آپ دنیا کے جس بھی ملک میں ہوں، آپ کے روزمرہ استعمال کی زیادہ تر چیزیں کسی دوسرے ملک سے آئی ہوں گی۔ اس قسم کی اور اتنے بڑے پیمانے پر تجارت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ زیادہ تر چیزیں استعمال کرنے والے کے کہیں قریب ہی پیدا ہوتی یا بنتی تھی۔ دور دراز سے آنے والی چیزوں میں ٹرانسپورٹ کا خرچ اتنا زیادہ تھا کہ دور دراز چیزیں بیچنا منافع بخش نہیں رہتا تھا۔ صرف اشیائے تعیش یا کسی خاص سپیشلٹی کی اشیاء سمندر پار آیا جایا کرتیں۔ یہ 26 اپریل 1956 کو بدل گیا جب آئیڈیل ایکس نامی ایک بحری جہاز نے نیوجرسی سے اپنے پہلے سفر کا آغاز کیا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب سامان کو بحری جہاز میں کنٹنیرز پر لادا گیا تھا۔ لیکن اس میں کیا خاص تھا؟ اس سادہ لگنے والی تبدیلی کا دنیا پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ دنیا پھر پہلے جیسے نہیں رہی۔
اس سے پہلے سامان کو ٹرکوں پر بندرگاہ لایا جاتا اور ٹرک سے نکال کر جہاز پر لادا جاتا۔ چاول یا سیمنٹ کی بوری ہو یا ہتھوڑوں کا تھیلا، سامان لادنے والے اس ٹرک سے ایک ایک کر کے جہاز پر منتقل کرتے اور ایک طریقے سے اس میں فِٹ کرتے۔ ایک جہاز کو بھرنے میں ایک ہفتے سے زیادہ لگ جایا کرتا۔ اس تکنیک کو بریک بلک کارگو کہتے۔ اس میں سامان کے خورد برد ہو جانے کا تناسب بھی زیادہ تھا۔ جو مسئلہ لوڈ کرنے میں تھا، وہی سامان اتارنے میں بھی۔ پھر ٹرک اور ٹرین پر بھی ایسا ہی معاملہ ہوتا۔
اور سامان کا لادنا خطرناک کام تھا۔ تعمیراتی اور صنعتی کاموں سے زیادہ۔ بڑی بندرگاہوں پر ہر چند ہفتوں میں کسی کی موت ہوا کرتی۔ جبکہ 1950 میں نیویارک میں روزانہ پانچ چھ حادثات ہوتے۔
میلکم مک لین جو ایک ٹرک کی کمپنی چلاتے تھی، انہوں نے سب کچھ بیچ کر ایک بحری جہاز خریدا اور کنٹرینر کا سسٹم بنایا۔ ایسا کنٹرینر جو ٹرک پر بھی آ جائے اور وہی جہاز پر بھی فٹ ہو جائے۔ اس ایجاد نے مصنوعات بننے والے کو صارف سے براہِ راست جوڑ دیا۔ چیز تیاری کے بعد کنٹینر میں لاد دی جاتی اور درمیان میں بغیر کسی کے ہاتھ لگے بیچنے والے کے پاس پہنچ جاتی۔ اس کا سب سے حیران کن پہلو یہ کہ یہ عالمی سٹینڈرڈ بن گیا۔ ویڈیو سٹینڈرڈ، کرنسی، وولٹیج، پلگ کی قسم یا گاڑی کس سائیڈ پر چلانی ہے، اس پر تو اتفاق نہیں لیکن کنٹینر کے سائز پر پوری دنیا متفق ہے۔ چین سے ایک کنٹینر فیکٹری سے ٹرک پر لوڈ ہو کر، ٹرین پر سوار ہو کر، بحری جہاز میں لد کر، پھر ٹرین پر چڑھ کر اور ٹرک سے ہوتا ہوا ہزاروں میل دور اپنا مال پہنچا دیتا ہے۔ اس سٹینڈرڈ نے پوری سسٹم کو انتہائی تیز رفتار کر دیا۔ بحری جہاز ہفتوں میں نہیں، گھنٹوں میں لوڈ ہو جاتا ہے۔ مال کی ترسیل کی لاگت پہلے کے مقابلے میں انتہائی کم رہ گئی۔
اس تک پہنچنے کے لئے بہت مزاحمت ہوئی۔ مزدوروں کی یونین کی طرف سے مخالفت کی گئی۔ اگرچہ اس کی وجہ سے ان کا کام محفوظ ہوا لیکن کام جلد ہونے کا مطلب بہت سے روزگار کا چلے جانا تھا۔ مک لین ایک گھاگ بزنس مین تھے جو نیویارک کی پورٹ اتھارٹی سے معاملہ کرنے میں کامیاب رہے۔ انہیں بڑی کامیابی 1960 میں ملی جب امریکہ کی ویت نام میں جنگ کے لئے ملٹری سامان لے جانا تھا۔ وہ اس کی ترسیل کا کانٹریکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ کنٹینر کا پورا سسٹم اس وقت بڑے پیمانے پر ڈویلپ ہوا۔ مک لین کو احساس ہوا کہ ویت نام سے خالی کنٹینر لانے کے بجائے اس وقت ابھرتی معیشت، جاپان سے ان میں سامان بھر کر لایا جا سکتا ہے۔ اور یوں یہ وہ دور ثابت ہوا جس میں اس ایجاد نے جاپان کو برآمد کی کم لاگت کے فائدے نے سب سے تیزی سے ابھرتی معیشت بنا دیا۔
آج دنیا کی بہترین بندرگاہیں خودکار انجینرنگ کا شاہکار ہیں۔ بھاری بحری جہازوں کو لوڈ اور ان لوڈ کرنے کے ردھم کے تال میل کمپیوٹر پروگرام کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں کونسا کنٹینر اور سامان کہاں ہے۔ کس کو اتار کر کہاں رکھا جائے اور استعمال کیا جائے۔ ایک ہزار ٹن وزنی کرین مسلسل عمل میں مصروف۔ سرد ریفریجریٹر والے سامان ہل میں رکھے جاتے ہیں تا کہ ان کا درجہ حرارت مانیٹر کیا جا سکے۔ بھاری کنٹیر نیچے رکھے جاتے ہیں تا کہ بحری جہاز کا سنٹر آف گریویٹی نیچے رہ سکے۔ سامان کی ترتیب تا کہ بحری جہاز متوازن رہے۔ کرین جس طرح ایک کنٹینر اتارتی ہے، ویسے ہی دوسری طرف جاتے ہوئے ایک کنٹینر لاد دیتی ہے۔ یہ کام بیک وقت جاری رہتا ہے۔
دنیا میں ہر ملک میں بندرگاہ میں ایسی ٹیکنالوجی نہیں۔ اور یہ افسوس ناک ہے۔ اپنے خراب انفراسٹرکچر کی وجہ سے کئی ممالک عالمی سپلائی چین سے کٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ ایسے علاقے سے تجارت کرنا مہنگا ہو جاتا ہے۔ ان کی عالمی معیشت میں شرکت ممکن نہیں رہتی۔ ٹیکنالوجی کا نہ ہونا انہیں غربت سے باہر نکلنا مشکل بنا دیتا ہے۔
دنیا میں کئی شہر نقشے پر شپنگ کے اس نئے طریقے سے تجارت کا لوڈ بڑھ جانے کے بعد نئی بندرگاہوں کو سپورٹ کرنے کے لئے نمودار ہوئے۔ ایک گاڑی ہو، ایک فون یا ایک کمپیوٹر، اس کا ایک یونٹ درجنوں ملکوں میں بننے والی بہت سے چیزوں کو ملاکر بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ سستے تجارتی روابط کے بغیر ان کی پروڈکشن بھی ایسے نہیں ہو سکتی جیسے آج ہے۔
عالمی معیشت اور تجارت کی تیزرفتاری آئی۔ بحری جہاز کی رفتار بدلے بغیر آسٹریلیا سے یورپ تجارت کا وقت 70 دن سے کم ہو کر 34 دن پر آ گیا۔ اس ایجاد کے نتائج سے ہونی والی تبدیلیاں آج تک جاری ہیں۔ 1993 سے 2002 کے درمیان کارگو کے اوسط فاصلے میں چالیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ سستی چیزیں دوسری منڈیوں میں پہنچانے کی صلاحیت حاصل کرنے کا مطلب یہ کہ سامان کی فی ٹن ویلیو بھی ہر سال گر رہی ہے۔ اس سے پہلے سستی چیز دور کی منڈی میں فروخت نہیں کی جا سکتی تھی۔
ایک خیال ہے کہ کنٹینیرازیشن تجارت کی آخری عظیم جدت ہے۔ بحری جہازوں کی رفتار میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی موجودہ رفتار کو بڑھانے سے لاگت زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ اوسط رفتار آج 15 ناٹ ہے۔ بندرگاہوں میں ہونے والی آٹومیشن اور بحری جہازوں کی سپیشلائزیشن سے یہ رفتار بہتر ہو رہی ہے لیکن یہ اضافہ اتنا بڑا نہیں جتنا کسی کے ذہن میں آئے اس خیال کا کہ چیزوں کو ایک فولادی ڈبے میں بند کر کے سمندرپار بھیجا جا سکتا ہے۔
انسانوں کے لئے عظیم خطرہ گلوبل وارمنگ، شپنگ کے کچھ نئے راستے کھول رہا ہے۔ بحرِ آرکٹک کا برف سے جما ہوا راستہ اب سال کے کچھ مہینے کے لئے کھلا ہے جس کے ذریعے جرمن کارگو شپ 2009 میں پہلی بار اس کے ذریعے جاپان تک پہنچا۔ اس کی ایک وجہ صومالیہ کے بحری قزاقوں سے محفوظ رہنا تھی۔ اب بہت سے جہاز اس کو استعمال کرتے ہیں۔
دھات کے اس ڈبے کے بغیر نہ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون ہوتے، نہ پاکستان میں بنی ٹی شرٹ امریکہ میں بکتی۔ اس کی وجہ سے مینوفیکچرر ان جگہوں کا انتخاب آسانی سے کر سکتے ہیں جہاں پر محنت کرنے والی سستی لیبر ہو، ریگولیشن ٹھیک ہو، ٹیکس کم ہوں۔ ابھرتی معیشتوں میں کام کرنے والے، خاص طور پر چین کو نئے مواقع ملے۔ اب انوسٹمنٹ کے لئے پرکشش مواقع کا بار حکومتوں پر آ گیا ہے۔
یہ دنیا بہت بڑی جگہ ہے لیکن اب عالمی تجارت میں کیلکولیشن کرتے وقت ماہرین ٹرانسپورٹ کی لاگت صفر رکھتے ہیں اور دھات کے اس ڈبے کی وجہ سے لگائی گئی یہ قیمت تقریباً درست ہے۔
تجارت انسان کے لئے سب سے اہم ایجاد ہے اور یہ کنٹینر تجارت کے لئے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...