وہ عکس بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
یہ شعر نصف صدی سے زیادہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں اردو مشاعرے لوٹنے والی بسمل صابری کا ہے.
وہ 22 ستمبر1938 کو پیدا ہوئیں. نام بسم اللہ بیگم رکھا گیا. شاعری شروع کی تو بسمل صابری بنیں. بتاتی ہیں 1960 میں ثریا علیگ ایم اے نے خواتین کا کل پاکستان انعامی مشاعرہ کرایا. اخبار امروز میں اشتہار پڑھ کر وہ بھی بقول ان کے اپنی " ُتک بندی" لے کر ساہیوال سے وائی ایم سی اے ہال لاہور پہنچ گئیں. منصفین فیض احمد فیض، صوفی تبسم، احسان دانش اور قتیل شفائی جیسے اکابر تھے. نتیجے کا اعلان ہوا تو بہترین کلام کا پہلا انعام ہی نہیں، بہترین ترنم کا اول انعام بھی بسمل صابری کو ملا. اس کے بعد وہ ملک کے ہر بڑے مشاعرے کا لازمی حصہ بن گئیں.کچھ عرصے سے عمر اور صحت کے مسائل کی وجہ سے مشاعروں میں جانا کم کیا ہے۔ وہ ساہیوال کے طالبات کے کالج میں ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن رہیں۔
بسمل صابری کے چار مجموعے پانی کا گھر1998، روشنیوں کے رنگ2011، یادوں کی بارشیں 2013اور رس کی پھوہار 2015 میں چھپ چکے تھے.اب پانچواں مجموعہ بیاض نظر، جمہوری پبلی کیشنز لاہور (فون04236314140) نے شائع کیا ہے.
ان کے کچھ اور شعر
وہ بے وفا ہی سہی آؤ اس کو یاد کریں
تمام عمر پڑی ہے اسے بھلانے میں
بسمل بھگو گئیں تجھے یادوں کی بارشیں
بھولی ہوئی تھی جس کو وہ یاد آگیا مجھے
رس کی پھوہار اس طرح مسرور کرگئی
آنکھوں میں تیری یاد کا موسم ہرا رہے
دیارِ غم میں کوئی آشنا ملے نہ ملے
محبتوں کے دریچوں کو پھر بھی وا رکھنا
“