میگیلان دنیا کے گرد پہلا چکر مکمل کر چکے تھے۔ اس سے ایک تو زمین کی گولائی اور اس کے سائز کا ٹھیک اندازہ ہوا۔ امریکہ کے جنوب سے دوسری جانب پہنچنے کا راستہ ملا، جس سے دنیا کی نقشہ بندی بہتر ہوئی۔ دوسرے طرف کے پرسکون سمندر کا نام بحرالکاہل رکھنے اور اس کی بڑی وسعت اور بغیر کسی زمین کے بڑے ٹکڑے کے ہونے کا اندازہ ہوا اور ساتھ یہ کہ یہ سفر ممکن ہے۔
میگیلان کی مہم کی اس کامیابی کو اگلی مرتبہ 58 سال بعد دہرایا گیا۔ یہ کام فرانسس ڈریک نے کیا تھا۔ انہوں نے اور ان کے اس سفر نے دنیا کی تاریخ پر گہرے نشان چھوڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں ہسپانیہ اور پرتگال سپر پاورز تھیں۔ ابھرنے والی تیسری عالمی طاقت برطانیہ تھی۔ ملکہ الزبتھ اول اور ہسپانیہ کے شاہ فلپ کی لڑائی سیاسی بھی تھی اور مذہبی بھی۔ فلپ کا قبضہ نئی دریافت شدہ دنیا یعنی امریکہ پر تھا۔ ایک بڑی وسیع سلطنت پر حکومت کرنے والے سربراہ، جو اس نئی دریافت کردہ دنیا سے دولت سمیٹ رہے تھے۔ برطانیہ کے ہاتھ خالی تھے۔ برطانیہ اور سپین کی اعلانیہ جنگ تو نہیں تھی لیکن الزبتھ خفیہ طور پر ان برطانوی لٹیروں اور سمگلرز کو سپورٹ کرتی تھیں جو ہسپانیہ کو نقصان پہنچاتے تھے۔ ان میں سے ایک فرانسس ڈریک تھے۔
ڈریک کئی بار امریکہ جا چکے تھے، ہسپانوی جہاز لوٹ چکے تھے اور بحرالکاہل تک پہنچنے والے پہلے برطانوی بننے کے خواہش مند تھے۔ 1577 کو ملکہ نے انہیں بلا کر ایک خفیہ مشن سونپا۔ یہ ہسپانوی سلطنت پر بحرالکاہل کی طرف سے حملہ کرنا تھا۔ 13 دسمبر کو ڈریک پانچ بحری جہازوں اور 164 کے عملے کے ساتھ برطانیہ سے روانہ ہوئے۔
نو ہفتوں کے سفر کے بعد ڈریک برازیل پہنچ گئے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ جب جنوب میں پہنچتے وقت جون کا مہینہ آ چکا تھا جو ایک سرد علاقے میں سخت سردی کا موسم تھا۔ سردی کے طوفانوں سے بچنے کے لئے یہیں قیام کیا۔ عملے کے افراد کی کمی کی وجہ سے اور ایک بحری جہاز کے خراب ہو جانے کی وجہ سے جب کوچ کیا تو ان کے پاس تین ہی جہاز تھے۔ سولہ روز میں آبنائے میگیلان پار کی۔ ستمبر میں ڈریک اور ان کے ساتھی بحرالکاہل تک پہننے والے پہلے برطانوی بن گئے۔
یہاں پر ان کو 52 روز کے سمندری طوفان اور مشکل سمندری لہروں نے آن لیا۔ ایک جہاز اپنے عملے سمیت غرق ہو گیا۔ ایک جہاز نے واپس برطانیہ کی راہ لی (یہ واپس نہیں پہنچ سکا اور راستے میں ڈوب گیا)۔ ڈریک کی قیادت میں آخری جہاز جنوب کی طرف گیا۔ یہاں پر وہ جنوبی امریکہ کے جنوبی کنارے تک جا پہنچے۔ اینٹارٹیکا اور جنوبی امریکہ کے درمیان کے اس سمندری راستے کو اب ان کے نام کے حوالے سے ڈریک پیسج کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم بہتر ہونے پر ڈریک نے واپس شمال کا رخ کیا اور موجودہ چلی کے علاقے موکا آئی لینڈ پر پہنچ گئے۔ یہاں پر ان کو ہسپانوی سمجھ کر شروع میں مقامیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ ڈریک کے دو ساتھی اس میں مارے گئے اور وہ زخمی ہوئے لیکن اب وہ ہسپانوی پیسیفک ساحل پر تھے، جو ان کا مشن تھا۔ ہسپانویوں نے یہاں پر دفاع کا بندوبست نہیں کیا تھا اور کسی کو تصور بھی نہیں تھا کہ برطانوی یہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں پر تاریخ کی بڑی لوٹ مار شروع کی۔ چلی سے سونا، اریکا سے چاندی لی۔ ال کالاوٗ میں لنگرانداز ہر ہسپانوی بحری جہاز کو لوٹا۔ پھر خبر ملی کہ ایک ہسپانوی جہاز بڑا مال لے کر دو ہفتے قبل روانہ ہوا ہے۔ اس کا پیچھا کر کے اس کو ایکواڈور کے قریب جا دبوچا۔ یہ دفاع کے لئے تیار نہیں تھا اور ہتھیار ڈال دئے۔ اس میں سے 36 کلوگرام سونا، 26 ٹن چاندی، 13 ڈبے جواہرات کے حاصل کئے۔ یہ مال آج کے حساب سے چھ کروڑ ڈالر کا تھا۔
ڈریک کا بحری جہاز اب مال سے لدا ہوا تھا۔ انہوں نے شمال کا رخ کیا۔ رسد کے لئے آج کے میکسیکو میں مال لوٹ کر واپس برطانیہ کی طرف جانے کا کوئی راستہ مشرق کی طرف سے ڈھونڈتے رہے۔ شمال میں کینیڈا کے وینکوور آئی لینڈ تک ہپنچ گئے۔ راستہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس کیلے فورنیا تک آئے۔ یہاں پر مقامی میووک نے ان کا پرتپاک اسقبال کیا۔ یہاں پر پانچ ہفتے رک کر بحری جہاز کی مرمت کی۔ اب وہ جانتے تھے کہ واپسی کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ ہسپانوی علاقے میں واپس جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ واحد راستہ بحرالکاہل عبور کرنا تھا اور دنیا کا چکر مکمل کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر کا یہ حصہ 23 جولائی 1579 کو شروع ہوا۔ 68 روز کے سفر کے بعد زمین نظر آئی جو پالاوٗ کا جزیرہ تھا۔ اس کے بعد فلپائن پہنچے، پھر مصالحوں کے جزیرے مالاکو آئی لینڈ۔ وہاں سے قیمتی لونگ اکٹھی کی۔ اس سے اگلے سفر میں ان کا جہاز سمندر میں ریف میں پھنس گیا۔ ملاحوں نے جہاز کو ہلک کرنے کے لئے گولا بارود اور قیمتی سامان سمندر میں پھینکا شروع کر دیا۔ لیکن جہاز نہ نکلا۔ بیس گھنٹے کے بعد معجزاتی طور پر تیز ہوا اور اونچی ٹائیڈ نے جہاز کو اس جگہ سے نکال دیا۔ انڈونیشیا کے جزیرہ جاوا پہنچے۔ دو ہفتے رک کر بحرِ ہند پار کرنے کی تیاری کی۔ افریقہ کو پار کیا اور پھر بغیر کسی بڑے واقعے کے، 26 ستمبر 1580 کو برطانیہ میں پلائی ماوٗتھ کی بندرگاہ پر 59 کے عملے کے ساتھ واپسی ہوئی۔ تین سال کا یہ سفر کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔
سونے، چاندی اور مصالحوں سے لدے اس ایک جہاز نے ڈریک کو اور اس مہم پر سرمایہ کاری کرنے والوں کو انتہائی امیر بنا دیا۔ اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے چھیالیس گنا منافع کمایا، اس کامیابی میں سب سے زیادہ کمائی ملکہ الزبتھ کی تھی۔ اگلے برس ڈریک کو “سر” کا خطاب ملا۔ اور نیوی میں وائس ایڈمرل کا عہدہ دیا گیا۔ بطور ایڈمرل، آٹھ سال بعد ہسپانیہ سے ایک بڑی بحری جنگ جیتی، جس میں 130 ہسپانوی بحری جہازوں نے برطانیہ پر ملکہ الزبتھ اور پروٹسٹنٹ کو شکست دینے کے لئے حملہ کیا تھا۔
مرنے کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی لاش کو تابوت میں رکھ کر پورے ہتھیاروں سمیت سمندر میں غرق کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج فرانسس ڈریک کو برطانیہ میں ایک عظیم ترین نیول ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے نام پر ایک نیول بیس ہے، ایک جزیرہ ہے، سمندر کا علاقہ ہے، جگہیں ہیں، مجسمے ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا میں ان کے نام پر سڑکیں، ہوٹل اور شاپنگ سنٹر ہیں۔
ہسپانوی سلطنت کے زوال اور برطانوی سلطنت کا عروج دنیا میں طاقت کے توازن میں ایک بڑی تبدیلی تھی۔ یہ کام سمندروں پر تسلط کی جنگ میں فتح سے ہوا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ سمندری مہم جوئی تھی۔ آج دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہسپانوی نہیں، انگریزی ہے۔ ڈریک کا اس طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے میں بڑا کردار تھا۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ دنیا کا لگایا ہوا چکر تھا۔ ایسا کرنے والی یہ دوسری مہم تھی۔ اس مہم نے دنیا کا جغرافیہ سمجھنے میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔
انتہائی غریب خاندان میں پیدا ہونے والے انتہائی امیر سر فرانسس ڈریک ۔۔۔ بحری قزاق یا ہیرو؟ اگر آپ کا تعلق برطانیہ سے ہے، تو اس کا جواب آسان ہے۔