تھے۔ پرتگال کو چونکہ مشرقی راستے مل گئے تھے، تو سپین ان سے محروم ہو گیا تھا۔ جب پرتگال سے تعلق رکھنے والے فرڈیننڈ میگیلان نے دعویٰ کیا کہ وہ مغرب کی طرف سے سفر کر کے انڈونیشیا پہنچ کر دکھا سکتے ہیں تو ہسپانیہ کے شاہ چارلس نے انکو ایک بیڑے کا کپتان بنا دیا اور تمام وسائل ان کے سپرد کر دئے اور اس سفر میں حاصل ہونے والے منافع میں حصہ دار بھی قرار دے دیا۔ میگیلان کو پانچ بحری جہاز اور 260 آدمی دئے گئے۔ بحری جہازوں کے نام سان انتونیو، سان تیاگو، ٹرینی ڈاڈ، وکٹوریا اور کنسپشن تھے۔ ان میں وینس سے تعلق رکھنے والے ایک ایڈونچرر پیگا فیٹا بھی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بیڑے نے 20 ستمبر کو لنگر اٹھایا اور جنوب مغرب کا رخ کیا۔ آج کے برازیل تک پہنچا اور ساحل کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کیا۔ جہاں پر اندر کی طرف جانے کا آبی راستہ ملا، اس طرف جانے کی کوشش کرتے کہ اس کے دوسری جانب پہنچا جا سکے۔ موسم خراب ہونے کے ساتھ عملے کا مورال گرنا شروع ہو گیا اور بغاوت ہو گئی۔ میگیلان نے اس کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا۔ یہ اس سفر کے مسائل کی ابتدا تھی۔ ایک ری کون مشن پر گئے ہوئے بحری جہاز سان تیاگو کو طوفان نے آن لیا اور وہ سمندر میں غرق ہو گیا۔ اس کے بعد ایک تنگ جگہ سے گزرنے کے دوران ایک دوسرے بحری جہاز سان انتونیو کے کپتان نے بھاگنے کا موقع دیکھا اور واپس ہسپانیہ کی طرف منہ موڑ لیا اور واپس ہو لئے۔ میگیلان نے سفر جاری رکھا اور 21 اکتوبر کو دوبارہ راستہ تلاش کرنا شروع کیا۔ جما دینے والی سردی کے 27 دنوں کے بعد تین بحری جہاز دوسری طرف جا نکلے۔ اس جگہ کو اب آبنائے میگیلان کہا جاتا ہے۔ اب یہ بحرالکاہل میں تھے۔
عملے کو یہ توقع بالکل نہیں تھی کہ یہ نیا سمندر اس قدر وسیع ہو گا۔ اگلے 98 روز میں، جب درجنوں ملاح اسکوروی اور بھوک سے ہلاک ہو چکے تھے۔ بالآخر انہیں زمین مل گئی۔ انریکے مقامی لوگوں سے بات کر سکتے تھے۔ مزید مغرب میں جا کر سیبو کے راجہ ہومابون نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ راجا نے مکتان کے باغی سردار کے خلاف لڑائی میں ساتھ دینے کو کہا۔ میگیلان نے حامی بھر لی۔ یہ ان کی آخری ایڈونچر تھی۔ میگیلان کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں تھی اور ہونے والی لڑائی میں بانس کے نیزوں نے ان کی زندگی ختم کر دی۔ جو لوگ بچے، انہوں نے کنسپشیون کو آگ لگا دی۔ باقی دو بحری جہاز آگے روانہ ہوئے۔ نومبر 1521 کو یہ مصالحوں کے جزیرے پر پہنچ گئے۔ قیمتی کارگو لوڈ کروایا۔ اب انہیں سپین کا سفر کرنا تھا۔ سفر پر نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد ٹرینیڈاڈ پرتگالیوں کے ہتھے چڑھ گیا اور اس کو غرق کر دیا گیا۔ وکٹوریا آخری بحری جہاز تھا جس نے الکانو کی قیادت میں سفر جاری رکھا۔ الکانو بھی باغیوں میں سے تھے لیکن ان کو معافی مل گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام مشکلات کے باوجود الکانو کی قیادت میں یہ چھوٹا بحری جہاز وکٹوریا واپس ہسپانیہ تک پہنچ گیا۔ اس میں لونگ اور دارچینی لدے ہوئے تھے۔ 6 ستمبر 1522 کو یہ جنوبی سپین کی بندرگاہ میں داخل ہوا۔ تین سال قبل یہاں سے روانہ ہونے والے لوگوں میں سے صرف 18 زندہ بچے تھے۔ دنیا کے گرد چکر مکمل کرنے والا یہ پہلا کارنامہ انجام دینے والا بحری جہاز کاروباری لحاظ سے بھی منافع بخش رہا تھا۔
اس دوران سفر کرنے والے پیگافیٹا اس سفر کے ایک ایک دن کی روداد تفصیل سے لکھتے رہے تھے۔ جہاں پر گئے، ان علاقوں کی، وہاں بسنے والوں کی۔ ان کی اس ڈائری کی وجہ سے ہم یہ کہانی اس قدر تفصیل سے سنا سکتے ہیں۔
میگیلان کے نام کی بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ ان کے نام پر کہکشاوٗں اور خلائی پروگرامز کے نام رکھے گئے ہیں۔ وکٹوریا کے کپتان الکانو بھی سپین میں ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی شکل کرنسی اور ڈاک کے ٹکٹوں پر اور کوٹ آف آرمز پر پائی جاتی ہے۔
سینکڑوں لوگ، جنہوں نے اس سفر میں جان گنوائی اور چند لوگ جو واپس پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے روایتی سوچ کو چیلنج کیا تھا اور وہ تاریخی سفر کامیابی سے مکمل کیا تھا جس کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ آج سے ٹھیک پانچ سو سال پہلے سپین سے مصالحوں کی خاطر نکلنے والے ملاحوں نے اس کو ممکن کر دکھایا تھا۔