(Last Updated On: )
دکھتی رگ پر مری نہ رکھ انگلی
سچ کا اظہار ورنہ کردوں گا
مختصر تعارف:
نام کتاب: دکھتی رگ
مصنف: بشیر احمد
قلمی نام: خالد بشیر تلگامی
تعلیمی لیاقت: ایم اے ۔۔بی ایڈ
کل صفحات: ۱۸۰
افسانچے جو شامل کتاب ہیں کی تعداد: ۱۰۶
ادبی نظریہ: ادب برائے زندگی
وادی کشمیر کے افق پر قد آور ادبی علمی شخصیات کی کوئی کمی نہیں۔ ہر صنف کے ادیب ہیں۔ وہ خواہ شاعری ہو، افسانہ نگاری یا ناول نگاری، وادی کے ادب دوست اصحاب قلم نے ہر ادبی صنف میں نام کمایا اور چھا رہے ہیں۔ ادبی صنف میں افسانہ نگاری ایک عمدہ اور قابل قدر صنف ہے جسے شوقین ادب بڑی ہی محبت و شوق سے پڑھنے میں بالکل بھی کسی بِخل کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ پر وقت کی رفتار نے کروٹ لی۔ وقت کی تنگی سے ایک اور صنف جو افسانچہ کہلاتی ہے وجود میں آئی اور یہ قدرے مشکل ہے۔ افسانے سے یہاں آپ کو افسانہ نگار کی طرح زیادہ الفاظ میسر نہیں ہوتے بلکہ مختصر الفاظ کا انتخاب کرکے آپ کو اپنی بات رکھنی پڑتی ہے یعنی آپ کی تخلیق مختصر الفاظ کی ہو اور جامع ہو۔ اب آہستہ آہستہ یہ صنف معروف ہوگئی ہے اور ادب نواز اور ادب کے متوالوں نے طبع آزمائی شروع کردی اس صنف میں۔
پچھلے ماہ ایک بار خالد بشیر تلگامی صاحب کا تعارف اس حیثیت سے ہوا کہ ان کی ایک کتاب منصہ شہود پر آئی ہے دکھتی رگ کے نام سے۔ مجھے تجسس ہوا کہ کیا خبر کیسی ہوگی۔ خالد بشیر تلگامی میرے شہر کے بالکل پڑوس میں رہتے ہیں۔ ان کی تصنیف پانے کا شوق اس لیے بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا کیونکہ ان کی تخلیقات اکثر وادی کشمیر کے اخبارات اور بیرون وادی کے اخبارات میں پڑھنے کا موقع ملتا رہا تھا۔ اس لیے ہلکا پھلکا تعارف تھا ان کے ادب کے تئیں خدمات کا۔
افسانچہ
افسانچہ نگاری ایک مشکل فعل ہے اور اس فعل میں آج بہت سارے افسانچہ نگار منہمک نظر آ رہے ہیں۔ لیکن اس فن کے ساتھ انصاف چند افسانچہ نگار ہی کر پارہے ہیں اور خالد بشیر تلگامی ان چند افسانچہ نگاروں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے قلیل مدت میں اس فن کے ذریعہ اپنی شناخت بنائی ہے اور مسلسل اس راہ میں منزل کی اور رواں دواں ہیں۔ ان کا مجموعہ دکھتی رگ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں انھوں نے روزمرہ کی زندگی، شب و روز کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو، جنھیں ہم عام طور پر نظر انداز کر جاتے ہیں، ہمارے آس پاس جو کچھ ہو رہا ہے یا جس کی ترویج ہورہی ہے معاشرے میں، سماج میں پنپ رہی برائی اس کی عکس بندی یا اس برائی و بدی کو دیکھ کر جب کسی ادیب کی رگ حمیت جاگ جاتی ہے، اس تمام صورت حال کو صفحہ قرطاس پر لے آنا ایک ادیب کو اعلا مقام پر فائز کرتا ہے، اسی سے متاثر ہوکر خالد بشیر صاحب نے اپنے اکثر افسانچوں میں سماج کی تلخ حقیقتوں کو بڑی بےباکی سے بے نقاب کیا ہے۔ اور سماج کو آئینہ دیکھایا ہے۔ یہ فن کمال کا ہے۔
خالد بشیر
خالد بشیر تلگامی کا تعلق سر زمین کشمیر کے معروف علاقہ پٹن سے ہے۔ پیشے سے استاد ہیں اور ہنس مکھ، ملنسار۔ محبت اور انسان دوستی ان کے مزاج کا ایک حصہ ہے۔ ان کا ادبی سفر کٹھن بھی رہا ہے اور آسان بھی رہا ہے۔ ان کا ادبی سفر پرخار بھی تھا پر ان کی ادب کے تئیں محبت نے ان کی منزل کو آسان کردیا ان کے لیے۔ اور یہ مسلسل اس سفر پر چلتے رہے اور ان کی کتاب دکھتی رگ اس بات کا بین ثبوت ہے۔ اب کہ یہ ایک کامیاب افسانچہ نگار ہیں اور اس صنف پر ان کی مضبوط پکڑ ہے، کئی عالمی سطح کے ایونٹس میں آن لائن ان کی شرکت ہوئی جہاں اس صنف سے جڑے اہل ادب نے ان کے کام کو سراہا۔ موصوف ہلکی پھلکی شاعری کا ذوق بھی رکھتے ہیں۔ اولین افسانچہ جو شائع ہوا، کشمیری زبان میں لکھا گیا تھا، روح نام سے۔ پہلا افسانچہ جو اردو میں لکھا ۲۰۱۲ میں شائع ہوا۔
خیر ان کا ادبی سفر 2011ء میں شروع ہوا اور افسانچہ نگاری کی باقاعدہ شروعات 2016ء سے کی۔ ان کے بیش تر افسانے اور افسانچے مشہور رسائل و اخبارات کی زینت بن چکے ہیں اور اب تک بن رہے ہیں۔ کافی متحرک ہیں۔ اکثر سماج کے ان مسائل کو اجاگر کرتے ہیں جو پس پردہ یا ہماری نظروں سے بچ کر رہ جاتے ہیں۔ پر ان کا شوق چھوٹی چھوٹی باتوں اور سماج میں ہورہے حالات و واقعات پر انھیں متحرک کئے رہتا ہے اور موصوف اپنی مقدور بھر کوشش کرتے رہتے ہیں۔ گر آپ ان کی مذکوہ کتاب کو لیں گے تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ انھوں نے سماج کی ہر اس خامی و خوبی کو افسانچہ بنا دیا ہے جو اوجھل رہتی ہے ہماری نگاہوں سے۔ اس کتاب میں کئی ایسے افسانچے موجود ہیں جن میں درد و کرب، الم و مصائب کی خوب عکس بندی کی گئی ہے۔ اور جو افسانچے قاری کو اپنے سحر میں مبتلا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں کرب کی ٹیسیں بلند کرتے ہیں جن کی ٹیس کافی سخت و شاق گزرتی ہے، دل ناتواں پر۔ بہ قول ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب
“دکھتی رگ میں کئی ایسے افسانچے نظر آتے ہیں جن میں درد و کرب اور سماجی مسائل و موضوعات کی قابل توجہ عکاسی کی گئی ہے۔ ان افسانچوں میں کہیں واقعاتی اسلوب اور کہیں کہیں موضوع و مسائل کو کہانی کے روپ میں عمدہ انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری افسانچہ پڑھ رہا ہے۔ یہ ایک افسانچے کی اہم خوبی ہوتی ہے۔ ان افسانچوں میں ”نجات“، ”سبق“، ”گناہ کا کھیل“، ’’عقیدت“، ”لاوارث“، ”اپنی مسجد“، ”کمنٹ”، ”نجات“، ”سبق“، ”گناہ کا کھیل“، ”احسان“ وغیرہ ہیں۔ “
خالد بشیر تلگامی کامیابی سے اور انتہائی عمدہ الفاظ کے انتخاب کے ساتھ قاری کو الفاظ کے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ اس کتاب میں سماجی معاملات کو ترجیح دی گئی ہے۔ جیسے کہ افسانچہ۔۔۔عکس ہے۔ جو ان کا افسانچہ ہی ہے، پر کتاب میں شامل نہیں ہے۔ اسے آپ کی نذر کردیتا ہوں ان والدین کے لئے جو انجانے میں ہی صحیح اپنی اولاد کو نشہ آور اشیا کی اور راغب کر دیتے ہیں اور انھیں اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا کہ بچے کے نشہ آور اشیا کی لت میں مبتلا ہونے کا سبب وہ انجانے میں کی گئی غلطی ہے جس کا والدین کبھی احساس نہیں کرپاتے۔ خالد بشیر تلگامی نے انتہائی خوب صورتی سے اسے اپنے ایک مختصر افسانچے میں بتایا ہے۔
افسانچہ: عکس
ایک دکان کے پاس اپنے دوست کے آٹھ سالہ بیٹے کے ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔
میں نے اس کے قریب جاکر پوچھا۔”تم سگریٹ پینے لگے ہو؟”
اس نے مجھے اچانک دیکھ کر پہلے تو سلام کیا۔ پھر میرے سوال کا جواب دیا۔
“نہیں انکل۔۔۔یہ تو پاپا نے مجھ سے منگوائی ہے۔”
مجھے کافی اطمینان محسوس ہوا۔
لیکن دو مہینے کے بعد اسی دوکان کے پاس ایک بار پھر میری نظر اس پر پڑی۔ اور اس بار جلتی ہوئی سگریٹ اس کے ہاتھ میں تھی۔
ایسے ہی چلتے چلتے خالد بشیر اپنے احساسات کو خوب صورتی کے ساتھ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں۔ یہی ایک افسانہ یا افسانچہ نگار کی کامیابی ہے کہ وہ سماجی اور معاشرتی برائیوں پر اپنی پکڑ مضبوط بنا کر اپنے احساسات و جذبات کو کچلنے کے بجائے قلم کی زبان سے بیان کردیتا ہے تاکہ سماج، سوسائٹی، معاشرہ اس اور متوجہ ہوجائے اور موصوف یہی کرنے میں کامیاب ہوتے ہوئے مجھے نظر آرہے ہیں۔
سماجی معاملات میں بڑھتی دوری اور بے رخی پر ضرب لگاتے ہوئے خالد بشیر تلگامی اندھیرا نامی ایک افسانچہ تخلیق کر لیتے ہیں، جس میں سادہ الفاظ کے ساتھ یہ بات سمجھائی گئی کہ کہ اندھیرا کہاں زیادہ ہے اور اندھیرے کو اجالے میں بدلنے کی سعی کہاں اہم ہے۔ گر یہی بے رخی و لاتعلقی رہی تو آنے والے ایام میں شاید ہی ہم آپسی تعلقات میں محبت و خلوص سے رہ پائیں جس کا عکس آج بھی کہیں مل جاتا ہے۔
اندھیرا
“اف! ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔”
“پر مجھے اندھیرا کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ “
“میں اس اندھیرے کی بات نہیں کر رہا ہوں”
“تو آپ کس اندھیرے کی بات کر رہے ہو؟”
“”وہ جو انسانوں کی آنکھوں میں چھایا ہوا ہے – !!”
یہ افسانہ پڑھ کر اس چیز کا احساس جاگا ہے کہ واقعی اندھیرا یہیں ہے۔ چلتے چلتے آپ کو بتاتا چلوں کہ کوئی ادیب محنت و مشقت سے گر کوئی کتاب لکھ لیتا ہے جس کے لیے اس کو ہزار جتن کرنے پڑتے ہیں، اب مصنف اپنی تصنیف کسی صاحب کو دے تو ہمارا کتاب کے تئیں حال یہ کہ کتاب پڑی رہ جاتی ہے۔ ہم اپنی لائبریری میں کتابوں میں اضافہ کر تو لیتے ہیں پر مصنف یا کتاب کو نہیں پڑھتے۔ نتیجہ یہ کہ مصنف گمنامی کے اندھیروں کی نذر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ بڑی بڑی ادبی انجمنیں گرچہ موجود ہیں پر ان کو شہرت و نامی وری سے غرض ہوتی ہے۔ اسی لیے جب یہ لوگ برسر اسٹیج کسی کتاب کے مصنف کو دعوت سخن دیتے ہیں انھیں یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ مذکورہ مصنف کا اصل نام کیا ہے یا ان کی کتاب کا بنیادی موضوع کیا ہے۔ اس بات کو خالد بشیر تلگامی کچھ یوں بیان کرتے ہیں، افسانچہ دکھتی رگ میں۔
دکھتی رگ
مشاعرے میں ایک شاعر کو اپنا کلام سنانے کی دعوت دی گئی، لیکن کوئی بھی آگے نہ بڑھا۔۔۔
سامعین آپس میں گفتگو کرنے لگے۔۔۔کسی نے آواز لگائی۔
“یہ آگے کیوں نہیں آرہا؟”
دوسرے نے طنزیہ انداز سے کہا “شاید آگے آنے سے ڈر گیا”
جب سب شور کرنے لگے تو پیچھے کونے میں بیٹھا شاعر کھڑا ہوا اور کہا۔۔۔
“ارے شور مت کرو میں تیس سال سے لکھ رہا ہوں ایک کتاب بھی شائع ہوچکی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ شاید آپ نے آج تک میری کتاب پر میرا نام بھی نہیں پڑھا جس سے مجھے پکارتے ہیں۔ اب آگے آنے سے کیا ہو گا۔
جب میری زندگی میں تمھیں میرا نام یاد نہیں تو مرنے کے بعد کیا ریے گا۔”
موصوف کشمیری زبان کے بھی دل دادہ اور قدر دان ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری اور کچھ افسانے کشمیری زبان میں بھی ملتے ہیں۔ خیر ان کے بارے میں تذکرہ پھر کبھی بس چلتے ہوئے یہ احساس شدت سے جاگا کہ انھیں صرف رگ دکھائی دی اور دکھتی رگ نام سے اپنی تصنیف منظر عام پر لے آئے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ رگ کے بجائے رگوں پر پہنچ جانے کی سعی مسلسل کرتے رہیں گے اور اپنی تخلیقات میں مزید نکھار لے آئیں گے۔