تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں میں دمدار ستاروں کا زمین سے دِکھنا، نحوست یا زمین پر کسی بڑی آفت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔
یہاں تک کہ قدیم ایرانی دمدار ستارے دیکھ کر اُس ملک پر جنگ کر دیتے جس طرف اس ستارے کی دم ہوتی۔
رومی دُمدار ستارے دیکھ کر ڈر جاتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ غرض دم دار ستاروں کا نظر آنا کسی طور اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا تھا۔
صدیاں ان بوسیدہ تصوارت میں گزر گئیں۔۔کوئی نہیں جانتاتھا کہ آسمان میں اچانک نظر آتے یہ دم لگے روشن اجسام کیا ہیں؟ پھر ستروییں صدی میں دوربین ایجاد ہوئی۔ آسمانوں کی جانب دیکھا جانے لگا۔ کائنات کے راز کھلتے گئے۔
یہ 14 نومبر 1680 کی ایک سرد رات تھی۔ جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کوبُرگ میں بیٹھا جرمن ماہرِ فلکیات گوٹفرائڈ کیرخ ایک روشن دمدار ستارے کو خلا میں زمیں کی جانب بڑھتا دیکھتا ہے۔ یہ ابھی زمین سے نظر نہیں آیا تھا کہ گوٹفرائڈ نے اسے دیکھ لیا۔ بعد میں یہ دمدار ستارہ زمین کے قریب سے گزرنے پر نظر آیا۔ یہ اتنا روشن تھا کہ دن کے وقت بھی نظر آتا۔ اس دمدار ستارے کو نام دیا گیا “دی گریٹ کومٹ آف 1680” یعنی 1680 کا عظیم دندسر ستارہ۔
اس دریافت کے بعد دمدار ستاروں کے متعلق علم بہتر ہوتا گیا۔ اور آج سائنسدان یہ جانتے ہیں کہ ہم جسے دمدار ستارہ کہتے ہیں یہ دراصل ستارہ نہیں بلکہ نظامِ شمسی میں سورج کے گرد گھومتے چھوٹے چھوٹے جمی گیس ،برف، چٹانوں یا گرد کے بنے سیارچے ہیں جو سورج کے گرد ایک طویل اور بیضوی مدار میں گھومتے ہیں۔ یہ چمکتے اس لیے ہیں کہ ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ جب یہ اپنے مدار میں سورج اور زمین کے بیچ آتے ہیں تو سورج کے قریب آنے سے اُسکی روشنی اِنکو گرم کرتی ہے اور ان میں جمی گیسیں باہر کو نکلتی ہیں جو دم کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ یہ گیسیں سورج کی روشنی کو منعکس کرتی ہیں اور یوں ان اجسام کی دم سی نظر آتی ہے۔
تو دراصل عرفِ عام میں یہ دمدار ستارے بیچارے ستارے نہیں بلکہ سورج کی روشنی سے گرم ہوتے سیارچے ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے دم کی صورت گیسوں کی لکیر چھوڑتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے ہوا میں اڑتے جہاز کا دھواں سورج کی روشنی میں نمایاں دکھتا ہے۔
ان دمدار ستاروں کا مدار سورج کے گرد کئی سو سال تک کا ہوتا ہے۔ اسی لئے اکثر دمدار ستارے کئی صدیوں یا دہائیوں بعد نظر آتے ہیں۔ ہمارے نظامِ شمسی میں اب تک ڈھونڈے گئے دمدار ستاروں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے اوپر ہے۔ مگر انکی کل تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
سائنس کی دنیا میں ایک اہم دمدار ستارہ 1P/Halley یا عرف عام میں ہیلی کومٹ ہے جسے آخری بار 1986 میں زمین سے دیکھا گیا۔ یہ اس لیے اہمیت کا حامل تھا کہ اس سے پہلی بار ماہرین ِ فلکیات کو علم ہوا کہ دمدار ستارے محض ایک بار نہیں بلکہ سالوں کے وقفے سے بار بار بھی نظر آ سکتے ہیں۔ ہیلی دوبارہ 2061 میں زمین سے نظر آئے گا کیونکہ یہ تقریباً ہر 75 سے 79 سال بعد زمین سے نظر آتا ہے۔
سو دمدار ستارے نہ ہی ستارے ہوتے ہیں اور نہ ہی منحوس!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...