دکھ تو یہ ہے تیرا قاتل تیرا درباری تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حلقہ ارباب ِ ذوق لائیل پور پہ پابندی لگ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی شوکت خواجہ لائیل پور کے خوبصورت شاعری کرنے والوں میں سے تھا ، جہاں وہ ایک خوبصورت نظم غزل کا شاعر تھا بہت ہی اچھا گلوکار تھا بلا کا جملہ باز تھا وہیں وہ کلاسیک ڈانس کا بہت اچھا ر قاص بھی تھا ۔
میں نے علی شوکت خواجہ ۔ اقبال نوید ۔ خالد جیلانی ۔ مسعود مختار اور اسلم طارق کے ساتھ دن کے سورج اور رات کے چاند کے ساتھ ساتھ بہت سفر کیا ہے ۔ شوکت خواجہ محفلوں کی جان تھا ، بعد میں اُس نے مُلک میں گٹھن ، ضیائی جبر اور مُلک کو ایک بند گلی میں تبدیل ہوتے دیکھ کر امریکہ میں سکونیت اختیار کر لئی ، میرا وہاں بھی اُس سے رابطہ رہا مگر ایک دن نہ جانے اُسے کیا سوجھی کہ اُس نے اپنے سُر ، اپنے الفاظ اور اپنے رقص سمیت فصا میں سکونیت اختیا کر لئی ۔
اُن دنوں علی شوکت خواجہ لائیل پور کے محکمہ فوڈ میں بطور انسپکڑ کا کام کر رہا تھا، اچانک اُس کا تبادلہ لائیل پور سے دور ایک گاؤں میں کر دیا گیا جس سے سب دوست افسردہ ہوگئے ، ارشد جاوید نے دن کی دوسری شیو کرتے ہوئے کہا ،، ہمیں جھنگ میں صفدر سلیم سیال سے ملنا چاہیے وہ اس افسر کو جانتے ہیں،صفدر سلیم سیال جی کے ایک فون کرنے پہ تبادلے کے احکامات منسوغ ہوگئے۔ صفدر سلیم سیال جی غزل کے بہت بڑے شاعر ہیں مگر اُن دنوں اپنے ایک خاص شعر کے حوالے سے سارے پاکستان میں بہت مشہور شاعر کے طور پہ جانے جاتے تھے، مُلک میں دنیا کے انتہائی متعصب جابر ضیا کی حکمرانی تھی ، اخبارات پہ سنسر تھی سڑکوں پہ کوڑے لگائے جارہے تھے بھٹو کو زندان میں قتل کر دیا تھا ( مگر کچھ ادیب اپنی پرانی غزلوں کو نعتوں میں تبدیل کر کے انعامات بھی وصول کر رہے تھے ) لہذا بھٹو کے حوالے سے صفدر سلیم سیال جی کا یہ شعر پورے پاکستان مین مشہور ہو گیا تھا اس کا پہلا مصرعہ مجھے صیح طرح سے یاد نہیں آرہا مگر کچھ اس طرح تھا
تجھ کو مرنا تھا تجھے موت تو آنی تھی
دُکھ تو یہ ہے تیرا قاتل تیرا درباری نکلا
میں سمجھتا ہوں معنوی طور ہی یہ کوئی بڑا شعر نہیں ہے مگر بھٹو کے پس منظر کی وجہ سے یہ ہر محفل میں پڑھا جاتا تھا حلانکہ افتخار فیصل کی نظم کی یہ لائین پڑھیں ، جو ایک بڑی وژن کی بات ہے
غلام ہر شب آقاؤں کو سُلا کر ہی سوتے ہیں
ارشد جاوید جی صفدر سلیم سیال جی کو لائیل پور آنے کی دعوت دے آئے ۔ لائیل پور میں ابھی حلقہ اربابِ ذوق کے انتخاب ہوئے ہی تھے زاید فخری کو سکیرٹری اور مجھے جائینٹ سکیرٹری منتخب کیا گیا تھا میں پہلے بھی احن زیدی جی کے ساتھ بطور ِ جائینٹ سیکر ٹری کام کر چُکا تھا ۔ زاہد فخری کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا اور وہ پاکستان قومی اتحاد کے جلسوں میں تقریروں اور نظمیں پڑھنے کی بنا پہ ضیا کے حکومتی حلقوں میں ایم مقام بنا چُکا تھا ، اور اُسے ایک ایم عدہ بھی ملنے والا تھا ۔ ارشد جاوید نے جب آکر ہم سے صفدر سلیم کے لیے کسی شعری نشست کے اہتمام کا ذکر کیا تو ہم نے حلقہ اربابِ لائیل پور میں صفدر سلیم کی صدارت میں ایک مشاعرے کا اعلان کر دیا ۔
مونسپل کارپوریشن کے مئیر ریاض شاہد تھے لہذا ہمیں فوری مونسپل کارپوریشن کا ہال مل گیا ۔ بہت دیر بعد پابندیوں میں جکھڑے شہر میں کوئی شعری نشست ہو رہی تھی اور وہ بھی صفدر سلیم کی صدارت میں ،، سارا ہال بھرا ہوا تھا اور لوگ صفدر سلیم صفدر سلیم کے نعرے لگا رہے تھے یہاں زاہد فخری سے ایک غلطی ہو گئی اُس نے لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے اعلان کیا کہ باقاعدہ مشاعرہ بعد میں شروع ہوتا ہے میں صفدر سلیں سیال جی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پہلے اپنا کچھ کلام حاضرین کو سُنا دین ، حالنکہ صاحب صدر سب سے آخر میں پڑھتا ہے
صفدر سلیم سیال کے ڈائیس پہ آنے کی دیر تھی کہ سب لوگ نے اپنے نشستوں سے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور صفدر سلیم سیال جی سے وہی غزل سُنانے کی فرمائیش کر دی ، جس میں یہ ،، دکھ تو یہ ہے تیرا قاتل تیرا درباری نکلا ،
صفدر جیسے جیسے شعر پڑھتے حاضرین اُٹھ اُٹھ کر داد دے رہے تھے اور جب یہ شعر پڑا
تجھ کو مرنا تھا تجھے موت بھی آنی تھی مگر
دُکھ تو یہ ہے تیرا قاتل تیرا درباری تھا
ہال بھٹو کے نعروں سے گونج اُٹھا ، لوگ تھے کہ نیچے بیٹھ نہیں رہے تھے اور بار بار یہی شعر سُن رہے تھے آخر بڑی مُشکل سے لوگوں کو مطمن کیا گیا اور مشاعرے کا آغاز کیا گیا مگر صفدر سلیم نے مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے ہی جس طرح کا ماحول بنا دیا تھا اُس کے بعد کسی شاعر کے لیے گل و بلبل کے مضمون والی غزلیں سُنانا نامکمن تھا ۔۔ لہذا ہو کوئی بڑھ کر اپنی انقلابی غزلیں نظمیں سُنا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا یہ ہحجوم نعرے لگاتا سڑکوں پہ نکل آئے گا اور مُلک میں انقلاب آ جائے گا ، انقلاب تو نہیں آیا مگر مسعود قمر ریاض مجید ، زاہد فخری ارشد جاوید صفدر سلیم سیال فضل حسین راہی اور دوسرے پڑھنے والے شاعروں کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ۔
لائیل پور کے حلقہ پہ کوئی آفیشل پابندی تو نہیں تھی مگر جب میں نے اگلے ہفتحہ محفل ہوٹل میں اجلاس کرنا چاہا تو پولیس نے آ کر مجھ سے رجسرڈ چھین لیا اور اجلاس سے منع کر دیا۔ سب سے عجیب حالت زاہد فخری کی تھی کہاں تو اُسے کوئی عہدہ ملنے کی اُمید تھی اور کہاں اب اُس کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ،
میں اور فضل حسین راہی الخیام مین چائے پی رہے تھے کہ زاہد فخری ایک شاعر دوست کے ساتھ آیا اور مجھے کار میں بیٹھا کر مونسپل کارپوریشن کے مجسڑ یٹ صفدر کی کوٹھی لے گیا ، جہاں مجسڑیٹ نے پہلے سے ایک لکھا بیان اور قلم میرے ہاتھ پکڑا دیے اور زاید فخری نے ذرا دھمکی کے انداز میں مجھے کہا ،، مسعود اب تو دستخط کر کے کی ہی جانا پڑھے گا ، میں نے بیان پڑھا تو اس پہ لکھا تھا ،، مونسپل کارپوریش کی انتظامیہ نے ہمیں ہال کی اجازت نہیں دی یہ میں نے مسعود قمر نے اپنے ساتھوں سمیت خود جا کر دروازے کو توڑ کر خود جا کر دروازہ کھولا ،، میں نے کہا اس پہ ،، لفظ ،، میں ،، کی بجائے ،، ہم ،، لکھ دیں تو میں دستخط کر دیتا ہوں ، ساتھ آئے دوست شاعر نے بھی مجھے دھمکی دینی شروع کر دی ( ضیا دور کے ختم ہونے پہ یہی دوست شاعر یہ والی ایف آئی آر جیب مین لیا پھرتا رہا تو اپنی مظلومیت کی کہانیاں سُناتا رہا ) بات جب جھگڑے کی صورت اختیار کیے جانے لگی تو زاہد فخری نے پینترا بدلا اور میری انقلابیت کی دم پہ پاؤں رکھ دیا اور کہا ،، مسعود انقلاب تو تم لوگوں نے ہی لانا ہے ۔کیا تم دوسروں کو بچانے کے لیے یہ ذمہ داری اہنے سر نہیں لے سکتے ،، میں نے قلم پکڑا اور دستخط کر دیے ۔ ،
پولیس ہمیں پکڑنے کے لیے چھاپے مار رہی تھی ۔۔ وحید احمد ارشاد احمد خان ، ممتاز کنول ، امجد رانا اور شہزادہ مری چلے گئے اور میں بھی لیہ سے ہوتا ہوا مری پہنچ گیا وہاں مری کے مال روڈ پہ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ادیب انور سدید کے بیٹھے انور مسعود سے ملاقات ہو گی ہے تو اس نے بتایا ،، کچھ شاعروں ن ے اپنی ضمانت کرا لی ہے
، ہماری پہلی پیشی مشتاق باسط کی عدالت میں ہوئی وہ ریاض مجید سے اپنی کوئی پرانی کیڈ کی وجہ سے سب شاعروں کو سزا دینے پہ تُلا تھا ،
اُدھر جب بھی پیشی ہوتی سارے سارے کے سارے شاعر حاضر ہی نہ ہوتے ، کبھی کوئی غائیب کبھی کوئی غائیب
ہماری خوش قسمتی تھی کہ شہر کے کچھ مجسڑیٹ مشتاق باسط کے خلاف تھے اُنھوں نے ڈپٹی کمشنر سے کہہ کر پمارا کیس شفقت بخاری کی عدالت میں لگوا دیا جس نے پہلی پیشی پہ ہی مقدمہ خارج کر دیا اور سب شاعروں کو رہا کر دیا
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154653607283390
“