ایک خوبصورت صحت مند زندگی صرف خواب دیکھنے سے تعبیر نہیں پاتی اسے بہت پہلے سے کہیں بس شروع کرنا پڑتا ہے۔
ہم اپنی زندگیوں میں کمانے اور کھانے کے درمیان اعتدال سے کام نہیں لیتے جس کی وجہ سے جیسے ہی چالیس سے اوپر ہوتے ہیں تو مختلف بیماریوں کے چلتے پھرتے اشتہار بننے لگ جاتے ہیں۔
کمانے کی دوڑ اور کھانے کے چکروں کے درمیان اپنی صحت سے لاتعلق نہ رہیں، اپنی صحت کو اولین ترجیح میں رکھیں اسے پس پشت نہ ڈالیں۔ یہ کبھی بھی نہ سوچیں کہ ابھی میں جوان یا صحتمند ہوں، بعد میں کبھی وقت ملا تو ورزش کروں گا یا صحت کا خیال رکھنا شروع کروں گا۔ یاد رکھیے محنت مزدوری کرنا، یا کام کاج کرنا کبھی بھی ورزش میں شمار نہیں ہوتا۔
ورزش ایک آرام دہ ماحول کے اندر جسم کو چست کرنے اور سٹریچ کرکے ڈھیلا چھوڑتے ہوئے ریلکیس کرنے کا نام ہے۔
میرے ذاتی تجربے کی بنیاد پر دنیا کے اندر چھے بہترین ورزشیں ہیں۔
ان چھے میں سے دو یا کم از کم ایک ہر صورت روزانہ کی بنیاد پر کرنی چاہیے۔
1۔ پیدل چلنا
2۔سائیکلنگ
3۔تیراکی
4۔گھڑ سواری
5۔پہاڑوں پر چڑھنا
6۔سانس کی مشقیں
یاد رکھیں ورزش کے لیے بہت زیادہ دوڑنا بھی صحت پر برے اثرات کا باعث بن سکتا ہے، ہڈیوں بالخصوص جوڑوں کے مسائل مسلسل اور تیز دوڑنے اور وزن اٹھانے سے پیدا ہوتے ہیں۔
اس لیے اگر دوڑنا آپ کا پروفیشن یا مجبوری نہیں تو پھر زیادہ سے زیادہ پیدل چلیے، یا تھوڑی تیز جاگنگ کیجیے۔ واک کرنا یا پیدل چلنا بھی ہمارا روزمرہ کی طرح عام پیدل چلنا نہیں ہے، اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ دو چار لوگ مل کر ہلکے پھلکے چلنے کے انداز میں گپ شپ کرتے ہوئے کسی پارک وغیرہ میں کچھ وقت ٹہل کر گھر چلے جاتے ہیں اور اسے ورزش یا مشق کا نام دیتے ہیں، یہ ایک سود مند طریقہ نہیں ہے، اس کے صحت پر کوئی خاص اثرات یا فوائد مرتب نہیں ہوتے ہیں۔ ورزش کے انداز میں واک کرنا یا پیدل چلنا ایک آرٹ ہے اور اسے اگر مناسب طریقے سے نہ کیا جائے تو مشقت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
واک یا پیدل چلنا، فوجی پریڈ کے انداز میں بازو آگے پیچھے لہراتے ہوئے تیز تیز قدموں کے ساتھ اسطرح چلنا کہ سانس پھولنے لگے اور جسم سے پسینہ بہنے لگے۔
ہفتے میں پانچ دن بیس سے چالیس منٹ کی واک آپ کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے، اور مدافعتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے بے حد ضروری ہے۔
اپنے دوستوں یا بیوی بچوں کے ساتھ تفریح کے انداز میں آہستہ آہستہ سائیکل ضرور چلائیے، بالخصوص اپنی چھٹی والے دن صبح سویرے یا عصر کے بعد کچھ وقت کے لیے ہنگامہ خیز جگہوں سے دور جاکر تھوڑی بہت سائیکلنگ ضرور کریں۔
اس کے بعد اگر موقع ملے تو ہفتے میں ایک بار تیراکی ضرور کیجیے۔ کیونکہ تیراکی واحد مشق ہے جس کے اندر جسم کا ہر عضو بھرپور حصہ لیتا ہے،
گھڑ سواری نہیں کرسکتے تو پہاڑوں پر تیزی سے چڑھنے کی مشق کیجیے۔
کھلی فضا میں جہاں صاف ستھری آب و ہوا میسر ہو وہاں سانس کی مشقیں کیجیے، اور جب بھی موقع ملے چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے تب ہمیشہ مکمل سانس خارج کرکے اپنے پھیپھڑوں کو خالی کرکے دوبارہ گہرے سانس لیکر تازہ ہوا سے بھریں اور یہ عمل دن میں تین چار بار لازمی دہرائیں۔
ہم اپنے جسم کے جس حصے کو سب سے کم توجہ دیتے ہیں وہ ہمارے ہاتھ ہیں، جسم کے باقی اعضاء کو تو ہم گاہے بگاہے قدرتی حالت میں رکھتے رہتے ہیں، مگر ہاتھ کبھی تو لٹکے ہوں گے، کبھی وزن اٹھایا ہوگا، کبھی موبائل اور کبھی کمپیوٹر پر انگلیاں چلاتے ہوئے، کبھی بند مٹھی یا مُکا تو کبھی ہاتھ میں قلم، یا اوزار تھامے ہوں گے۔ ہاتھوں کی قدرت حالت کیا ہے؟
جب ہم سجدے میں جاکر ہتھیلیوں کو کھول کر پورا پھیلا کر سیدھا کرتے ہوئے زور سے زمین پر رکھتے ہیں تو وہ ہاتھوں کی قدرتی حالت ہوتی ہے، دن میں کم از کم پندرہ سے بیس مرتبہ ہاتھوں کو اس قدرتی حالت میں رکھنا بے حد ضروری ہے۔ آپ دیوار، میز یا کسی بھی ٹھوس ہموار شے پر ہاتھوں کو کھولنے کے بعد پھیلا کر ایسا کرسکتے ہیں۔
ہر گھر میں دستیاب چیزوں میں سے روزانہ ایک لیموں کا رس پانی میں ڈال کر پئیں۔
نیاز بو/ تلسی / ریحان کے پودے کے پتوں کا قہوہ پئیں۔
گھر میں پرسکون جگہ پر بیٹھ کر اپنے اردگرد کسی خوشبودار جڑی بوٹی کی دھونی دیں۔
دن میں ایک بار عرق گلاب کو پانی میں ڈال کر اس سے آنکھیں، چہرہ، گردن، وغیرہ دھوئیں۔
کبھی بھی کسی بھی حالت میں چاہے روزے کے لیے سحری کیوں نہ ہو پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں،
پودینے کے ایک دو پتے، ایک دو دانہ سونف اور الائچی کا دن میں ایک آدھ بار چبائیں، اس سے جہاں آپ کی سانس خوشگوار ہوگی وہاں آپ کی طبعیت کا بوجھل پن ختم ہوگا، طبعیت کھل اٹھے گی۔
یہ جو ایک رواج چل پڑا ہے کہ سولہ یا بیس گلاس پانی پئیں، اس رواج کو ترک کریں، پانی اتنا ہی پئیں جتنی جسم کو ضرورت اور طلب ہو۔ سب سے بہتر علاج اعتدال اور میانہ روی ہے۔
آپ کو جو خوشبو پسند ہے اس کا خالص عطر لیں جو سپرے وغیرہ کے اجزاء سے پاک ہو، اس کا آدھا یا معمولی سا قطرہ لیکر سونے سے پہلے اپنے سرہانے پر ہلکا سا مس کریں اور پرسکون خوشبودار نیند کا لطف اٹھائیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...